حق و باطل کی منظر کشی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات قرآنی مثالیں

قرآن کے جو تعلیم وتربیت کی کتاب ہے ا س کی روش ہے کہ وہ مسائل عینی کی بنیا دپر گفتگو کرتا ہے لہٰذا اس میں پیچیدہ مسائل کو ذھن نشین کروالے کے لئے لوگوں کی روز مرہ زندگی سے عمدہ، خوبصورت اور حسی مثالیں پیش کی گئی ہیں زیر نظر آیت میں بھی توحید و شرک ، ایمان و کفر اور حق و باطل کے بارے میں گزشتہ آیات میں ذکر کئے گئے حقائق کو مجسم کرنے کے لئے ایک بہت ہی رسا اور عمدہ مثال بیان کی گئی ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : خدا نے آسمان سے پانی نا زل کیا ہے ( اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔زندگی کی بخش اور حیات آفرین پانی  نشو ونما اور حرکت کا سر چشمہ پانی ۔
اس وقت یہ پانی زمین کے دروں ،گڑھوں ، دریاوٴں اور نہروں میں ان کی وسعت کے مطابق سما جا تا ہے (فَسَالَتْ اٴَوْدِیَةٌ بِقَدَرِھَا ) ۔
چھوٹی چھوٹی ندیاں ایک دوسرے گلے ملتی ہیں ۔ تو در یا وجود میں آتے ہیں  دریا باہم مل مل جائیں تو دامن کہساز سے سیلابِ عظیم امنڈ پڑتا ہے  پانی کندھوں اور سروں سے بلند ہو جاتا ہے او رجو کچھ اس کی راہ میں آتا ہے اسے بہالے جاتا ہے ۔ ایسے میں پانی کی موجیں اور لہریں جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو جھاگ پیدا ہوتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے : سیلاب کے اوپر جھاگ اٹھتی ہے ((فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا ) ۔
”رابی “ کا مادہ ”ربو“ ( بر وزن ”غلو“) ہے ۔ یہ بلندی و بر تری کے معنی میں ہے۔ ”ربا “کہ جوسود یا اضافی رقم یا اضافی جنس کے معنی میں ہے وہ بھی اسی مادہ سے اسی معنی میں ہے چونکہ یہ اضافے اور زیادتی کا معنی دیتا ہے ۔
جھاگ صرف بارش برسنے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ جو دھاتیں آگ کے ذریعے پگھلتی ہیں تاکہ ان سے زیوارات یا دیگر اسباب ِ زندگی تیار کئے جائیں ان سے بھی پانی کی جھاگ کی طرح جھاگ نکلتی ہے (وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ اٴَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ ) ۔۱
یہ تعبیر ان کٹھالیوں کی طرف اشارہ ہے جن میں دھاتیں پگھلانے کے لئے ان کے نیچے بھی آگ ہوتی ہے اور اوپر بھی ۔ اس طرح سے نیچے آگ ہوتی ہے پھر اس کے اوپر ایسے پتھر کہ جن میں سامواد ہوتا ہے ڈالے جاتے ہیں اور پھر اس کے اوپر بھی آگ ڈالتے ہیں ۔ یہ بہترین قسم کی کٹھالی ہے کہ جن میں آگ نے پگھلنے کے قابل مواد کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہوتا ہے ۔
یہ ایک ایسی وسیع مثال بیان کی گئی ہے جو صرف پانی سے متعلق نہیں ہے بلکہ دھاتوں کے بارے میں بھی ہے چاہے وہ دھا تیں زیورات بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہوں یا دیگر اسباب ِ حیات تیار کرنے کے کام میں آتی ہوں ۔ اس کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس طرح خدا حق او رباطل کے لئے مثال بیان کرتا ہے (کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ) ۔
پھر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیاہے : لیکن جھاگ ایک طرف ہو جاتی ہے اور وہ پانی کہ جو لوگوں کے لئے مفید اور سود مند ہوتا ہوتا ہے زمین میں باقی رہ جاتا ہے (فَاٴَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَاءً وَاٴَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
فضول شوریلی اور اندر سے خالی جھاگ کہ جو ہمیشہ اوپر ہوتی ہے لیکن کوئی فائدہ بخش نہیں ہوتی اسے ایک طرف پھینک دینا چاہئیے لیکن خاموش، بے صدا، متواضع ، مفید اور سود مند پانی باقی رہ جاتا ہے اور اگر زمین کے اوپر نہ ہو تو زمین کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور زیادہ وقت نہیں گذرتا کہ رواں چشموں اور کنووٴں کی صورت میں زمین سے نکل آتا ہے اور تشنہ کاموں کو سیراب کرتا ہے ۔ درختوں کو بار آور ، گلو کو شگفتہ اور پھلوں کو تیار کرتا ہے اور ہرچیز کو سروسامان ِ حیات عطا کرتا ہے ۔
آیت کے آخر میں مزید تاکید کے طور پر اور اس آیت میں زیادہ غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس طرح خدا مثالیں بیان کرتا ہے (کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ) ۔

چند اہم نکات

اس معنی خیز مثال میں نہایت موزوں الفاظ اور جملے استعمال ہوئے ہیں ۔ حق و باطل کی منظر کشی نہایت عمدہ گی سے کی گئی ہے ۔ اس میں بہت سے حقائق پوشیدہ ہیں ۔ ان میں سے بعض کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں ۔
۱۔ حق و باطل کی شناخت کے لئے علامتیں : حق و باطل کی پہچان کہ جو در حقیقت واقعیت اور حقیقت کو خالی اور جعلی باتوں سے الگ کرنے کا نام ہے بعض اوقات انسان کے لئے اس قدر مشکل اور پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ کسی حتمی اور یقینی علامت کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور علامتوں کے ذریعے حقائق کو اوہام سے اور حق کو باطل سے جدا کرکے پہچاننا پڑتا ہے ۔ قرآن نے مذکورہ مثال میں ان علامتوں کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
الف : حق ہمیشہ مفید اور سود مند ہوتا ہے  آب شیریں کی طرح کہ جو باعث حیات ہے لیکن باطل بے فائدہ اور فضول ہوتا ہے پانی کے اوپر والی جھاگ کسی کو سیراب کرتی ہے نہ درخت اگاتی ہے ۔ کٹھالی میں پگھلنے والی دھاتوں سے نکلنے والی جھاگ بھی نہ زیور بنانے کے کام آتی ہے نہ زندگی کا کوئی اور ساز و سامان ۔ اگر اس جھاگ کا کوئی مصرف ہے تو پست اور بے وقعت جو کسی حساب و شمار میں نہیں آتا ۔ جیسے خمس و خاشاک کو جلانے کے کا م لایاجائے ۔
ب:باطل ہمیشہ مستکبر ، بالا نشین اور قال و قیل اورشور و غوغا سے پر لیکن اند سے خالی اور کھوکھلا ہوتا ہے لیکن حق متواضع ، کم صدا، باعمل ، با مقصد اور وزنی ہوتا ہے ۔2
2۔حضرت علی علیہ السلام اپنے متعلق اور اپنے دشمنوں ، جیسے اصحاب ِ جمل تھے ، کے بارے میں فرماتے ہیں
وقد ارعدوا و برقوا و مع ھٰذین الامرین الفشل ولسنا نر عد حتی نو قع ولانسیل حتی نمطر
وہ رعد بر ق کی سی گرج دکھاتے ہیں لیکن انجام کا رسکتی اور ناتوانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا لیکن اس کے بر عکس ہم جب تک کوئی اکام انجام نہ دے لیں گرج چمک نہیں دکھاے۔ ہم نہ بر سیں تو سیلاب ِ خروشاں نہیں اٹھاتے(ہمارا پر گرام عمل ہے نہ کہ باتیں کرنا ) ۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ۹۔
ج:حق ہمیشہ اپنے اوپر تکیہ کرتا ہے لیکن باطل حق کی آبرو کا سہارا لیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اپنے آپ کو حق کے لباس میں پیش کرے اور اس کے مقام سے استفادہ کرے ۔ جیسے کہا جاتا ہے :
” ہر دروغی از راست فروغ می گیرد“
یعنی ہر دروغ اور جھوٹ سچ سے فروغ حاصل کرتا ہے ۔ کیونکہ اگر سچ بات دنیا میں نہ ہوتی تو کوئی شخص کبھی جھوٹ کا اعتبار نہیں کرتااور اگر خالص جنس دنیا میں نہ ہوتی تو کوئی ملا وٹی اور جعلی چیز سے فریب نہ کھا تا۔ اس بناء پر باطل کا کم عمر فروغ اور وقتی آبرو بھی حق کی وجہ سے ہے لیکن حق ہر جگہ اپنے اوپر بھروسہ کرتا ہے اور اپنی آبرو کا سہارا لیتا ہے ۔
اسی امر کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :
لو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنہ السن المعاندین
اگر اگر باطل حق سے مل نہ جائے تو حق متلاشیوں کے لئے مخفی نہ رہے اور اگر حق باطل سے جدا ہو جائے تو بد لوگو ں کی زبان اس سے منقطع ہو جائے گی۔ 3
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں در حقیقت تین تشبیہیں ہیں ۔
۱۔ آسمان وحی سے آیات ِ قرآن کا نزول  جسے بارش کے حیات بخش قطرات کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
۲۔ انسانوں کے دلوں کو ایسی زمینوں ، دروں اور گہرائیوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی وسعت اور ظرف کے لحاظ سے استفادہ کرتے ہیں ۔
۳۔ ”شیطانی وسوسوں “ کو پانی پر پیدا ہونے والی ایسی گندی جھاگ سے تشبیہ دی گئی ہے جو پانی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ پانی کے گرنے کی جگہ کی گندگی سے پیدا ہوئی ہے ۔ اسی بناء پر نفس اور شیطان کے وسوسے مومنین کے دلوں سے بر طرف ہو جاتے ہیں اور وحی کا آپ شیریں باقی رہ جاتا ہے جو انسانوں کی ہدایت اور حیات کا موجب ہے ۔
۳۔ فائدہ ہمیشہ اہلیت کے اعتبار سے ہوتا ہے : اس آیت سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خدائی فیض کے مبداء میں کسی قسم کا کوئی بخل، محدودیت اور ممنوعیت نہیں ہے ۔ جیساکہ آسمانی بادل ہر جگہ بغیر کسی قید کے برستے ہیں اور زمین کے مختلف حصے اور درّے اپنے وجود کی وسعت کے اعتبار سے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔جو زمین چھوٹی ہے ا س کا حصہ کم ہے اور جو بڑی ہے اس کا حصہ زیادہ ہے ۔ انسانوں کے دل اور روحیں بھی خدائی فیض سے اسی اعتبار سے مستفید ہوتی ہیں ۔
۴۔ باطل سر گرداں ہے : جس وقت سیلِ آب کسی صاف صحرا میں پہنچا ہے اور پانی کا جوش و خروش مد ہم پرجاتا ہے تو جو چیزیں پانی سے مخلوط ہوئی ہوتی ہیں آہستہ آہستہ تی نشین ہو جاتی ہیں اور جھاگ ختم ہو جاتی ہے ۔ صاف و شیریں پانی نمایاں ہو جاتا ہے ۔ باطل بھی اسی طرح پریشاں حال ہے وہ مفاد اٹھانے کے چکر میں ہے لیکن جس وقت سکون آتا ہے اورہرشخص اپنے مقام پر بیٹھ جاتا ہے حقیقی معیار اور ضابطے معاشرے میں ظاہر ہوتے ہیں تو پھر باطل کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور وہ جلدی ہی رفو چکر ہو جا تا ہے ۔
۵۔ باطل صرف ایک لبادہ میں نہیں ہوتا: باطل کی خصوصیت میں سے ہے کہ لمحہ بہ لمحہ شکلیں اور لباس بدلتا رہتا ہے ۔ تاکہ اگر اسے ایک بہروپ میں پہچان لیا جائے تو وہ دوسرے میں اپنے تئیں چھپا لے ۔
مندرجہ بالا آیت میں بھی اس معالے کی طرف ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جھاگ نہ صرف پانی پر ظاہر ہوتی ہے بلکہ ہر بھٹی، ہر کٹھالی اور سانچے میں سے کہ جس میں دھاتوں کو پگلایا جاتا ہے نئی جھاگ نئی شکل میں اور نئے لباس میں آشکار ہو تی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں حق و باطل ہر جگہ موجود ہوتا ہے جیسا کہ ہر بہنے والی چیز میں جھاگ نئی اپنی خاص شکل میں ظاہر ہوتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم شکلیں بدلنے سے دھوکا نہ کھائیں اور ہر جگہ باطل کو اس کی مخصوص صفات سے پہچان لیں کیونکہ اس کی صفات ہر جگہ ایک ہی طرح کی ہیں اور جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ان صفات کے حوالے سے باطل کو پہچان کر اسے حق سے الگ کردینا چاہئیے ۔
۶۔ ہر موجود کی بقا اس کے فائدے سے وابستہ ہے : اس سلسلے میں زیر بحث آیت میں ہے کہ جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے باقی رہ جاتی ہے (واماما ینفع الناس فیمکث فی الارض) ۔
یعنی پانی کہ جو صرف باعث حیات ہے باقی رہ جاتا ہے اور جھاگ ختم ہو جاتی ہے بلکہ دھات بھی چاہے وہ زیور کے لئے ہو چاہے اسباب زندگی تیار کرنے کے لئے اس میں سے بھی خالص دھات جو مفید ، سود مند یا صاف و شفاف اور خوبصورت و زیبا ہوتی ہے باقی رہ جاتی ہے اور جھاگ کو دور پھینک دیتی ہے ۔
اسی طرح سے انسان ، گروہ ، مکاتب فکر اور پروگرام جس قدر سود مند ہیں اس قدر بقا و حیات کا حق رکھتے ہیں اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی انسان یا باطل مکتب و مذہب ایک مدت تک باقی رہ جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی حق کی وہ مقدار ہے جو اس میں ملا ہوا ہے اور وہ اتنی مقدار کے لئے حقِ حیات پیدا کرچکا ہے ۔
۷۔ حق باطل کو کس طرح باہر نکال پھینکتا ہے : لفظ ”جفاء “ جو گر جانے او ربا ہر کی طرف جا پڑنے کے معنی میں ہے اپنے اندر ایک لطیف نکتہ لئے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ باطل اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتا اور ہمہ وقت معاشرے سے باہر جا گر نا چاہتا ہے او ریہ اسی وقت ہوتا ہے جب حق جوش میں آتا ہے اور جس وقت حق میں حرکت اور جوش و خروش پیدا ہوتا ہے تو باطل کسی بر تن کی جھاگ کی طرح اچھل کر باہر جا پڑتا ہے اور یہ بات خود اس امر کی دلیل ہے کہ حق کو ہمیشہ جوش او رجنبش و خروش میں رہنا چاہیئے تاکہ باطل کو اپنے سے دو رکھے ۔
۸۔ باطل اپنی بقا میں حق کا مقروض ہے : جیسا کہ ہم نے آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اگر پانی نہ ہوتو جھاگ کبھی بھی اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی ۔ اسی طرح اگر حق نہ ہو تو باطل کے لئے فروغ و ظہو ر ممکن نہیں ۔ اگر صالح اور اچھے لوگ نہ ہوتے تو کوئی شخص خائن اور دھو کا باز افراد سے متاثر نہ ہوتا اور ان کے فریب میں نہ آتا لہٰذا باطل کا یہ جھوٹا جولان اور فروغ بھی فروغِ حق سے بہرہ وری ہے :
کان دروغ از راست می گیرد فروغ جھوت سچ سے فروغ پاتا ہے ۔
۹۔ حق اور باطل میں ہمیشہ مقابلہ رہتا ہے : قرآن نے یہاں حق و باطل کو مجسم کرنے کے لئے ایک ایسی مثال دی ہے جوکسی مکان و زمان سے مخصوص نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کے سامنے آتا رہتا ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ حق و باطل کے مابین جنگ کوئی وقتی اور مقامی جنگ نہیں ہے ۔ صاف اور آلودہ پانی کی یہ ندیاں مخلوق پر صور پھونکے جانے تک اسی طرح جاری رہیں گی مگر یہ کہ ایک آئیڈیل معاشرے وجود میں آجائے ( مثلاً حضرت مہدی علیہ السلام کے دور قیام کا معاشرہ) ۔ کو اس مبارزہ کے اختتام کا اعلان ہو گا ۔ حق کا لشکر کامیاب ہو جائے گا ۔ باطل کی بساط الت جائے گی ۔ بشریت اپنی تاریخ کے نئے مرحلے میں داخل ہو گی اور جب تک یہ تاریخی مرحلہ نہ آجائے ہر جگہ حق و باطل کے تصادم کی انتظار میں رہنا چاہئیے اور باطل کے مقابلے کے لئے ضروری اہتمام کرنا چاہئیے ۔
۱۰۔ زندگی جہاد و جستجو کے سائے میں : زیر بحث آیت میں دی گئی خوبصورت مثال زندگی کی اس بنیادی حقیقت کو بھی واضح کرتی ہے کہ زندگی بغیر جہاد کے بقا و سر بلندی بغیر سعی و کوشش کے ممکن نہیں ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ وسائل زندگی یا زیور کی تیاری کے لئے جو کچھ بھٹیوں اور کٹھالیوں میں ڈالتے ہیں اس میں سے ہمیشہ غیر ضروری مواد نکلتا ہے اور جھاگ پیدا ہوتی ہے اور یہ دو قسم کے وسائل یعنی ضروری اور رفاہی وسائل (ابتغاء حلیة او متاع) حاصل کرنے کے لئے اصلی مواد کو جو عالم ِ طبیعت میں اصلی شکل میں نہیں مل سکتا اور ہمیشہ دوسری چیز وں میں ملا ہوتا ہے اسے ااگ کی کٹھالی میں ڈالنا پڑتا ہے اور اسے پاک صاف کرنا پڑتا ہے تاکہ خالص دھات میسر آسکے اور یہ کام سعی و جستجو کے بغیر ممکن نہیں ۔
اصولی طور پر دنیا وی زندگی کا مزاج یہ ہے کہ گلوں کے ساتھ خار م نوش کے ساتھ نیش ، اور کامیابیوں کے ساتھ مشکلات ہوتی ہیں ۔ قدیم زمانے کی کہاوت ہے کہ :
خزانے ویرانوں میں ہوتے ہیں اور ہر خزانے کے اوپر ایک اژدھا سویا ہوا ہے ۔
کیا یہ ویرانے اور اژدھا سوائے مشکلات کے کسی اور چیز کا نام ہے کہ جو کامیابی کے راستے میں موجود ہیں ۔
ایرانی داستانوں میں بھی رستم کی داستان میں ہے کہ وہ کامیابی تک پہنچنے کے لئے مجبور تھا کہ سات خوان سے گزرے کہ جن میں سے ہر ایک انبوہِ مشکلات کی طرف اشارہ ہے کہ جو ہر مثبت کام کے راستے میں در پیش ہوتی ہیں ۔
بہر حال قرآن نے یہ حقیقت با رہا بیان فرمائی ہے کہ انسان کوئی کامیابی مشکلات اور تکالیف اٹھائے بغیر حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس کے لئے قراان میں مختلف عبارتیں ہیں ۔ سورہ بقرہ کی آیہ ۲۱۴ میں ہے :
”ام حسبتم ان تدخلوا الجنة و لما یاٴتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم الباٴساء و الضراء و زلزلوا حتی یقول الرسول و الذین اٰمنوا معہ متی نصر اللہ قریب “
کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ کہ تمام آسانی سے جنت میں جا پہنچو گے اور تمہیں وہ حوادث پیش نہیں اائیں گے جو گزشتہ لوگوں کو در پیش ہوئے ، وہی لوگ کہ جنہیں دشواریاں اورتکلیفیں در پیش ہوئیں اور وہ ایسے دکھ درد میں مبتلا ہوئے کہ پیغمبر اور ان کے ساتھ اہل ایمان کہنے لگے کہ خدا کی مدد کہا ںہے تو ان بہت ہی سخت اور دردناک لمحات میں خدائی نصرت ان کے پاس آپہنچی اور ان سے کہا گیا کہ خدا ئی مدد قریب ہے ۔

 


۱۔اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے
اس معنی خیز زیور اور متاع حاصل کرنے کے لئے آگ روشن کرتے ہیں اس سے پانی کی جھاگ کی طرح جھاگ حاصل ہوتی ہے ۔
۲۔ ”زبد“ کیا ہے ؟ ”زبد“ پانی کے اوپر والی یا ہر قسم کی جھاگ کو کہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ آبِ شیریں پر بہت کم جھاگ آتی ہے کیونکہ پانی کے خارجی اجسال سے آلودہ ہونے کی وجہ سے جھاگ پیدا ہوتی ہے ۔ یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اگر حق اپنی اصل صفائی اور پاکیزگی پر رہے تو ا س کے اطراف میں باطل کی جھاگ کبھی پیدا نہ ہوگی لیکن جب حق آلودہ گندے ماحول میں ہو اور حقیقت خرافات میں کھو جائے ، درستی نا درستی سے مل جائے اور پاکیزگی ناپاکی سے خلط ملط ہو جائے تو باطل کی جھاگ اس کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے ۔
3۔ نہج البلاغہ ،خطبہ۔۵۰۔
چند اہم نکات قرآنی مثالیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma