برادران یوسف (ع) کی فداکاری کیوں قبول نہیں ہوئی ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات بھائی سر جھکائے باپ کے پاس پہنچے

آخر کا ر بھائیوں نے یقین کرلیا کہ ان کے بھائی بنیامین نے ایسی قبیح اور منحوس چوری کی ہے اور اس طر ح اس نے عزیز مصر کی نظروں میں ان کا سابقہ رکار ڈ سارا خراب کردیا ہے ۔ لہٰذا اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے کے لئے انہوں نے کہا: اگر اس لڑکے نے چوری کی ہے تو یہ کو ئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ا سکا بھائی یوسف (ع) بھی پہلے ایسے کام کا مرتکب ہو چکا ہے “ اور یہ دونوں ایک ماں اور باپ سے ہیں اور ہم کہ جو دوسری ماں سے ہیں ہمارا حساب کتاب ان سے الگ ہے ( قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اٴَخٌ لَہ مِنْ قَبْل ) ۔اس طرح سے انہوں نے اپنے اور بنیامین کے درمیان ایک حد فاصل قائم کرنا چاہی اور اس کا تعلق یوسف (ع) سے جوڑ دیا ۔
یہ بات سن کر یوسف (ع) بہت دکھی اور پریشان ہوئے اور ” اسے دل میں چھپائے رکھا اور ان کے سامنے اظہار نہ کیا “ ( ُ فَاٴَسَرَّھَا یُوسُفُ فِی نَفْسِہِ وَلَمْ یُبْدِھَا لَھُم) ۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ بات کہہ کر انہوں ایک بہت بڑا بہتان باندھا ہے لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ بس اجمالی طور پر اتنا”کہا:جس کی طرف تم یہ نسبت دیتے ہو تم اس سے بد تر ہو “ یا”میرے نزدیک مقام ومنزلت کے لحاظ سے تم بد ترین لوگ ہو “ ( قَالَ اٴَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا) ۔
اس کے بعد مزید کہا: جو کچھ تم کہتے ہو خدا اس کے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے ( وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ یوسف (ع) کے بھائیوں نے ان بحرانی لمحوں میں اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لئے اپنے بھائی یوسف (ع) پر ایک ناروا تہمت باندھی تھی لیکن پھر بھی اس کام کے لئے کوئی بہانہ اور سند ہونا چاہئیے جس کی بناء پر وہ یوسف (ع) کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ اس سلسلے میں مفسرین کا وش و زحمت میں پڑے ہیں اور گزشتہ لوگوں نے تواریخ سے انہوں نے تین روایات نقل کی ہیں ۔
پہلی یہ کہ یوسف (ع) اپنی ماں کی وفات کے بعد اپنی پھوپھی کے پاس رہا کرتے تھے اور انہیں یوسف (ع) سے بہت زیادہ پیار تھا جب آپ بڑے ہو گئے اور حضرت یعقوب (ع) نے انہیں ان کی پھوپھی سے واپس لینا چاہا تو ان کی پھوپھی نے ایک منصوبہ بنایا او روہ یہ کمر بند یا ایک خاص شال جو حضرت اسحاق (ع)کی جانب سے ان کے خاندان میں بطور یاد گار چلی آرہی تھی یوسف (ع) کی کمر سے باندھ دی اور دعویٰ کیا کہ یوسف (ع) اسے چھپا لے جانا چاہتا تھا ایسا انہوں نے اس لئے کیا تاکہ اس خاص کمر بند یا شال کے بدلے یوسف (ع) کو اپنے پاس رکھ لیں ۔
دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت یوسف (ع) کے مادری رشتہ داروں میں سے ایک کے پاس ایک بت تھا جسے یوسف (ع) نے اٹھا کر توڑ دیا اور اسے سڑک پر لا پھینکا لہٰذا انہوں نے حضرت یوسف (ع) پر چوری کا الزام لگا دیا حالانکہ اس میں تو کوئی گناہ نہیں تھا۔
تیسری روایت یہ ہے کہ کبھی کبھار وہ دسترخوان سے کھانا لے کر مسکینوں اور حاجت مندوں کو دے دیتے لہٰذا بہانہ تراش بھائیوں نے اسے بھی چوری کا الزام دینے کے لئے سند بنا لیا حالانکہ ان میں سے کوئی چیز گناہ کے زمرے میں نہیں آتی ۔
اگر ایک شخص کسی کو کوئی لباس پہنادے اور پہنے والا نہ جانتا ہو کہ یہ کسی دوسرے کا مال ہے تو کیا اسے چوری کا الزام دینا صحیح ہے ۔
اسی طرح کیا کسی بٹ کو اٹھا کر پٹخ دینا گناہ ہے ۔
نیز انسان کو ئی کوئی چیز اپنے باپ کے دستر خوان سے اٹھا کر مسکینوں کو دےدے جب کہ اسے یقین ہو تو کیا اسے گناہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔
بھائیوں نے دیکھا کہ ان کے چھوٹے بھائی بنیامین کو اس قانون کے مطابق عزیز مصر کے پاس رہنا پڑے گا جسے وہ خود قبول کرچکے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے باپ سے پیمان باندھا تھا کہ بنیامین کی حفاظت اور اسے واپس لانے کے لئے اپنی پوری کوشش کریں گے ۔ ایسے میں انہوں نے یوسف (ع) کی طرف رخ کیا جسے ابھی تک انہوں نے پہچانا نہیں تھا اور ” کہا : اے عزیز مصر :اے بزرگوار صاحبِ اقتدار ! اس کا باپ بہت بوڑھا ہے اور وہ اس کی جدائی کو بر داشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہم نے آپ کے اصرار پر اسے باپ سے جدا کیا اور با پ نے ہم سے تاکیدی وعدہ لیا کہ ہم ہر قیمت پر اسے واپس لائیں گے ۔ اب ہم پر احسان کیجئے اور اس کے بدلے میں ہم سے کسی ایک کو رکھ لیجئے “ ( قَالُوا یَااٴَیُّھَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَہُ اٴَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ اٴَحَدَنَا مَکَانَہُ) ۔کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ نیکو کاروں میں سے ہیں “ اور یہ پہلا موقع نہیں کہ آپ نے ہم پر لطف و کرم اور مہر بانی کرکے اپنی کرم نوازیوں کی تکمیل کیجئے ۔ ( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ) ۔
حضرت یوسف (ع) نے اس تجویز کی شدت سے نفی کی او ر” کہا : پناہ بخدا ۱ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس سے ہمارا مال و متاع بر آمد ہو اہے ہم اس کے علاوہ کسی شخص کو رکھ لیں “ کبھی تم نے سنا ہے کہ ایک منصف مزاج شخص نے کسی بے گناہ کو دوسرے کے جرم میں سزا دی ہو( قَالَ مَعَاذَ اللهِ اٴَنْ نَاٴْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہُ ) ۔اگر ہم ایسا کریں تو یقینا ہم ظالم ہوں گے ( إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے اپنی اس گفتگو میں بھائی کی طرف چوری کی کوئی نسبت نہیں دی بلکہ کہتے ہیں کہ ” جس شخص کے پاس سے ہمیں ہمارا مال و متاع ملا ہے “ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اس امر کی طرف سنجیدگی سے متوجہ تھے کہ اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی غلط با ت نہ کریں ۔

۸۰۔ فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْہُ خَلَصُوا نَجِیًّا قَالَ کَبِیرُھُمْ اٴَلَمْ تَعْلَمُوا اٴَنَّ اٴَبَاکُمْ قَدْ اٴَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اللهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ فَلَنْ اٴَبْرَحَ الْاٴَرْضَ حَتَّی یَاٴْذَنَ لِی اٴَبِی اٴَوْ یَحْکُمَ اللهُ لِی وَھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ۔
۸۱۔ ارْجِعُوا إِلَی اٴَبِیکُمْ فَقُولُوا یَااٴَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَھِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ۔
۸۲۔ وَاسْاٴَلْ الْقَرْیَةَ الَّتِی کُنَّا فِیھَا وَالْعِیرَ الَّتِی اٴَقْبَلْنَا فِیھَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ۔
\

ترجمہ

۸۰۔ جب ( بھائی) ا س سے مایوس ہو گئے تو ایک طرف گئے اور آپس میں سر گوشی کی ۔ ان میں سے سب سے بڑے نے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ سے تم سے الہٰی پیمان لیا تھا اور اس سے پہلے تم سے یوسف (ع) کے بارے میں کوتاہی کی تھی لہٰذامیں اس سر زمین سے نہیں جاوٴں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت نہ دے یا خدا اپنا حکم میرے بارے میں صادر نہ فرمائے اور وہ بہترین حکم کرنے والا ہے ۔
۸۱۔ تم اپنے باپ کی طرف پلٹ جاوٴ اور اس سے کہو ابا(جان) ! تمہارے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہم جو کچھ جانتے ہیں اس کے سوا ہم نے گواہی نہیں دی اور نہ ہی ہم غیب سے آگاہ تھے ۔
۸۔ ( مزید اطمینان کے لئے ) اس شہرے سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے نیز اس قافلے سے پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں اور ہم ( اپنی بات میں ) سچے ہیں ۔
 

 

چند اہم نکات بھائی سر جھکائے باپ کے پاس پہنچے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma