آخرکار باپ راضی ہو گئے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات چند اہم نکات

حضرت یوسف (ع) کے بھائی مالا ہو کر خوشی خوشی کنعان واپس آئے لیکن آئندہ کی فکر تھی کہ اگر باپ چھوٹے بھائی (بنیامین )بھیجنے پر راضی نہ ہوئے تو عزیز ان کی پذیرائی نہیں کرے گا اور انہیںغلے کا حصہ بھی نہیں دے گا ۔
اسی لئے قرآن کہتا ہے : جب وہ باپ کے پاس لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا ابا جان ! حکم دیا گیا ہے کہ آئندہ ہمیں غلے کا حصہ نہ دیا جائے اور پیمانہ ہم سے روک دیا جائے ( فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی اٴَبِیھِمْ قَالُوا یَااٴَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ ) ۔ اب جب یہ صورت در پیش ہے ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ ہم پیمانہ حاصل کر سکیں ( فَاٴَرْسِلْ مَعَنَا اٴَخَانَا نَکْتَلْ ) ۔۱
اور آپ مطمن رہیں ہم اس کی حفاظت کریں گے (وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) ۔
باپ کہ جسے یوسف (ع) ہر گز نہ بھولتا تھا یہ بات سن کر پریشان ہوگیا ، ان کی طر فرخ کرکے اس نے کہا: کیا میں تم پر اس بھائی کے بارے میں بھروسہ کرلوں کہ اس کے بھائی یوسف (ع)کے بارے میں گزشتہ زمانے میں تم پر بھروسہ کیا تھا ( قَالَ ھَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْہِ إِلاَّ کَمَا اٴَمِنتُکُمْ عَلَی اٴَخِیہِ مِنْ قَبْلُ) ۔
یعنی جب تمہارا ایسا بر اماضی ہے کہ جو بھولنے کے قابل نہیں تو تم کس طرح توقع رکھتے ہو کہ دوبارہ تمہاری فرمائش مان لوں اور اپنے فرزند دلبند کو تمہارے سپرد کروں اور وہ بھی ایک دور دراز سفر اور پرائے دیس کے لئے ۔ اس کے بعد اس نے مزید کہا: ہر حالت میں خدا بہترین محافظ اور ارحم الراحمین ہے ۔
( فَاللهُ خَیْرٌ حَافِظًا وَھُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ) ۔
ہوسکتا ہے یہ جملہ اس طرف اشارہ ہوکہ تم جیسے برے ماضی والے افراد کے ساتھ میرے لئے مشکل ہے کہ بنیامین کو بھیجوں اوربھیجوں گا ، بھی تو خدا کی حفاظت میں اور اس کے ارحم الراحمین ہونے کے بھروسے پر نہ کہ تمہارے بھروسے پر ۔
لہٰذا مندرجہ بالا جمہ ان کی فرمائش قبول کرنے کی طرف قطعی اشارہ نہیں ہے بلکہ ایک احتمالی بات ہے کیونکہ بعد والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (ع) نے ابھی تک ان کی فرمائش قبول نہ کی تھی اور آپ نے پختہ عہد لینے اور پیش آمدہ دیگر واقعات کے بعد اسے قبول کیا۔
دوسرا یہ کہ ممکن ہے حضرت یوسف (ع) کی طرف اشارہ ہو کیونکہ اس موقع پر انہیں یوسف (ع) یاد آگئے اور وہ پہلے سے بھی جانتے تھے کہ وہ زندہ ہیں (اور بعد والی آیات میں بھی ہم پڑھ گئے ہیں کہ انہیں حضرت یوسف (ع) کے زندہ ہونے کا اطمینان تھا ) لہٰذا آپ نے ان کے محفوظ و سلامت رہنے کی دعا کی کہ خدا یا ! وہ جہاں کہیں بھی ہیں انہیں سلامت رکھ۔
پھر ان بھائیوں نے جن اپنا سامان کھولاتو انہوں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ وہ تمام چیزیں جو انہوں نے غلے کی قیمت کے طور پر عزیز مصر کو دی تھیں سب انہیں لوٹا دی گئی ہیں اور وہ ان کے سامان میں موجود ہیں ( وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَھُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَھُمْ رُدَّتْ إِلَیْھِمْ) ۔
جب انھوں نے دیکھا کہ یہ تو ان کی گفتگو پر سند قاطع ہے تو باپ کے پا س آئے اور ” کہنے لگے : ابا جان ! ہمیں اس سے بڑھ کر او رکیا چاہئیے ، دیکھئے انہوں نے ہمارا تمام مال و متاع ہمیں واپس کردیا ہے “۔ ( قَالُوا یَااٴَبَانَا مَا نَبْغِی ھَذِہِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا)2
کیا اس سے بڑ ھ کر کوئی عزت و احترام او رمہر بانی ہو سکتی ہے کہ ایک غیر ملک کا سر براہ ایسے قحط اور خشک سالی میں ہمیں اناج بھی دے اور اس کی قیمت بھی واپس کردے ، وہ بھی ایسے کہ ہم سمجھ ہی نہ پائیں اور شرمندہ نہ ہوں ؟ اس سے بڑھ کر ہم کیا تصور کرسکتے ہیں ؟ ؟
ابا جان ! اب کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے ساتھ بھیج دیں ” ہم اپنے گھر والوں کے لئے اناج لے آئیں گے “۔ ( وَنَمِیرُ اٴَھْلَنَا ) ۔۲
۲۔” نمیر “ میرہ “ مادہ سے کھانا اور غذائی مواد حاصل کرنے کے معنی میں ہے ۔
اور اپنے بھائی کی حفاظت کی کوشش کریں گے “۔وَنَحْفَظُ اٴَخَانَا) ۔” نیز اس کی وجہ سے ایک اونٹ کا بار بھی زیادہ لائیں گے ۔ ( وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیر) ۔اورعزیر مصر جیسے محترم ، مہربان اور سخی شخص کے لئے کہ جسے ہم نے دیکھا ہے ایک آسان اور معمولی کام ہے ( ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ ) ۔
۳۔”ذٰلک کیل یسیر“ میں یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت یوسف (ع) کے بھائیوں کامقصد یہ تھا کہ جو کچھ لے آئے ہیں یہ تو تھو ڑا سا پیمانہ ہے اگر ہمارا چھوٹا بھائی ہمارے ساتھ چلے تو ہم زیاد ہ غلہ حاصل کرسکتے ہیں ۔
ان تمام امور کے باوجود حضرت یعقوب (ع) اپنے بیٹے بنیامین کو ان کے ساتھ بھیجنے کے لئے راضی نہ تھے لیکن دوسری طرف ان کا اصرار تھا جو واضح منطق کی بنیاد پر تھا ۔ یہ صورت ِ حال انہیں آمادہ کرتی تھی کہ وہ ان کی تجویز قبول کرلیں ۔ آخر کار انہوں نے دیکھا کہ اس کے بغیر چارہ نہیں کہ مشروط طور پر بیٹے کوبھیج دیا جائے ۔ لہٰذا آپ نے انہیں اس طرح سے ” کہا : میں اسے ہر گز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا ، جب تک کہ تم ایک خدائی پیمان نہ دو اور کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے مجھے اعتماد پیدا ہو جائے کہ تم اسے واپس لے کر آوٴ گے مگر یہ کہ موت یا موت یا اور عوامل کی وجہ سے یہ امر تمہارے بس میں نہ رہے ( قَالَ لَنْ اٴُرْسِلَہُ مَعَکُمْ حَتَّی تُؤْتُونِی مَوْثِقًا مِنْ اللهِ لَتَاٴْتُونَنِی بِہِ إِلاَّ اٴَنْ یُحَاطَ بِکُم) ۔
موثقاً من اللہ“سے مراد وہی قسم ہے جو خدا کے نام کے ساتھ ہے ۔
الا ان یحاط بکم “کامعنی اصل میں یہ ہے :
” مگر یہ کہ جو حوادث سے مغلوب ہو جاوٴ“۔
یہ جملہ ہوسکتا ہے موت یا ایسے دوسرے حوادث کے لئے کنایہ ہو جو انسان کو بے بس کردیں ۔ 3
واحیط بثمرہ ( کہف ۔ ۴۲) لیکن واضح زیربحث آیات میں مراد بالخصوص ہلاکت نہیں ہے بلکہ ایسا عذر ہے جس کے باعث انسان کا اختیار ختم ہو جائے ۔
یہ استثناء حضرت یعقوب (ع) کی عظیم دانائی کی علامت ہے ۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنے بیٹھے بنیامین سے اس قدر محبت رکھتے تھے انہوں نے اپنے دوسرے بیٹوں کو ایسی مشکل میں نہیں ڈالا جو ان کے بس میں نہ ہو لہٰذا کہا کہ میں تم سے اپنا بیٹا چاہتاہوں مگر یہ کہ ایسے حوادث پیش آجائیں جو تمہاری قدرت سے ماوراء ہوں اس صورت میں تمہاراکوئی گناہ نہ ہو گا۔
واضح ہے کہ اگر ان میں سے بعض کسی حادثے میں گرفتار ہو جاتے اور ان سے قدرت چھن جاتی تو باقی رہ جانے والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ باپ کی امانت اس تک پہنچا دیں ، اسی لئے حضرت یعقوب (ع) کہتے ہیں : مگر یہ کہ تم سب حوادث سے مغلوب ہو جاوٴ ۔
بہر حال یوسف (ع) کے بھائیوں نے باپ کی شرط قبول کرلی اور جب انہوں نے اپنے والد سے عہدو پیمان باندھا تو یعقوب (ع) نے کہا : شاہد ، ناظر اور محافظ ہے ، اس بات پر کہ جو ہم کہتے ہیں ( فَلَمَّا آتَوْہُ مَوْثِقَھُمْ قَالَ اللهُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ) ۔

 


۱۔” نکتل “ اصل میں ” کیل “ کے مادہ سے ” نکتال “ تھا یہ پیمانے سے کوئی چیز حاصل کرنے کے معنی میں ہے لیکن ” کال “ پیمانے سے کوئی دینے کے معنی میں ہے ۔
2۔ہوسکتا ہے ” مانبغی“ استفہامیہ جملہ ہو اور اس کی تقدیر ” مانبغی وراء ذٰلک “ ( ہمیں اس سے زیادہ اور کیاچاہئیے ) ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نافیہ ہو اور اس کی تقدیر اس طرح ہو :” مانبغی بذٰلک الکذب۔ او۔ مانبغی منک دراھم “ (ہم جھوٹ نہیں بولنا چاہتے یا یہ کہ ہم اور پیسے آپ سے نہیں چاہتے یہی مال کافی ہے ۔
3۔ یہ تفسیر قرآن مجید میں کئی مقامات پر صرف ہلاکت او رنابودی کے معنی میں استعمال ہوئی ہے ۔مثلاً وظنوا انھم احیط بھم ( یونس ۔۲۲)

 

چند اہم نکات چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma