قرآنی مثالیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
حق و باطل کی منظر کشی جنہوں نے دعوت ِ حق کو قبول کر لیا

مباحث کی توضیح و تفسیر میں مثال کی تاثیر ناقابل انکار ہے ۔ اسی بناء پر کسی بھی علم میں حقائق کے اثبات اور توضیح کے لئے انہیں ذہن کے قریب لانے کے لئے ہم مثال پیش کرنے سے بے نیاز نہیں ہیں ۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک بر محل مثال کو جو مقصود سے پوری طرح ہم آہنگ ہو اور اس پر منطبق ہو مطلب کو آسمان سے زمین پرلے آتی ہے اور اسے سب کے لئے قابل فہم بنادیتی ہے ۔
بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ مختلف علمی ، تر تیبی، اجتماعی اور اخلاقی مباحث میں مثال مندرجہ ذیل موثر اثرات رکھتی ہے ۔
۱۔ مثال مسائل کو حسّی بنا دیتی ہے : انسان چونکہ زیادہ تر محسوسات سے مانوس ہے اور پیچیدہ عقلی حقائق نسبتاً افکار کی دسترس سے دور ہوتے ہیں لہٰذا حسّی مثالیں ان دور دراز فاصلوںکو سمیٹ دیتی ہیں اور انہیں محسوسات کے آستانے پر لاکھڑا کرتی ہیں اور ان کے ادراک کو دل چسپ، شیریں اور اطمینان بخش بنادیتی ہیں ۔
۲۔ مثال راستے کو مختصر کردیتی ہے :بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک گہرا ، منطقی اور عقلی مسئلہ ثابت کرنے کے لئے انسان کو مختلف استدلالات کا سہارا لینا پڑتا ہے مگر پھر بھی اس کے گرد ابہام موجود رہتا ہے لیکن ایک واضح اور مقصد سے ہم آہنگ مثال راستہ اس قدر مختصر کردیتی ہے کہ استدلال کی تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے اور متعدد استدلالات کی ضرورت بھی نہیں رہتی ۔
۳۔ مثال مسائل کو سب کے لئے یکسان بنا دیتی ہے : بہت سے علمی مسائل کہ جو اپنی اصل صورت میں صرف خواص کے لئے قابل فہم ہیں اور عامة الناس اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتے لیکن جب ساتھ مثال موجود ہو اور اس کے ذریعے وہ قابل فہم ہوجائیں تو ان سے سب لوگ مستفید ہو ںگے چاہے وہ علم و دانش کی عمومیت دینے کے اعتبار سے ناقابل انکار کار آمد چیزیں ہیں ۔
۴۔ مثال مسائل کو زیادہ قابل اطمینان بنا دیتی ہے : کلیاتِ عقلی جس قدر بھی مستدل او رمنطقی ہوں جب تک ذہن تک رہتے ہیں ان کے بارے مین کافی اطمینان پیدا نہیں ہوتاکیونکہ انسان ہمیشہ اطمینان کو عینیت اور ظاہری وجود میں ڈھونڈتا ہے او رمثال ذہنی مسائل کو عینیت بخشتی ہے اور انہیں عالم ِ خارج میں واضح کردیتی ہے ۔ اسی لئے باور کرنے ، قبول کرنے اور اطمینان حاصل کرنے کے لئے مثال بہت موثر ہو تی ہے ۔
۵۔مثال ہٹ دھرموں کو خاموش کردیتی ہے : اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسائل کلیات مستدل اور منطقی صورت میں پیش کیے جائیں تو ایک ہٹ دھرم شخص ان پر خاموش نہیں ہوتا اور اسی طرح ہاتھ پاوٴں مارتا رہتا ہے لیکن جب مسئلہ مثال کے قالب میں ڈھالاجائے تو اس کے لئے راستہ بند ہو جاتا ہے اور اس میں بہانہ جوئی کی مجال نہیں رہتی ۔
نامناسب نہیں ہوگا اگر ہم اس موضوع کے لئے چند مثالیں پیش کریں تاکہ واضح ہو جائے کہ مثال میں کس قدر اثر ہے ۔
جو لوگ یہ اعتراض کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ صرف ماں سے کس طرح پیدا ہو گئے اور کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص بغیر باپ کے پیدا ہو جائے ، قرآن ان کے جواب میں فرماتا ہے :
ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب
عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک آدم کی سی ہے کہ جسے اس نے مٹی سے پید اکیا ۔ ( آل عمران ۵۹)
صحیح طرح سے غور کریں کہ ہم جس قدر بھی ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے کہیں کہ یہ کام خدا کی لامتناہی قدرت کے سامنے نہایت معمولی ہے پھر بھی ممکن ہے وہ بہانے ڈھونڈیں لیکن جب ان سے یہ کہیں کہ کیا تم یہ مانتے ہو کہ حضرت آدم  کو جو پہلے انسان تھے مٹی سے پیدا ہوئے تھے تو جو خدا ایسی قدرت رکھتا ہے وہ کسی بشر کو بغیرباپ کے پیدا کیوں نہیں کرسکتا ۔
جن منافقوں نے اپنے نفاق کے زیر سایہ چندن دن ظاہر اً سکون و آرام سے بسر کیے ہیں قرآن مجید ان کے بارے میں ایک خوبصورت مثال پیش کرتا ہے ۔ قرآن انہیں ایسے مسافر سے تشبیہ دیتا ہے جو تاریک بیابان سے گزرہا ہے ۔ رات اندھیری ہے ۔ بادل گرج رہے ہیں ۔ مسافر آندھی، طوفان او ربارش میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ وہ اس طرح سے سر گر دان ہے کہ اسے کسی طرف کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں جب آسمانی بجلی چمکتی ہے تو بیابان کی فضا چند لمحوں کے لئے روشن ہو جاتی ہے اور وہ اراد ہ کرتا ہے کہ کسی طرف جائے تاکہ اسے راستہ مل جائے لیکن جلدی ہی وہ بجلی خاموش ہو تی ہے اور وہ اسی طرح بیابان میں سر گرداں رہ جاتا ہے ۔ (بقرہ۔ ۲۰)
کیا سر گرداں منافق کی حالت کی تصویر کشی کے لئے کہ جو اپنی روحِ نفاق او رمنافقانہ عمل سے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھنا چاہتا ہو اس سے زیادہ جاذبِ نظر مثال ہو سکتی ہے ؟ یایہ کہ جب ہم کچھ لوگوں سے کہتے ہیں کہ راہِ خدا میں خرچ کرو تو خدا تمہیں کئی گنازیادہ اجر دے گا تو ہو سکتا ہے کہ عام لوگ اس بات کا مفہوم پوری طرح نہ سمجھ سکیں لیکن جب یہ کہا جا ئے کہ راہ خد امیں خرچ کرنا اس بیج کی مانند ہے جسے زمین میں ڈالا جائے کہ جس سے سات خوشے اگتے ہیں اور ہر خوشے میں ہو سکتا ہے ایک سو دانے ہوں تو پھر یہ مسئلہ پوری طرح سے قابل فہم ہو جا تاہے  جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے 
مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مائة حبة (بقرہ ۲۶۱)
عام طور پر ہم کہتے ہیں کہ ریا کاری والے اعمال فضول او ربیکار ہیں اور انسان کو ان سے کوئی فائد ہ حاصل نہیں ہوتا ہوسکتا ہے یہ بات کچھ لوگوں کے لئے ناقابل فہم ہو کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک فائدہ مند عمل مثلاًایک ہسپتال یا ایک مدرسہ اگر چہ دکھاوے اور ریاکاری کے ارادہ سے ہو بار گاہ قدرت میں بے وقعت ہو لیکن قرآن ایک مثال کے ذریعے اس بات کو پوری طرح قابلِ فہم اور دلچسپ بنا دیتا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے :
فمثلہ کمثل صفوان علیہ تراب فاصابہ وابل فترکہ صلداً
ایسے اشخاص کا عمل پتھر کے ایک ٹکڑے کی مانند ہے کہ جس پر کچھ مٹی ڈال دی گئی ہو او راس پر کچھ بیج چھڑک دیاجائے ۔ تو جس وقت بارش برستی ہے تو بجائے کہ یہ بیج بار آور ہو بارش اسے پتھر پر پڑی ہو ئی سطحی مٹی کے ساتھ دھو ڈالتی ہے اور اسے ایک طرف پھینک دیتی ہے ۔ (بقرہ۔۲۶۴)
ریا کاری اور بے بنیاد اعمال کی بھی یہی حالت ہے ۔
ہم دور نہ نکل جائیں اسی زیر بحث مثال میں کہ جو حق و باطل کے مابین مقابلے کے بارے میں اس میں معاملے کی کیسی عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے اور اسے دقیق طور پر مجسم کیا گیا ہے ۔ تمہید ، نتائج اور حق و باطل کی مخصوص صفات اور آثار میں سے ہر ایک کو ا س مثال میں اس طرح سے منعکس کیا گیا ہے کہ مسئلہ سب لوگوں کے لئے قابل فہم او راطمینان بخش ہو گیا ہے ۔ اس کے پیش کئے گئے حقائق ہٹ دھرم افراد کو خاموش کردینے والے ہیں نیز تمام چیزوں سے قطع نظر یہ مثال طولانی مباحث کی زحمت سے بچا دیتی ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ مادہ پرست امام صا د ق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا : قرآن میں ہے کہ جس وقت دوزخیوں کے جسم کا چمڑاآگ کی شدت سے جل جائے گا تو ہم اسے دوسرا چمڑا پہنادیں گے تاکہ وہ عذاب کا ذائقہ اچھی طرح سے چکھیں ۔ اس دوسرے چمڑے کاکیا گناہ ہے کہ اسے سزا اور عذاب دیا جائے ۔
اس کے جواب میں امام  نے فرمایا:
وہ چمڑابعینہ پہلا وا چمڑا بھی ہے اور اس کا غیر بھی ہے ۔
سوال کرنے والے اس جواب سے مطمئن نہ ہو اور اس جواب سے کچھ نہ سمجھ سکا لیکن امام  نے ایک ناطق مثال کے ذریعے معاملہ اس طرح سے واضح کردیا کہ گفتگو کی گنجائش باقی نہ رہی ۔ آپ  نے فرمایا:
دیکھو!تم ایک پرانی اور خراب اینٹ کو زیزہ ریزہ کردیتے ہو پھر اسی خاک کو بھگو کر سانچے میں ڈالتے ہو اور اس سے ایک نئی اینٹ بناتے ہو ۔ یہ وہی پہلے والی اینٹ ہے اور ایک لحاظ سے اس کی غیر بھی ہے ۔ ۱
یہاں ایک نکتہ کا ذکر بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ مثال اپنے ان تمام مفید او رموثر اثرات کے باوجود اپنا بنیادی تقاضا بھی پورا کرسکتی ہے جب وہ اس مطلب سے ہم آہنگ ہو جس کے لئے اسے پیش کیا جا رہا ہے ورنہ مثال خود گمراہ ہو گی یعنی جیسے ایک صحیح اور ہم آہنگ مثال مفید اور موٴثر ہے اسی طرح ایک انحرافی اور غلط مثال گمراہی اور تباہی کا باعث بھی ہو سکتی ہے ۔
اسی بناء پر منافقین اور بداندیش افراد ہمیشہ لوگوں کو گمراہ کرنے اور سادہ لوح افراد کو غافل کرنے کے لئے غلط مثالوں کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے جھوٹ کے لئے مثال سے مدد لیتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہم انحرافی اور غلط مثالوں سے فائدہ اٹھانے والے ایسے افراد پر پوری توجہ سے نظر رکھیں ۔

 

۱۸۔ لِلَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّھِمْ الْحُسْنَی وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَہُ لَوْ اٴَنَّ لَھُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لَافْتَدَوْا بِہِ اٴُوْلَئِکَ لَھُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَاٴْوَاھُمْ جَھَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھَادُ۔

ترجمہ

۱۸۔ ان لوگوں کے لئے کہ جنہوں نے اپنے پر وردگار کی دعوت کو قبول کیا ہے نیک ( انجام ، جزا اور) نتیجہ ہے اور وہ کہ جنہوں نے اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا ( وہ عذا ب الہٰی کی وحشت میں اس طرح غرق ہو ں گے کہ) اگر وہ سب کچھ جو زمین پر ہے اور اس کی مثل ان کی ملکیت ہو او روہ یہ سب کچھ عذاب سے نجات کے لئے دے دیں ( لیکن وہ ان سے قبول نہیں کیا جائے گا ) ان کے لئے بر احساب اور ان کا ٹھکا نا جہنم ہے او روہ کس قدر بر اٹھکا نا ہے ۔

 


۱۔اس حدیث کی تشریح تفسیر نمونہ جلد ۲ ص۳۰۸( ار دو ترجمہ ) میں ملاحظہ فرمائیں ۔ وہاں یہ حدیث مجالس ِ شیخ اور احتجاج طبرسی کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے ۔
حق و باطل کی منظر کشی جنہوں نے دعوت ِ حق کو قبول کر لیا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma