۲۔ ” لو ھدانا اللہ لھدیناکم “کامفہوم : بہت سے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ اس سے مراد اس جہان میں عذاب الہٰی سے نجات کے طریقے کی ہدایت ہے کیونکہ یہ با ت مستکبرین اپنے پیروکاروں کے جواب میں کہیں گے کہ جب پیرو ان سے عذاب کا کچھ حصہ قبول کرنے کا تقاضا کریں گے سوال و جواب کا تقاضا ہے کہ مراد عذاب سے رہائی کے طریقے کی ہدایت ہو۔
اتفاق سے یہی تعبیر (ھدایت ) نعمات ِ بہشت تک پہنچنے کے بارے میں بھی نظر آتی ہے ۔ اہل جنت کی زبانی ہے :
وقالوا الحمد للہ الذی ھدانا لھذا و ماکنا لنھتدی لولا ان ھدنا اللہ
وہ کہیں گے : شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں ان نعمتوں کی طرف ہدایت کی ہے اور اگر اس کی توقیق و ہدایت نہ ہوتی تو ہمیں ان کی راہ نہ ملتی ۔ (اعراف۔۴۳)
یہ احتمال بھی ہے کہ رہبران ضلالت سے جب ان کے پیرو کار تقاضا کریں گے تو اپنے تئیں گناہ سے بری کرنے کے لئے گمراہی کے تمام علمبرداروں کی طرح کہ جو اپنی خراب کاری دوسروں کے سر تھونپ دیتے ہیں ، وہ بڑی ڈھٹائی سے کہیں گے : ہم کیا کریں اگر خدا ہمیں سیدھے واستے کی ہدایت کرتا تو ہم بھی تمہیں ہدایت کرتے یعنی ہم تو مجبور تھے اور ہمارا اپنا تو کوئی ارادہ ہی نہ تھا ۔
یہی شیطان کی منطق ہے کہ جس نے اپنے آپ کو بر ی قرار دینے کے لئے خدائے عادل کی طرف جبر کی نسبت دیتے ہوئے کہا:
فبما اغوینی لاقعدن لھم صراطک المستقیم
اب جب کہ تونے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں بھی تیرے سیدھے راستے میں بیٹھا ان کی تاک میں رہوں گا ( اور انہیں منحرف کروں گا)( اعراف۔ ۱۶) ۔
لیکن توجہ رہے کہ مستکبریں چاہیں نہ اوٴچاہیں صریح آیات ِ قرآن اور واضح روایات کی رو سے اپنے پیرو کاروں کے گناہ کی ذمہ داری کوبوجھ بہرحال انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا نا ہوگا کیونکہ وہ انحراف کی بانی اور گمراہی کے عامل تھے البتہ پیر وکاروں کی ذمہ داری اور عذاب و سزا میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی ۔