توکل کا فلسفہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
۳۔ توکل کی حقیقت اور فلسفہسوره ابراهیم / آیه 13- 17

توکل کا فلسفہ

 

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ا س کی طرف توجہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ :
اولاً: توکل علی اللہ  زندگی کے سخت حوادث و مشکلات میں اس ناقابل ِ فنا منبعٴ قدرت پر توکل انسان کی استقامت و مقاومت کا سبب بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانون نے میدانِ احد میں سخت ضرب لگائی اور دشمن میدان چھوڑنے کے بعد راستے میں سے پلٹ آئے تاکہ مسلمانوں پر آخری ضرب لگائیں اور یہ خبر مسلمانوں کو پہنچی تو
قرآن کہتا ہے کہ صاحب ایمان افراد اس خطر ناک لمحے میں وحشت زدہ ہوئے جب کہ وہ اپنی فعال قوت کاایک اہم حصہ کھو چکے تھے بلکہ ” توکل “ اور قوت ِ ایمانی نے ان کی استقامت کے نمونے متعد آیات میں نظر آتے ہیں ۔ ان میں سے آلِ عمران کی آیت ۱۲۲ میں قرآن کہتا ہے :
توکل علی اللہ نے مجاہدین کے دو گروہوں کو میدانِ جہاد میں سستی سے بچا یا ۔
سورہ ابراہیم کی آیہ ۱۲ مین دشمن کے حملوںاور نقصانات کے مقابلے میں توکل اور صبر کا باہم ذکر ہوا ہے ۔
آل ِ عمران کی آیہ ۱۵۹ میں اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے پہلے مشورے کا ، پھر پختہ ارادے کا اور پھر توکل علی اللہ کا حکم دیا گیا ہے ۔
یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے :
انہ لیس لہ سلطان علی الذین اٰمنوا وعلی ربھم یتوکلون
شیطانی وسوسوں کا صرف وہ لوگ مقابلہ کرسکتے ہیں اور ا س کے نفوذسے بچ سکتے ہیں کہ جو ایمان اور توکل کے حامل ہوں ۔( نحل۔ ۹۹)
ان آیات سے مجموعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شدید مشکلات میں انسان ضعف اور کمزوری محسوص نہ کرے بلکہ اللہ کی بے پایاں قدرت پر بھروسہکرتے ہوئے اپنے آپ کو کامیاب اور فاتح سمجھے ۔ گویا توکل امید آفرین ، قوت بخش ، تقویت پہنچانے والااور استقامت مین اجافے کا سبب ہے ۔ توکل کا مفہوم اگر گوشہ نشینی اختیار کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہوتا تو مجاہدین اور اس قسم کے لوگوں میں تحرک پیدا کرنے کا باعث نہ بنتا ۔
اگر کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عالم اسباب اور طبیعی عوامل کی طرف توجہ روح ِ توکل سے مناسبت نہیں رکھتی تو وہ انتہائی غلط فہمی میں مبتلاہیں کیونکہ طبیعی عوامل کے اثرات کو ارادہ ٴ الہٰی سے جدا کرنا ایک طرح کا شرک ہے ۔ کیا ایسا نہیں کہ عوامل طبیعی کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کاہے اور سب کچھ اسی کے ارادے اور فرمان کے تحت ہے ۔ البتہ اگر عوامل کو ایک مستقل طاقت سمجھا جائے اور انہیں اس کے ارادے کے مد مقابل قرار دیا جائے تو یہ وہ مقام ہے جو روحِ توکل سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
کیسے ممکن ہے کہ توکل کی ایسی تفسیر کی جائے حالانکہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو متوکلین کے سید و سردار ہیں اپنے اہداف کی پیش رفت کے لئے کسی موقع ، صحیح منصوبہ، مثبت تکنیک اور مختلف ظاہری وسائل سے غفلت نہیں برتتے تھے ۔
یہ سب چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ توکل کا وہ منفی مفہوم نہیں ہے ۔
ثانیاً:توکل علی اللہ انسان کو ان وابسگتیوں سے نجات دیتا ہے کہ جو ذلت و غلامی کا سر چشمہ ہیں اور اسے آزادی اور خود اعتمادی بخشتا ہے ۔
”توکل “ اور ”قناعت “ ہم ریشہ ہیں اور فطرتاًان دونون کا فلسفہ بھی کئی پہلووٴں سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتا ہے ۔ اس کے باوجود ان میں فرق بھی ہے ۔ یہاں ہم چند ایک اسلامی روایات پیش کرتے ہیں جن سے توکل کا حقیقی مفہوم اور اصلی بنیاد واضح ہو سکے ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
ان الغنی و العز یجولان فاذا ظفرا بمواضع التوکل او طنا
بے نیازی اور عزت محوِ جستجو رہستی ہیں جہاں توکل کو پالیتی ہیں وہیں ڈیرے ڈال دیتی ہیں اور اسی مقام کو اپنا وطن بنا لیتی ہیں ۔ ۱
اس حدیث میں بے نیازی اور عزت کا اصلی وطن” توکل “ بیان کیا گیا ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا: میں نے وحی الہٰی کے قاصد جبرئیل سے پوچھا کہ توکل کی اہے تو اس نے کہا :
العلم بان المخلوق لایضر ولاینفع ، ولا یعطی ولایمنع ، واستعمال الیاٴس من الخلق فاذا کان العبد کذٰلک لم یعمل لا حد سوی اللہ فھٰذا ھو التوکل ۔
جب بندہ اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ے کہ مخلوق نقصان پہنچاسکتی ہے نہ فائدہ اور عطا کرسکتی ہے نہ روک سکتی ہے اور وہ مخلوق کے ہاتھ سے آنکھ اٹھالیتا ہے تو پھر وہ خدا کے علاوہ کسی کے لئے کام نہیں کرتا اور اس کے سوا کسی سے امید نہیں باندھتا تو یہ ہے حقیقتِ توکل ۔ ۲
کسی نے حضرت امام علی ابن موسیی رضا علیہ السلام سے پوچھا :
ماحد التوکل ؟
تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
ان لاتخاف مع اللہ احداً ( سفینة البحار ، جلد ۲ ص ۶۸۲) ۔
یہ کہ تو خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی سے نہ ڈرے ۔ 3

 

 


۱۔اصول کافی ، جلد ۲ ، باب ” “ حدیث ۳ ۔
۲۔ بحار الانوار ،جلد ۱۵، حصہ ۲ ص ۱۴چاپ قدیم
3۔توکل کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ” انگیزہٴ پیدا ئش ِ رجوع کریں ۔
۳۔ توکل کی حقیقت اور فلسفہسوره ابراهیم / آیه 13- 17
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma