۳۔ توکل کی حقیقت اور فلسفہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
۲۔ انبیاء اور معجزاتتوکل کا فلسفہ

۳۔ توکل کی حقیقت اور فلسفہ : ”توکل“ در اصل ”وکالت“ کے مادہ سے وکیل انتخاب کرنے کے معنی میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک اچھا وکیل وہی ہے کو کم از کم چار صفات کا حامل ہو:
۱۔ کافی علم و آگاہی ۔ ۲۔ امانت داری ۔ ۳۔ طاقت و قدرت ۔ ۴۔ ہمدردی
شاید یہ امر بھی یا دلانے کی ضرورت نہ ہو کہ مضتلد کاموں کے لئے ایک مدافع کا انتخاب اس موقع پر ہوتا ہے کہاں انسان ذاتی طور پر دفاع پر قادر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع پر دوسری قوت سے استفادہ کرتا ہے اور اس کی طاقت و صلاحیت سے اپنی مشکل حل کرتا ہے ۔
لہٰذا خد اپر توکل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں کہ انسان زندگی کی مشکلات وحوادث ، مخالفین کی دشمنیوں اور سختیوں ،پیچیدگیوں اور کبھی اہداف کے راستے میں حائل رکاوٹوں میں جب خود انہیں دور کرنے کی طاقت نہ ررکھتا ہو تو اسے پنا وکیل قرار دے اور اس پر بھروسہ کرے اور خود بھی ہمت و کوشش سے باز نہ رہے بلکہ جہاں کسی کام کو خود انجام دینے کی طاقت رکھتا ہووہاں بھی موٴ ثر حقیقی خداہی کو جانے کیونکہ ایک موحد کی چشم بصیرت کے دریچے سے دیکھا جائے تو تمام قدرتوں او ر قوتوں کا سر چشمہ وہی ہے ۔
توکل علی اللہ “ کا نقطہ مقابل یہ ہے کہ اس کے غیر پر بھروسہ کیا جائے ۔ یعنی کسی غیر پر تکیہ کرکے جینا ، دوسرے سے وابستہ ہونا اور اپنی ذات میں استقلال و اعتماد سے عاری ہونا ۔
علماء اخلاق کہتے ہیں کہ خد اکی توحید افعالی کا ثمرہٴ مستقیم توکل ہے کیونکہ جیسے ہم نے کہا ہے کہ ایک موحد کی نظر میں ہر حرکت ، ہو کوشش، ہر جنبش اور عالم میں صورت پذیر ہونے والی ہر چیز آخرکار اس جہان کی پہلی علت یعنی ذات ِ پاک خدا سے ارتباط رکھتی ہے ۔ لہٰذا ایک موٴحد کی نگاہ میں تمام طاقتیں اور کامیابیاں اسی کی طرف سے ہیں ۔

۲۔ انبیاء اور معجزاتتوکل کا فلسفہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma