یوسف (ع) کی بھائیوں کو نئی تجویز

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات چند اہم نکات

آخر کار جیسا کہ پیش گوئی ہوئی تھی سات سات پے در پے بارش ہونے کے سبب اور دریائے نیل کے پانی میں اضافے کے باعث مصر کی زرعی پیدا وار خوب تسلی بخش ہو گئی ۔ مصر کا خزانہ اور اقتصادی امور حضرت یوسف (ع) کے زیر نظر تھے ۔ آپ نے حکم دیا کہ غذائی اجناس کو خراب ہونے سے بچا نے کے لئے چھوٹے بڑے گودام بنائے جائیں ۔ آپ نے عوام کو حکم دیا کہ پیدا وار سے اپنی ضرورت کے مطابق رکھ لیں اور باقی حکومت کے پاس بیچ دیں ۔ اس طرح گودام غلّے سے بھر جائیں گئے ۔
نعمت و بر کت کی فراوانی کے یہ سات سال گزر گئے اور قحط سالی اور خشک سالی کا منحوس دور شروع ہوا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان زمین کے لئے بخیل ہو گیا ہے ۔ کھیتیاں اور نخلستان خشک ہو گئے ۔ عوام کو غلے کی کمی کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ جانتے تھے کہ حکومت نے غلے کے ذخائر جمع کر کھے ہیں لہٰذا وہ اپنی مشکلات حکومت ہی کے ذریعے دور کرتے تھے ۔ حضرت یوسف (ع) بھی پوری منصوبہ بندی اور پرو گرام کے تحت غلہ فروخت کرتے تھے اور عادلانہ طورپر ان کی ضرورت پوری کرتے تھے ۔
یہ خشک سالی صرف مصر ہی میں نہ تھی اطراف کے ملکوں کا بھی یہی حال تھا فلسطین اور کنعان مصر کے شمال مشرق میں تھے ۔ وہاں کے لو گ بھی انہی مشکلات سے دور چار تھے ۔ حضرت یعقوب کا خاندان بھی اسی علاقہ میں سکونت پذیر تھا ۔ وہ بھی غلے کی کمی سے دو چار ہو گیا ۔
حضرت یعقوب (ع) نے ان حالات میں مصمم ارادہ کیا کہ بنیامین کے علاوہ باقی بیٹیوں کو مصر کی طرف بھیجیں ۔ یوسف کی جگہ اب بنیامین ہی ان کے پاس تھا ۔ بہت حال وہ لوگ مصر کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ ہولئے اوربعض مفسرین کے بقول اٹھارہ دن کی مسافت کے بعد مصر پہنچے ۔
جیسا کہ تواریخ میں ہے ، ضروری تھا کہ ملک سے باہر سے آنے والے افراد مصر میں داخل ہوتے وقت اپنی شناخت کروائیں تاکہ مامورین حضرت یوسف (ع) کو مطلع کریں ۔ جب مامورین نے فسلطین کے قافلہ کی خبر دی تو حضرت یوسف (ع) نے دیکھا کہ غلے کی درخواست کرنے والوں میں ان کے بھائیوں کے نام بھی ہیں ۔ آپ انہیں پہچان گئے اور یہ ظاہر کئے بغیر کے وہ آپ کے بھائی ہیں ، آپ نے حکم دیا کہ انہیں حاضر کیا جائے اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے : یوسف (ع) کے بھائی آئے اور ا س کے پاس پہنچے تو اس نے انہیں پہچان لیا لیکن انہوں نے اسے نہیں پہچانا ( وَجَاءَ إِخْوَةُ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَعَرَفَھُمْ وَھُمْ لَہُ مُنکِرُونَ) ۔
وہ یوسف (ع) نہ پہچاننے میں حق بجانب تھے کیونکہ ایک طرف تو تیس یا چالیس سال تک کا عرصہ بیت چکا تھا ( اس دن سے لیکر جب انہوں نے حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں پھینکا تھا ان کے مصر میں آنے تک ) اور دوسری طرف وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کابھائی عزیز مصر ہو گیا ہے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ اسے اپنے بھائی کے مشابہ بھی پاتے تو ایک اتفاق ہی سمجھتے ۔ ان تمام امور سے قطع نظر حضرت یو سف (ع) کے لباس کا اندازہ بھی بالکل بدل چکا تھا ، انہیں مصریوں کے نئے لباس میں پہچاننا کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ یوسف (ع) کے ساتھ جو کچھ ہو گزرا تھا اس کے بعد ان کی زندگی کا احتمال بھی ان کے لئے بہت بعید تھا ۔
بہر حال انہوں نے اپنی ضرورت کا غلہ خرید ا اور اس کی قیمت نقدی کی صورت میں اور یا موزے ، جوتے یا کچھ اجناس کی صورت میں ادا کی کہ جو وہ کنعان سے مصر لائے تھے ۔
حضرت یوسف (ع) نے اپنے بھائیوں نے بہت محبت کا برتاوٴ کیا اور ان سے بات چیت کرنے لگے ۔ بھائیوں نے کہا: ہم دس بھائی ہیں اور حضرت یعقوب (ع) کے بیٹے ہیں ہمارے والد خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم(ع) خلیل کے پوتے ہیں ۔ اگر آپ ہمارے باپ کو پہچانتے ہوتے تو ہمارا بہت احترام کرتے ۔ ہمارا بوڑھا باپ انبیاء الٰہی میں سے ہے لیکن ایک نہایت گہرے غم نے ان کے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے ۔
حضرت یوسف (ع) نے پوچھا :
یہ غم کس بنا پر ہے ۔
انہوں نے کہا :
اس کا ایک بیٹا تھا جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا ۔ عمر میں وہ ہم سے بہت چھوٹا تھا ۔ ایک دن ہمارے ساتھ شکار اورتفریح کے لئے صحرا میں گیا ۔ ہم ا س سے غافل ہو گئے تو ایک بھیڑیا اسے چیر پھار گیا ۔ اس دن سے لے کر آج تک اس کے لئے گریاں اور غمگین ہے ۔
بعض مفسرین نے اس طرح سے نقل کیا ہے :
حضرت یوسف (ع) کی عادت تھی کہ ایک شخص کو ایک اونٹ کے بارے سے زیادہ غلہ نہیں بیچتے تھے ۔ حضرت یوسف (ع) کے بھائی چونکہ دس تھے لہٰذا انہیں غلے کے دس بار دئیے گئے ۔
انہوں نے کہا : ہمارا بوڑھا باپ ہے اور ایک چھوٹا بھائی ہے جو وطن میں رہ گیا ہے ۔ باپ غم و اندوہ کی شدت کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتا اور چھوٹا بھائی خد مت کے لئے اور مانوسیت کی وجہ سے اس کے پاس رہ گیا ۔ لہٰذا ان دونوں کا حصہ بھی ہمیں دیدیجئے ۔
حضرت یوسف (ع) نے حکم دیا کہ دو اونٹوں کے بار کا اضافہ کیا جائے ۔ پھر حضرت یوسف (ع) ان کی طرف متوجہ ہوئے او رکہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ہوشمند اور موٴدب افراد ہواور یہ جو تم کہتے ہو کہ تمہارے بھائی کو تمہارے سب سے چھوٹے بھائی سے لگاوٴ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر معمولی اور عام بچوں سے ہٹ کر ہے ۔میری خواہش ہے کہ تمہارے آئندہ سفر میں میں اسے ضرور دیکھوں۔ علاوہ ازیں یہاں کے لوگوں کو تمہارے بارے میں کئی بد گمانیاں ہیں کیونکہ تم ایک دوسرے ملک سے تعلق رکھتے ہو لہٰذا بد ظنی کی اس فضا کو دور کرنے کے لئے آئندہ سفر میں چھوٹے بھائی کو نشانی کے طور پر ساتھ لے آنا ۔
یہاں قرآن کہتا ہے :جب یوسف (ع) نے ان کے بار تیار کئے تو ان سے کہا : تمہارا بھائی جو باپ کی طرف سے ہے اسے میرے پاس لے آوٴ ( وَلَمَّا جھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ قَالَ ائْتُونِی بِاٴَخٍ لَکُمْ مِنْ اٴَبِیکُم) ۔
اس کے بعد مزید کہا : کیا تم دیکھتے ہیں ہو کہ میں پیمانہ کا حق ادا کر تا ہوں اور میں بہترین میز بان ہوں (وَلاَتَرَوْنَ اٴَنِّی اٴُوفِی الْکَیْلَ وَاٴَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) ۔
اس تشویق اور اظہار محبت کے بعد انہیں یوں تہدید بھی کی : اگر اس بھائی کو میرے پاس نہ لائے تو نہ تمہیں میرے پاس سے غلہ ملے گا اور نہ تم خود میرے پاس پھٹکنا ( فَإِنْ لَمْ تَاٴْتُونِی بِہِ فَلاَکَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَتَقْرَبُونِی ) ۔
حضرت یوسف (ع) چاہتے تھے کہ جیسے بھی ہو بنیامین کو اپنے پاس بلائیں ۔ ا س کے لئے کبھی وہ لطف و محبت کا طریقہ اختیار کرتے اور کبھی تہدید کا ۔
ان تعبیرات سے ضمنی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ مصر میں غلات کی خرید و فروخت تول کر نہیں ہوتی تھی بلکہ پیمانے سے ہوتی تھی ۔
نیز یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) اپنے بھائیوں اور دوسرے مہمانون کی بہت اچھے طریقے سے پذیرائی کرتے تھے اور ہر حوالے سے مہمان نواز تھے ۔
بھائیوں نےان کے جواب میں کہا : ہم اس کے باپ سے بات کریں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ رضامند ہوجائیں اور ہم یہ کام ضرورکریں گے ( قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اٴَبَاہُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ ) ۔
” انا لفاعلون “ کی تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ انہیں یقین تھا کہ اس سلسلے میں وہ اپنے باپ کو راضی کرلیں گے اور ا ن کی موافقت حاصل کرلیں گے ۔ اسی لئے وہ عزیز مصر ایسا کا واعدہ کررہے تھے او رایسا ہی ہونا چاہئیے تھے کیونکہ جب وہ اپنے اصرار اور آہ و زاری سے یوسف (ع) کو اپنے باپ سے لے جاسکتے تھے تو بنیامین کو کیونکر ان سے جد انہیں کرسکتے تھے ۔
اس موقع پر ان کی ہمدردی اور توجہ کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے حضرت یوسف (ع) نے ” اپنے کارندوں سے کہا کہ ان کی نظر بچا کر وہ اموال ان کے غلے میں رکھ دیں جو انہوں نے اس کے بدلے میں دئیے تھے تاکہ جب وہ واپس اپنے خاندان میں جا کر اپنا سامان کھولیں تو انہیں پہچان لیں اور دوبارہ مصر کی طرف لوٹ آئیں ( وَقَالَ لِفِتْیَانِہِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَھُمْ فِی رِحَالِہِمْ لَعَلَّھُمْ یَعْرِفُونَھا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی اٴَھْلِھمْ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ) ۔

چند اہم نکات چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma