۴۔ اے انسان ! تمام موجودات تیرے فرمان پر سر تسلیم خم ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
۳۔اس دن ”بیع “ اور خلال“ نہیں ہے۵۔ دائبین

۴۔ اے انسان ! تمام موجودات تیرے فرمان پر سر تسلیم خم ہیں : ان آیات میں دو بارہ زمین و آسمان کی مختلف موجودات کے انسان کے لئے تسخی رہونے کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔ اس گفتگو کے چھ حصے ہیں ۔
۱)کشتیوں کی تسخیر
۲)نہروں اور دریاوٴن کی تسخیر
۳)سورج کی تسخیر
۴)چاند کی تسخیر
۵)رات کی تسخیر
۶)دن کی تسخیر
ان میں سے بعض کا تعلق آسمان سے ہے اور بعض ( رات و دن ) کادونوں سے ۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور پھر یاد دہانی ضروری ہے کہ انسان قرآن کی نگاہ میں اس قدر باعظمت ہے کہ اللہ کے حکم سے تمام موجودات اس کے لئے مسخر ہیں یعنی یا اس کے اختیار میں ہیں اور ان کہ مہار ا س کے ہاتھ میں ہے یا ان کی حرکت انسان کی خدمت کے لئے اور اس انسا ن کو ہر حالت میں اس قدر عظمت حاصل ہے کہ تمام آفرینش کا یہ ایک ہدف عالی بن گیا ہے ۔
سورج ا س کے لئے نور افشانی کرتا ہے ، اس کا بستر حیات گرم کرتاہے، اس کے لئے طرح طرح کی نباتت اور پودے اُسگاتا ہے ، اس کی زندگی کے ماحول کو ضرر رساں جراثیم سے پاک کرتا ہے ، اسے مسرت و شادمانی کا پیغام دیتا ہے اور اسے راہ ِ حیات کی نشاندہی کرتا ہے ۔
چاند انسان کی تاریک راتوں کا چراغ ہے یہ طبیعی ، فطری اور جاوداں تقویم ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا جوار باٹا انسان کی بہت سی مشکلات حل کرتا ہے ۔
سمندروں اور دریاوٴں سے جاری نہروں کا پانی اوپر آجات ہے ۔ یہ بہت سے درختوں کی آبیاری کرتا ہے ۔ خاموش ، ساکن اور رکے ہوئے سمندروں کو حرکت میں لے آتا ہے اوراسے گندا اور متعفن ہونے بچا تا ہے ۔ اور موجوں کے اٹھنے سے دریاوٴں اور سمندوں کے زندہ موجودات کے لئے ضروری آکسیجن میسر آجاتی ہے ۔
ہوائیں بحری جہاز اور کشتیاں سمندر کے سینے پر چلاتی ہیں ۔ وسیع ترین شاہراہ انہیں سمندروں میں رواں دواں ہوتے ہیں ۔
دریااور نہریں  انسان کی خدمت گزار ہیں ۔ یہ زراعت کی آبیاری ، جانوروں کی سیرابی اور ماحول ِ زندگی کو ترتازہ رکھنے کے لئے ہیں یہاں تک کہ خود ان میں انسان کے لئے مچھلیوں کی صور میں غذائی مواد پل رہا ہوتا ہے ۔
تاریکی شب  انسان کولباس کی طرح ڈھانپ دیتی ہے ، اسے سکون و راحت پہنچاتی ہے اور سورج کی جلانے والی حرارت سے اس طرح بچاتی ہے جیسے سائے میں پنکھے کی ہوا رات انسان کو حیات تازہ بخشتی ہے ۔
اسی طرح دن کی روشنی  انسان کو اٹھ کھڑا ہونے اور سعی و کوشش کی دعوت دیتی ہے اور ا س کے اندر گرمی اور حرارت پیدا کرتی ہے اور ہر مقام پر جنبش و حرکت انسان کی فرمانبردارہیں ۔ ان تمام نعتموں کا بیان اور ان کی وضاحت انسان میں ایک نئی روح پھوکنے کے علاوہ اسے اسکی عظمت سے آگاہ کرتی ہے اور اس میں احساس تشکر ابھارتی ہے ۔
اس گفتگو سے ضمنی طور پر یہ تنیجہ نکلتا ہے کہ قرآنی لغت میں تسخیر دومعانی کے لئے آتا ہے ۔
ایک انسان کے مفادات اور مصالح کے لئے مصروف ِخدمت ہونے ( جیسے سورج اور چاند کی تسخیر ) اور دوسرا انسانی اختیار ہونے ( مثلاًکشتیوں اور دریاوٴں کی تسخیر کے معنی میں آیا ہے ۔ او ریہ جو بعض کا خیال ہے کہ یہ آیات موجودہ زمانے میں تسخیر کے اصطلاحی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ( جیسے خلائی سفر کے ذریعے تسخیر ماہتاب)، یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا ۔ کیونکہ بعض قرآنی آیات میں ہے ،
وسخر لکم السمٰوٰت ومافی الارض جمیعاًمنہ
جوکچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کر دیا گیا ہے ۔ ( جاثیہ ۔ ۱۳)
یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ وہ تما چیزین جوآسمانوں میں ہیں اور تمام چیزیں زمین میں ہیں انسان کے لئے مسخر ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ فضا نوردوں کا تمام آسمانی کرات میں پہنچنا قطعاًمحال ہے ۔
قرآن میں بعض دوسری آیات ہیں کہ جو ممکن ہے اس قسم کی تسخیر کی طرف اشارہ ہوں ۔ اس کے بارے میں ہم انشاء اللہ سورہ رحمن کی تفسیر میں بحث کریں گے ۔
( موجودات کے انسان کے سامنے مسخر ہونے کے بارے میں سورہ رعد کی آیہ ۲ کے ذیل میں بھی بحث کی جائے گی ) ۔

۳۔اس دن ”بیع “ اور خلال“ نہیں ہے۵۔ دائبین
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma