انسان اور معاشرے ختم ہو جاتے ہیں ، خدا باقی رہتا ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
دو اہم نکات سوره ابراهیم / آیه 1- 3

گزشتہ آیا ت میں روئے سخن رسول اللہ کی رسالت کے منکرین کی طرف تھا ۔ ان آیات میں اس بحث کو جاری رکھا گیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ انہیں تنبیہ کی جائے ، انہیں بیدار کیا جائے ، ان کے سامنے استدلال کیا جائے الغرض مختلف طریقوں سے انہیں عقلی راہ پر لگا کر غور و فکر کرنے اور پھر اپنی حالت کی اصلاح کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : ان مغرور اور ہٹ دھرم افراد نے دیکھا نہیں کہ ہم مسلسل زمین کے اطراف و جوانب کو کم کرتے رہتے ہیں ( اٴَوَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّا نَاٴْتِی الْاٴَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اٴَطْرَافِھَا ) ۔
واضح ہے کہ زمین سے یہاں مراد اہل زمین ہیں ۔ یعنی کیا وہ اس واقعیت کی طرف نگاہ نہیں کرتے کہ ہمیشہ اقوام ، تمدن اور حکومتیں زوال پذیر ہوتی ہیں ۔ وہ قومیں کہ جو ان سے زیادہ قوی تھیں ، زیادہ طاقتورتھیں اور زیادہ سر کش تھیں ، ان سب نے اپنے اپنے منہ می میں چھپا لئے۔ یہاں تک کہ علماء بزرگ اور دانشور کہ جو زمین کا سہارا تھے انہوں نے بھی اس جہان سے آنکھیں بند کرلیں اور ابدایت کے ساتھ وابستہ ہو گئے ۔ کیا یہ ہمہ گیر قانون ِحیات کہ جو تمام افراد، تمام انسانی معاشروں اور ہر چھوٹے بڑے پرجاری و ساری ہے ان کے بیدار ہونے کے لئے کا فی نہیں ہے کہ وہ اس چند روزہ زندگی کو ابدی نہ سمجھیں اور اسے غفلت میں نہ گزاردیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : حکومت اور فرمان جار کرنا خدا کے لئے ہے اور کسی شخص میں اس کے فرمان کو رف کرنے اور سے روکنے کا یارا نہیں ہے (وَاللهُ یَحْکُمُ لاَمُعَقِّبَ لِحُکْمِہ) ۔اور وہ سریع الحساب ہے ( وَھُوَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ۔
اس بناء پر ایک طرف تو اس نے تمام افراد اور سب قوموں کو پشیمانی پر قانون ِ فنا رقم کردیا ہے اور دوسری طرف کسی کی مجال نہیں کہ اس فرمان کو یا خدا کے دوسرے فرامین کو بدل سکے اور تیسری طرف وہ بندوں سے بڑی تیزی سے حساب لیتا ہے اور اس طر ح سے اس کی جزاء قطعی ہے ۔
کئی ایک روایات کو جوتفسیر برہان ،نور ثقلین ، دیگر تفاسیر اورکتب حدیث میں آئی ہیں ان میں زیر نظر آیت کی تفسیر علماء اور دانشمندبیان کی گئی ہے کیونکہ ان کا فقدان زمین اوراسلامی معاشرے کمی اور نقصان کا سبب بنتا ہے ۔
مفسر ِ بزرگ طبرسی اس آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں :
ننقصھا بذھاب علمائھا ، وفقھائھا و خیارھا
ہم زمین میں اس کے علماء فقہااو رنیک لوگوں کے لئے چلے جانے سے کمی واقع کریںگے ۔۱
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس وقت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام شہید ہوئے تو عبد اللہ بن عمر نے یہ آیت پڑھی:
انا ناٴتی الارض ننقصھا من اطرافھا
اس کے بعدکہا:
یا امیر المومنین لقد کنت الطرف الاکبر فی العلم ، الیوم نقص علم الاسلام و مضی رکن الایمان
اے ا میر المومنین آپ عالم ِ انسانیت میں علم انسانیت میں علم کی بہت بڑی ”طرف“ تھے ۔ آپ شہادت سے آج اسلام کا علم و دانش نقصان کی طرف جھگ گیا اور ایمان کا ستون گر گیا ۔ 2
باقی رہا یہ کہ بعض مفسرین نے احتما ل ظاہر کیا ہے کہ زمین کے نقصان سے مراد کفار کی زمینوں کاکم ہونااور مسلمان علاقوں میں اضافہ ہونا ہے اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت تو ایسی فتوحات نہیں تھیں کہ کفار جنہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور قرآن ان کی طرف اشارہ کرتا۔ نیز یہ جو بعض مفسرین کہ جوعلوم طبیعی میں مستغرق ہیں وہ زیر نظر آیت کو قبطین کی طر ف سے زمین کے کم ہونے اور استوائی جانب سے زیادہ ابھر نے کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ قرآن کی زیر نظر آیت میں یہ چیز بیان کرنے کا موقع نہیں ہے ۔
بعد والی آیت میںاسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے : صرف یہی گروہ نہیں کہ جو سازشوں اور مکرو فریب کے ساتھ تمہارے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ ” ان سے پہلے والے بھی سازشیں اور مکاریں کیا کرتے تھے “( وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ) ۔
لیکن ان کے منصوبے نقش بر آب ہو گئے اور ان کی سازشیں حکم خدا سے بے اثر ہو کر رہ گئیں کیونکہ وہ ہر شخص کے معاملات خود اس سے بہتر جانتا ہے نکہ ” تمام منصوبے خدا کے لئے ہیں “ ( فَلِلَّہِ الْمَکْرُ جَمِیعًا ) ۔وہ ہے کہ جو ہر شخص کے کسب و کار سے آگاہ ہے اور ”وہ جانت اہے کہ ہر شخص کیا انجام دیتا ہے “(یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ ) ۔
اور پھر تہدید کے لہجے میں انہیں ان کے انجام کار سے ڈرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : کفار بہت ہی جلد جالیں گے کہ انجام ِ کار اور نیک و بد عاقبت دوسرے جہان میں کس کس کے لئے ہے (وَسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ ) ۔
جس طرح سے یہ سورت قرآن اور کتاب اللہ کے ذکر سے شروع ہوئی تھی اسی طرح زیر بحث آخری آیت میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بہت زیادہ تاکید گئی ہے اور اسی پر سورہ رعد ختم ہوتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : یہ کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے ( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا )
یہ لوگ ہر روز ایک نیا بہانہ تراشتے ہیں ، ہر وقت معجزہ کا تقاضا کرتے ہیں ا ور پھر بھی آخر کار کہتے ہیں کہ تو پیغمبر نہیں ہے ۔
ان کے جواب میں کہو :یہی کافی ہے کہ دو ہستیاں میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہیں ایک اللہ اور دوسرا وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم اور قرآن کی آگاہی موجود ہے( قُلْ کَفَی بِاللهِ شَھِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ ) ۔ایک تو خودخدا جانتا ہے میں اس کا بھیجا ہوا ہوں اور دوسرے وہ لوگ کہ جو میری اس آسمانی کتاب یعنی قرآن کے بارے میں کافی آگھی رکھتے ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب انسانی دماغ کی ساختہ نہیں ہے خدایے بزرگ کے سوا یہ کسی اور کی ہو ،یہ بھی مختلف پہلووٴں سے قرآن کے اعجاز ہونے کے بارے میں ایک تاکید ہے۔اس کی تفصیل ہم دیگر خصوصا کتاب،،قرآن و آخرین پیامبر میں بیان کرچکے ہیں ۔
جو کچھ ہم نے سطوربالا میں کہا ہے اس کی بنا پر (ومن عندہ علم الکتاب)سے مراد مضامین قرآن مجید سے آگاہ افراد ہیں ۔
لیکن بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ اہل کتاب کے علماء کی طرف اشارہ ہے۔بہت سی روایات میں آیا ہے(من عندہ علم الکتاب)سے مراد حضرت علی بن ابی طالب اور دیگر ائمہ ھدی مراد ہیں ۔
اس سلسلے کی روایات تفسیر نورالثقلین اور تفسیر برہان می جمع کردی گئی ہیں لیکن یہ روایات اس بات کی دلیل نہیں کہ مفہوم آیت اسی پر منحصر نہیں ہے جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ ایک مصداق یا مصادیق تامہ وکاملہ کی طرف اشارہ ہیں ۔بہر حال یہ روایات پہلی تفسیر کہ جسے ہم نے انتخاب کیا ہے کی تایید کرتی ہیں ۔ناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ہم اپنی گفتگو پیغمبر اکرم سے منقول ایک رواےت پر ختم کریں
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر گرامی سے ،،قال الذی عندہ علم من الکتاب،،اس شخص نے کہا کہ جس کے پاس کتاب میں سے علم تھا (یہ آیت حضرت سلیمان  کے واقعہ کے ضمن میں ہے )
کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:ذاک وصی اخی سلیمان بن داود
وہ میرے بھائی سلیمان بن داوود کا وصی اور جانشین تھا ابو سعید کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :،،قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب،، کس کے بارے میں ہے اور کس طرف اشارہ ہے رسول اللہ نے فرمایا :ذاک اخی علی بن ابی طالب
وہ میرے بھائی علی بن ابی طالب ہیں ۔(المیزان ج،۱۱ص۴۲۷)
پروردگارا! اپنی رحمت کے دروازے ہم پر کھول دے اور اپنی کتاب کا علم ہم پر ارزانی فرما ۔
بارالہا!قرآن کی آگہی سے ہمارے دل اس طرح سے روشن اور ہماری فکر کو ایسا توانا بنا ہم تجھے چھوڑ کر تےرے غےر کی طرف نہ جائیں ،کسی چیز کو تیری مشیت پر مقدم نہ کریں،خودغرضیوں ،تنگ نظریوں اور خود بینیوں کے تنگ وتاریک گڑھوں میں نہ گریں،تےرے بندوں کے درمیان تفرقہ نہ ڈالیں ،اپنے اسلامی انقلاب کو خطرے کی طرف کھینچ نہ لے جائیں اور اسلام ،قرآن اور ملت اسلامی کی مصلحتوں کو ہر چیز پر مقدم رکھیں ۔
خداوندا!عراق کے ظالم حکام کو خواب غفلت سے بیدار کر کہ جنہوں نے یہ خانماں سوز ،ویران گر اور تباہ کن جنگ دشمنان اسلام کی تحریک ہم پر مسلط کی ہے اور اگر وہ بیدار ہونے والے نہیں تو انہیں نابود فرما اور ہمیں اپنی کتاب کے زیر سایہ آگہی عطا فرما جس سے ہم حق وعدالت کے دشمنوں پر کامیابی کے لئے جائز اورتمام ممکنہ وسائل سے استفادہ کریں ۔

 


۱۔تفسیر برہان جلد ۲ ص ۳۰۱۔
2۔البتہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے آیت کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ اس میں ہر قسم کا نقصان اور کمی شامل ہیں چاہے وہ افراد ہوں ، یا معاشرے یا بطور کلی اہل زمین ۔ یہ تمام لوگوں کے لئے جرس بیداری ہے چاہے وہ نیک ہوں یا برے حتی کہ علما ء اور دانشمندوں کے لئے بھی کہ جو انسانی معاشروں کے ستون ہیں جب کہ ان میں سے کبھی ایک کے چلے جانے سے پوری دنیا کو نقصان پہنچتا ہے ۔ یہ سب کے لئے بولتی ہوئی ہلادینے والی صدائے ہوشیار باش ہے ۔
 
دو اہم نکات سوره ابراهیم / آیه 1- 3
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma