قطعی اور قابل ِ تغیر حوادث

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
ایک اہم نکتہ دو اہم نکات

ان آیا ت میں بھی نبوت سے مربوط مسائل کا سلسلہ جاری ہے ۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : جیسے ہم نے اہل کتاب اور گزشتہ انبیاء پر آسمانی کتاب نازل کی ویسے ہی یہ قرآن بھی تم پر نازل کیا ہے اس حالت میں کہ یہ واضح و آشکار احکام پر مشتمل ہے ( وَکَذَلِکَ اٴَنزَلْنَاہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا ) ۔
جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے ” عربی “ فصیح اور واضح گفتگو کے معنی میں ہے :
الفصیح البین من الکلام
لہٰذا جس وقت کہا جاتا ہے :” امراٴة روبة“تو اس کامفہوم ہے :” جو عورت اپنی عفت و پاکدامنی سے آگاہ ہو“۔
اس کے بعد راغب مزید کہتا ہے :
قولہ حکماًعربیاً قیل معناہ مفصحاً یحق الھق ویبطل الباطل
یہ جو خدا نے فرمایا ہے ” حکماً عربیاً“ اس کا مفہوم ہے ایسی واضح اور آشکار گفتگو جو حق کو ثابت کرتی ہے اور باطل کا بطلان کرتی ہے ۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ”عربی“ یہاں ”شریف “ کے معنی میں ہے کیونکہ لغت میں یہ لفظ اس معنی میں بھی آیاہے ۔ اس طرح اس صفت سے قرآن کی توصیف مراد یہ ہے کہ ا س کے احکام واضح و آشکار ہیں اور اسے غلط فائدہ اٹھا نے اور مختلف تعبیروں کی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی لئے اس تعبیر کے بعد دیگر آیات میں استقامت ، ٹیڑھا پن نہ ہونے اور ی اعلم و آگہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ سورہ زمر کی آیت ۲۸ میں ہے :
قراٰنا عربیاً غیر ذی عوج
یہ آشکار قرآن ہے کہ جو ہر قسم کی کجی اور ٹیڑھ پن سے پاک ہے ۔
سورہ ٴ حمٓ سجدہ کی آیہ ۳ میں ہے :
کتاب فصلت اٰیاتہ قراٰناً عربیاً لقوم یعلمون
یہ وہ کتاب ہے کہ جس کی آیات تشریح شدہ ہیں اور یہ ان کے لئے واضح و آشکار قرآن ہے کہ جو جانناچاہے ۔
اس طرح اس آیت میں قبل اور بعد کا جملہ تائید کرتا ہے کہ ” عربیت“ سے مراد بیان کا واضح ، روشن اور پیچ و خم سے خالی ہونا چاہے۔
یہ تعبیر قرآن کی سات سورتوں میں آئی ہے لیکن چند ایک مواقع پر ” لسان عربی مبین“ اور اس قسم کے دیگر الفاظ بھی آئے ہیں ۔ ممکن ہے وہ بھی اسی معنی یعنی بیان کا روشن ، واضح اور ابہام سے خالی ہونا، میں ہو۔
البتہ اس خاص موقع پر ہوسکتا ہے عربی زبان کی طرف اشارہ ہو کیونکہ خدا ہر نبی کو اس کی اپنی قوم کی زبان میں مبعوث کرتا تھا تاکہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم کو ہدایت کرے ا س کے بعد اس انقلاب کا دامن دوسری جگہوں تک پھیلائے ۔
اس کے بعدتہدید آمیز اور قاطع لہجے میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے :جب تک حقیقت تجھ پر آشکار ہوجائے تو اس کے بعد اگر تو ان کی خواہشات کی پیروی کرے تو تمہیں خدائی عذاب کے ذریعے سزا ہو گی (وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَھْوَائَھُمْ بَعْدَمَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَوَاقٍ) ۔
پیغمبر اکرم کے مقام عصمت ، معرفت اور علم و آگہی کی وجہ سے اگر چہ ان کے لئے انحراف کااحتمال یقینا نہیں ہے لیکن یہ الفاظ اولاً تو واضح کرتے ہیں کہ خدا کسی شخص کے ساتھ خصوصی ارتباط نہیں رکھتا بالفاظ دیگر اس کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے یہاں تک کہ اگر پیغمبر کا مقام بلند و بالا ہے تو ان کی تسلیم و عبودیت اور ایمان و استقامت کی بناء پر ہے ۔
ثانیاًیہ بات دوسروں کے لئے تاکید ہے کہ جہاں پیغمبر جیسی ہستی راہِ حق سے انحراف اور باطل راستے کی طرف میلان کی صورت میں خدائی سز اسے بچ نہیں سکتی تو پر دوسروں کی حیثیت واضح ہے ۔
یہ بعینہ اس طرح ہے کہ کوئی شخص اپنے اچھے اور نیک بیٹے کو مخاطب کرکے کہے ، اگر تو اپنا ہاتھ غلط کاریوں سے آلودہ کرے تو میں تجھے سزادوں گا تاکہ دوسروں کو اپنا حساب کتاب معلوم ہو جائے ۔
یہ نکتہ بھی یاد ررکھنے کے قابل ہے کہ ” ولی “ سر پرستو محافظ) اور ” واق“ ( نگہدار) اگر چہ معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں تاہم ان میں فرق یہ ہے کہ ایک مثبت پہلو کو بیان کرتا ہے اور دوسرا منفی پہلو کو ۔ ایک نصرت و مدد کرنے والے کے معنی میں ہے اور دوسرا دفاع اور حفاظت کرنے والے کے معنی میں ۔
بعد والی آیت در حقیقت ان مختلف اعتراضات ک اجواب ہے کہ جو دشمن آپ کر کرتے تھے ۔ ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر نوعِ بشر میں سے ہو اور اس کی بیوی اور بچے ہوں تو مندرجہ بالا آیت انہیں جواب دیتے ہوئے کہتی ہے : یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہم نے تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ہیں ۔ ان کی بیویاں بھی تھیں اور اولاد بھی ( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اٴَزْوَاجًا وَذُرِّیَّةً ) ۔۱
ان کے اعتراض سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تو تاریخ ِ انبیاء سے نا واقف تھے یا اپنے آپ کو نادانی او رجہالت میں رکھے ہوئے تھے ورنہ یہ اعتراض نہ کرتے ۔
دوسرا یہ کہ انہیں توقع تھی کہ وہ جو معجزہ بھی تجویز کریں اور جوبھی ان کی خواہشات کا تقاضا ہو آپ اسے انجام دیں ( چاہے وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ) لیکن انہیں جاننا چاہیئے کہ ” کوئی رسول حکم ِ خدا کے بغیر کوئی معجزہ پیش نہیں کرسکتا “ (وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اٴَنْ یَاٴْتِیَ بِآیَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ الله ِ ) ۔
تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ پیغمبر اسلام کیوں آئے ہیں اور انہوں نے تورات یا انجیل کے احکام کو کیوں تبدیل کردیا ہے ، کیا یہ آسمانی کتاب نہیں ہیں اور خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئیں ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا اپنا حکم تبدیل کردے ؟ ( یہ اعتراض خصوصاًاس امر سے پوری طرح ہم آہنگ ہے کہ یہودی نسخِ احکام کے ناممکن ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ) ۔
زیر نظر آیت اپنے آخری جملے میں انہیں جواب دیتی ہے :ہر زمانے کے لئے ایک حکم اور قانون مقرر ہوا ہے ( تاکہ بشریت اپنے آخری بلوغ تک پہنچ جائے اور آخری حکم صادر ہو)( لِکُلِّ اٴَجَلٍ کِتَابٌ ) ۔
لہٰذا مقام تعجب نہیں کہ ایک دن وہ تورات نازل کرے ، دوسرے دن انجیل نازل کرے اور پھر قرآن ۔ کیونکہ تکامل ِ حیات کے لئے مختلف اور گونا گون پو گراموں کی ضرورت ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ ”لکل اجل کتاب “ ان لوگوں ک اجواب ہو جو کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر سچ کہتا ہے تو پھر کیوں خدائی عذاب اس کے مخالف کا قلع قمع نہیں کرتا۔ قرآن انہیں جواب دیتا ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت ہے اورکوئی چیز حساب و کتاب کے بغیر نہیں ہے ۔ سزا اور عذاب کا وقت بھی آپہنچے گا۔ 2
جو کچھ گزشتہ آیت کے آخر میں کہا گیا ہے بعد والی آیت اس کے لئے تاکید و استدلال کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ یہ کہ ہر حادثے اور حکم کے لئے ایک معین زمانہ ہے جیسا کہ کہا گیا ہے :
ان الامور مرھونة باوقاتھا
اور اگر دیکھتے ہو کہ بعض آسمانی کتب دیگر کتب کی جگہ لیتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ” خدا جو چیز چاہتا ہے محو کردیتا ہے جیسے وہ اپنے ارادے اور حکمت کے تقاضے سے کچھ امر کا اثبات کرتا ہے نیز کتابِ اصلی اور ام الکتاب اس کے پاس ہے ( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ اٴُمُّ الْکِتَابِ ) ۔
آخر میں مزید تاکید کے طور پر ان عذابوں کاذکر ہے کہ پیغمبر جن کا وعدہ کرتے تھے اور وہ ان کا انتظار کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اعتراض کرتے تھے کہ تمہارے وعدے نے عملی شکل کیوں اختیار نہیں کی ۔ ارشاد ہوتا ہے : اور بعض امور کہ جن کا ہم نے وعدہ کررکھا ہے ( یعنی تیری کامیابی ، ان کی شکست، تیرے پیروکاروں کی رہائی اور ان کے پیرو کاروں کی اسارت) ہم تجھے تیری زندگی میں دکھائیں یا ان وعدوں پر عمل در آمد سے پہلے تجھے اس دنیا سے لے جائیں تیری ذمہ داری بہر صورت پر عمل در آمد سے پہلے تجھے اس دنیا سے لے جائیں تیری ذمہ داری بہر صورت ابلاغ رسالت ہے اور ہماری ذمہ داری ان سے حساب لینا ہے ( وَإِنْ مَا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُھُمْ اٴَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ ) ۔

 


۱۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے لئے ایک شان نزول ذکر کی ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم کی ایک سے زیادہ ازواج ہونے پر اعتراض کیا تھا حالانکہ سورہ رعد مکی ہے اور مکہ میں تعداد ازواج کا معاملہ در پیش نہیں تھا ۔
2۔ البتہ اس معنی کے مطابق ، جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا جملے میںتقدیم و تاخیر کا قائل ہو نا پڑے گا اور یہ کہنا پرے گا کہ تقدیر میں ”لکل کتاب اجل “ تھا ( غور کیجئے گا) ۔

 

ایک اہم نکتہ دو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma