چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
رعد و برق کی بر کتیں بت پرستی کیوں ؟

۱۔ موجودات کے سجدہ کرنے سے کیا مرد ہے : ایسے مواقع پر سجدہ خضوع و خشوع ، انتہائی قسم کی تواضع و انکساری اور سر تسلیم خم کرنے کے معنی میں ہے یعنی تمام فرشتے ، انسان اور سب صاحبان عقل و فکر خدا کے سامنے متواضع ہیں لیکن کچھ مخلوقات سجود، تکوینی کے علاوہ سجود تشریعی کی بھی حامل ہیں ۔
سجود تشریعی  یعنی اپنے ارادے اور رضاو رغبت سے کئے جانے والے سجدے ۔
جب سجود تکوینی کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی مخلوق موت و حیات ، نشو وتکامل اور سلامتی و بیماری وغیرہ کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے تو تسلیم و خضوع کی یہ حالت در حقیقت قوانین آفرینش کے لئے ان کی طرف سے ایک قسم کا سجدہ تکوینی ہے ۔
۲۔ طوعاً و کرھاً سے کیا مراد : ہو سکتا ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ مومنین بارگاہ پروردگار میں رضاو رغبت سے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اس کے سامنے خضوع کرتے ہیں لیکن غیر مومنین اگر چہ ایسے سجدے کے لئے تیار نہیں ہیں تا ہم ان کے وجود کے تمام ذرات قوانین ِ آفرینش کے پیش نظر فرمان خدا کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ، وہ چاہیں یا نہ چاہیں ۔
ضمنا ً توجہ رہے کہ ”کرہ“ ( بر وزن ”جرم “ ) اس کراہت کے معنی میں ہے جس کا سر چشمہ انسان کا اندر اور باطن ہے اور”کرہ“ ( بروزن ” شرح “) اس کراہت کے معنی میں ہے جس عامل بیرونی اور خارجی ہو ۔ زیر بحث مقام پر چونکہ غیر مومنین خارج از ذات عوامل کے زیر اثر قوانین ِ آفرینش کے مقہور و مغلوب ہیں اس لئے ”کرہ “ ( بر وزن ”شرح “) استعمال ہوا ہے ۔
”طوعاً و کرھاً“ کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ” طوعاً“ سے مراد عالم خلقت کے وہ واقعات ہیں جو ایک موجود کی فطری اور طبیعی رضا و رغبت کے موافق ہیں ( مثلاً زندہ رہنے کے لئے موجودِزندہ کی رغبت ) اور ”کرھاً“ سے مراد وہ میلان ہے جو ایک وجود کو خارج سے لاحق ہو۔ مثلاً جراثیم کے حملے سے ایک زندہ موجود کی موت۔
۳۔ ”ظلال“ کامفہوم :”ظلال “جمع ”ظل“ کی ، جو ”سایہ “ کے معنی میں ہے ۔ مندرجہ بالا آیت میں اس لفظ کا ذکر نشاندہی کرتا ہے کہ ”سجود “ سے مراد صرف تشریعی سجدہ نہیں کیونکہ موجودات کے سایہ تو اپنا کوئی ارادہ و اختیار نہیں رکھتے بلکہ وہ تو روشنی کہ چمک کے قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں ، اس بناء پر ان کا سجدہ تکوینی ہے  یعنی وہ قوانین ِ آفرینش کے سامنے سر تسلیم کم کئے ہوئے ہیں ۔
البتہ لفظ ”ظلال “ کے ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ زمین و آسمان کی تمام موجودات کا وجود مادی ہے اور ان سب کا سایہ ہوتا ہے بلکہ یہ صرف ان موجودات کی طرف اشارہ ہے کہ جن کا سایہ ہوتا ہے ۔ مثلاً جب کہا جاتا ہے کہ شہر کے علماء اور ان کے فرزندوں نے فلاں مجلس میں شر کت کی تو ا س کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے فرزندوں نے شر کت کی کہ جن کے فرزند تھے ۔ اس جملے سے ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ شہر کے تمام علماء صاحبِ اولاد ہیں (غورکیجئے گا
بہر حال سایہ اگر چہ ایک عدی چیز کے علاوہ کچھ نہیں کہ جو روشنی کا فقدان اور نہ ہونا ہی ہے لیکن چونکہ ہر طرف سے نو رکا وجود اس کا احاطہ کئے ہوتا ہے لہٰذا اس کی بھی ایک موجودیت ہے اور وہ بھی آثار رکھتا ہے ۔ مندر جہ بالا آیت میں اس لفظ کی تصریح شاید تاکید کے لئے ہے کہ موجودات کے سائے تک بار گاہ خدا وندی میں سر خمیدہ ہیں ۔
۴۔ ”آصال “اور” غدو“ کامطلب :یہ ” اصل “( بر وزن ”دھل “) جمع ہے اور ”اصل“بھی اور اصیل“ جمع ہے کہ جو ”اصل “کے مادہ سے لی گئی ہے اور یہ دن کے آخری حصے کو کہتے ہیں اس لئے کہ دن کا یہ حصہ رات کی اصل اور بنیاد شمار ہوتا ہے ۔
نیز ”غدو“ جمع ہے ”غداة“ کی کہ جو دن کے پہلے حصے کے معنی میں ہے ( اور بعض اوقات یہ مصدری معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ) ۔
اگر چہ حکم خدا کے سامنے عالم ِ ہستی کی موجودات کا سجدہ اور خضوع صبح اور عصر کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر وقت ہے پھر بھی ان دو مواقع کا ذکر یاتو اس امر کے دوام کے لئے کنایہ ہے مثلاً کہتے ہیں کہ فلاں شخص صبح و شام تحصیلِ علم میں مشغول ہے یعنی ہمیشہ تحصیل علم میں محو ہے اور یا اس بناء پر ہے کہ گزشتہ جملے میں موجودات کے سایوں کے بارے میں گفتگو ہوئی تھی اور سائے دن کے آغاز اور اختتام پر دیگر اوقات کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں ۔


۱۶۔ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ قُلْ اللهُ قُلْ اٴَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِہِ اٴَوْلِیَاءَ لاَیَمْلِکُونَ لِاٴَنفُسِھمْ نَفْعًا وَلاَضَرًّا قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاٴَعْمَی وَالْبَصِیرُ اٴَمْ ھَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ اٴَمْ جَعَلُوا لِلَّہِ شُرَکَاءَ خَلَقُوا کَخَلْقِہِ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ قُلْ اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ۔

ترجمہ

کہو آسمان اور زمین کا پر وردگار کون ہے ؟ کہہ دو : تم نے اپنے لئے اس کے علاوہ اولیاء ( اور خدا) بنالئے ہیں ، کہ جو اپنے سودو زیاں کے ( بھی ) مالک نہیں ہیں ( چہ جائیکہ تمہارے ) ۔ کہو : کیا بینا اور نابینا برابر ہیں یا ظلمتیں اورنور برا بر ہیں ؟ کیا انہوں نے انہیں خدا کا اس لئے شریک قرار دیا ہے کہ وہ خدا کا طرح خلقت رکھتے ہیں اور یہ خلقتیں ان کے لئے مشتبہ ہو گئی ہیں ؟ کہہ دو : خدا ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہے یکتا و کامیاب ۔

 

رعد و برق کی بر کتیں بت پرستی کیوں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma