چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
یوسف (ع) مصر کے خزانہ دار کی حیثیت سے یوسف (ع) کی بھائیوں کو نئی تجویز

۱۔ حضرت یوسف (ع) نے طاغوت وقت کی دعوت کیونکر قبول کی ؟ زیر بحث آیات کی طرف توجہ ہوتے ہیں پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جیسے عظیم نبی طاغوت زمانہ سے وزارت ِ خزانہ یا وزارت عظمیٰ کا منصب قبول کرنے اور اس کے ساتھ ملکر کام کرنے پر کیسے تیار ہو گئے؟
اس سوال کا جواب خود مندرجہ بالا آیات ہی میں پوشیدہ ہے ۔ وہ یہ کہ آپ نے یہ منصب ایک ’ حفیظ و علیم “ شخصیت کی حیثیت سے قبول کیا تاکہ عوام کے مفاد میں بیت المال کی حفاظت کریں اور اسے انہی کے مفاد میں خرچ کریں خصوصاً مستضعف اور محروم کے حقوق کو جو اکثر معاشروں میں پامال ہوتے ہیں ان تک پہنچائیں ۔
علاوہ ازیں جیسا کہ ہم نے کہا ہے وہ علم و تعبیر کے ذریعے جانتے تھے کہ مصری قوم کو ایک شدید اقتصادی بحران پیش آنے والا ہے لہٰذا اس کے مقابلے کے لئے دقیق پروگرام اور قریب سے اس کی نگرانی کے بغیر ممکن تھا کہ بہت سے لوگ تباہ و بر باد ہو جاتے، لہٰذا اس مصیبت سے عوال کی نجات اور بے گناہ انسانوں کی جان کی حفاظت کے لئے ضروری تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو جو موقع مل رہا تھا اس سے فائدہ اٹھاتے اور تمام لوگوں خصوصاً محروم عوام کے لئے اس سے استفادہ کرتے کیونکہ اقتصادی بحران اور قحط سالی میں سب سے زیادہ خطرہ انہیں لوگوں کی جان کو تھا اور بحرانوں کی پہلی قربانی یہی لو گ ہوتے ہیں ۔
فقہ میں ظالم کی حکومت قبول کرنے کی بحث میں بھی یہ بات تفصیل سے آئی ہے کہ ظالم کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا ہمیشہ حرام نہیں ہوتا بلکہ کبھی مستحب بھی ہوتا ہے اور ایسا اس صورت میں ہوتاہے جب اس منصب کو قبول کرنے کے فوائد اور دینی تقاضے اس کی حکومت کی تقویت پہنچنے کے نقصانات سے زیادہ ہوں ۔
متعدد روایات میں آیاہے کہ آئمہ اہل بیت (ع) بھی اپنے قریبی ساتھیوں کو اس قسم کی اجازت دے دیتے تھے مثلاً علی بن یقطین امام موسی کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ انھوں نے اپنے زمانے کے فرعون ہارون رشید کی وزارت امام (ع) کی اجازت سے قبول کی ۔
بہرصورت اس قسم کے مناصب قبول کرنے یا رد کرنے کا انحصار ’ قانون ِ اہم و فہم “ پر ہے ۔ اس کے نفع و نقصان کو دینی اور اجتماعی لحاظ سے پرکھا جانا چاہیئے ۔ بہت سے مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ ایسا عہدہ قبول کرنا ظالم کی معزولی پر منتج ہوتا ہے ۔ جیسا کہ بعض روایات کے مطابق حضرت یوسف (ع) کے ساتھ بھی یہی اتفاق ہوا اور کبھی ایسا عمل بعد ازآں انقلاب و قیام کا سر چشمہ بن جاتا ہے کیونکہ منصب قبول کرنے والا شخص حکومت کے اندر سے انقلاب کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ شاید مومن آل ِ فرعون اسی قسم کی ایک مثال تھے ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسے افراد مظلوموں اور محروموں کے لئے پناہ گاہ بن جاتے ہیں اور ان کے لئے حکومتی ظلم میں کمی کاباعث بن جاتے ہیں ان مقاصد میں سے کوئی ایک بھی حاصل ہورہا ہوتو ایسے عہدہے قبول کرنے کا جواز بن جاتا ہے ۔
ایک مشہور روایت میں امام صادق (ع) ایسے ہی افرد کے بارے میں فرماتے ہیں :
کفارة عمل السلطان قضاء حوائج الاخوان
ظالم حکومت کا ساتھ دینے کا کفارہ یہ ہے کہ بھائیوں کی ضروریات پوری کی جائیں ۔۱
لیکن یہ مسئلہ ایسے مسائل میں سے ہے کہ جن میں حلال و حرام کی سر حد ایک دوسرے کے بہت نزدیک ہوتی ہے ۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ انسان تھوڑی سی سہل انگاری کی وجہ سے غلط طور پر ظالم کا ساتھ دینے لگتا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جب کہ وہ سمجھ رہاہوتا ہے کہ میں عبادت اور خدمت خلق میں مشغول ہوں ۔
بعض اوقات سوء استفادہ کرنے والے افراد حضرت یوسف (ع) یا علی بن یقطین کا نام غلط طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں حالانکہ ان کے کام کوحضرت یوسف (ع) اور علی بن یقطین سے کوئی نسبت نہیں ہوتی ۔ 2
یہاں ایک اور سوال سامنے آتا ہے ، وہ یہ کہ مصر کا ظالم بادشاہ اس کے لئے کیسے تیار ہو گیا جب کہ وہ جانتا تھا کہ حضرت یوسف ظلم و ستم استعماری ہتھکنڈوں اور استشمار کے لئے ہر گز تیار نہ ہوں گے بلکہ اس کے برعکس اس کے مظالم میں رکاوٹ بنیں گے ۔
ایک نکتے کی طرف توجہ کی جائے تو اس سوال کا جواب چندان مشکل نہیں رہتا ، وہ یہ کہ بعض اوقات معاشرتی اور اقتصادی بحران اس طرح کے ہوتے ہیں کہ خود سروں کی حکومت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیتے ہیں اسی طرح سے کہ انہیں اپنی ہر چیز خطرے میں نظر آتی ہے ۔ ایسے مواقع پر ہلاکت سے بچنے کے لئے وہ یہاں ک تیار ہو جاتے ہیں کہ ایک عادلانہ عموامی حکومت کو قبول کرلیں تاکہ اپنے آپ کو بچا سکیں ۔
۲۔ اقتصادی مسائل اور انتظامی صلاحیت کی اہمیت : بعض مکاتب بالکل یک جہتی ہیں اور ہر چیز کو اقتصادی پہلو میں منحصر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے انسان اور اس کے وجودکی مختلف جہات کو نہیں پہنچانا ۔ ہم اگر چہ ان مکاتب سے اتفاق نہیں کرتے تا ہم معاشروں کی زندگی میں خصوصیت سے اتصادی مسائل کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مندر جہ بالا آیات بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیونکہ تمام مناصب میں سے حضرت یوسف (ع) نے وزارت خزانہ کا انتخاب کیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کہ اگر انہوں نے اسے ٹھیک کرلیا تو مصر کی زیادہ تر پریشانیاں دور ہو جائیں گی اور عدالت ِ اقتصادی کے ذریعے وہ دوسری مشکلات پر بھی قابو پا سکیں گے ۔
اسلامی روایات میں بھی اس موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ ان میں سے ایک مشہور حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے جس میں لوگوں کی روحانی او رمادی زندگی (قوام الدین و الدنیا)کی حقیقی دو بنیادوں میں سے ایک اقتصادی مسائل بیان کی گئی جب کہ دوسری آگہی اور علم و دانش کو شمار کیا گیا ہے ۔ گر چہ مسلمانوں نے ابھی تک اس اہمیت کی طرف توجہ نہیں کی کہ جو اسلام نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اس حصے کو دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان زندگی کے اس حصے میں اپنے دشمنوں سے پیچھے رہ گئے ہیں اور پس ماندہ ہیں ۔
لیکن مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں روز بروز بیداری اور آگاہی میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے ۔ اس سے امید بندھتی ہے کہ مستقبل میں مسلمان اقتصادی میدان میں کاوشوں کو ایک بہت بڑی اسلامی عبادت سمجھتے ہوئے انجام دینے لگیں کے اور اس لحاظ سے اسلام کے بے رحم دشمنوں کی نسبت جو پس ماندگی ہے اسے دور کریں گے ۔
ضمناً حضرت یوسف (ع) نے یہ جو کہا ہے کہ : ” انی حفیظ علیم “ ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے کسی حساس منصب کو قبول کرنے کے لئے صرف امانت داری ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیت بھی ضروری ہے اور اس کے علاوہ علم و آگاہی اور مہارت بھی ضروری ہے کیونکہ آپ نے ”حفیظ“کے ساتھ ساتھ ” علیم “ بھی کہا ہے ۔
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ بے خبری ، عدم مہارت اور انتظامی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے جو خطرات پیدا ہوتے ہیں وہ خیانت سے پیدا ہونے والے خطرات سے کم نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات اس سے بد تر اور زیادہ ہوتے ہیں ۔
ان واضح اسلامی تعلیمات کے باوجود معلوم نہیں بعض مسلمان انتطامی صلاحیت اور علم و آگہی کے مسئلے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور عہدے سپرد کرنے کے لئے وہ صرف امانت و دیانت کو شرائط سمجھتے ہیں حالانکہ پیغمبر اسلام اور حضرت علی (ع) کی دور حکومت میں ان کی سیرت نشاندہی کرتی ہے کہ وہ بزرگوار آگاہی اور انتطامی صلاحیت کو امانت و دیانت کی طرح اہمیت دیتے تھے ۔
۳۔ مصارف کی نگرانی : اقتصادی مسائل میں صرف زیادہ سے زیادہ اجناس پیدا کرنے کا مسئلہ نہیں ہے ۔ بعض اوقات مصارت او رمخارج پر کنٹرول کرنا اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے اپنے دورِ حکومت میں فراوانی ٴ نعمت کے سات سالوں میں مصارف پر سختی سے کنٹرول کیا تاکہ اجناس کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ سختی کے سالوں کے لئے بچا کر کھ سکیں ۔
در حقیقت یہ دونوں چیزیں ایک دوسر ے سے جدا نہیں ہوسکتیں ۔ زیادہ پیدا وار اس وقت مفید ہو تی ہے جب اسے زیادہ صحیح طور پر کنٹرول کرکے استعمال کیا جا سکے اور مصارف پر کنٹرول اس وقت زیادہ مفید ہے جب اس کے ساتھ پیداوار بھی زیادہ ے زیادہ ہو۔
مصر میں حضرت یوسف (ع) کی اقتصادی سیاست سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ترقی پذیر اقتصادی نظام صرف زمانہ حال پر نظر نہیں رکھتابلکہ آئندہ پر بھی نظر رکھتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی نظر ہوتی ہے اور یہ انتہائی خود غرضی ہے کہ ہم صرف اپنے آ کے منافع کی فکر میں رہیں مثلاًزمین میں موجود تمام ذخائر کو لوٹ لیں اور آئندہ آنے والوں کی کوئی فکر نہ کریں اور یہ نہ سوچین کہ وہ کن حالات میں زندگی بسر کریں گے کیا ہمارے بھائی صرف وہی ہیں جو آج ہمارے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور بعد میں آنے والے ہمارے کچھ نہیں لگتے؟
یہ بات جاذب نظر ہے کہ بعض اوقات روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے مصر کے لوگوں میں طبقاتی فاوت او رلوٹ کسوٹ کو ختم کرنے کے لئے قحط کے سالوں سے استفادہ کیا ۔ آپ نے زیادہ پیداوار کرکے عرصے میں لوگوں سے غذائی مواد خرید لیا اور اس کے لئے تیارکئے گئے بڑے بڑے گواموں میں اسے ذخیرہ کیا ۔ جب یہ سال گذر گئے اور قحط کے سال شروع ہوئے تو پہلے سال اجناس کو درہم و دینار کے بدلے بیچا ۔ اس طرح کرنسی کا ایک بڑا حصہ جمع کرلیا ۔ دوسرے سال اسباب زینت اور جواہرات کے بدلے اجناس کو بیچا۔
البتہ جن کے پاس یہ چیزیں نہ تھیں انہیں مستثنیٰ رکھا ۔ تیسرے برس چوپایوں کے بدلے ، چوتھے برس غلاموں اور کنیزوں کے عوض ، پانچویں برس عمارات کے بدلے ، چھٹے برس زرعی زمینوں اور پانی کے عوض اور ساتویں خود مصر کے لوگوں کے بدلے اجناس دیں ۔ پھر یہ سب چیزیں انہیں ( عادلانہ طور پر ) واپس کردیں اور کہا کہ میرا مقصد یہ تھا کہ عوام کو بلا وٴ مصیبت اور بے سروسامانی سے نجاد دلواٴں ۔3
۴۔ اپنی تعریف یا اپنا تعارف : اس میں اس میں شک نہیں کہ اپنی تعریف کرنا ایک ناپسند یدہ کام ہے لیکن اس کے باوجود یہ کلی قانون نہیں بعض اوقات حالات کا تقاضا ہوتا ہے اورضروری ہوتا ہے کہ انسان معاشرے کو اپنا تعارف کروائے تاکہ لوگ اسے پہچانیں اور اس کی مختلف خوبیوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں اور وہ ایک پوشیدہ اور متروک خزانے کی طرح نہ رہ جائے ۔
مندرجہ بالاآیات میں بھی ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت یوسف(ع) نے مصر کی وزارت ِ خزانہ کئے منصب کے لئے آپ کو تجویز کرتے ہوئے ” حفیظ علیم “ کے الفاظ سے اپنی تعریف کی کیونکہ ضروری تھا کہ بادشاہ ِ مصر اور دوسرے لو گ جان لیں کہ آپ ایسی صفات کے حامل ہیں جو اسے شعبے کی سر پرستی کے لئے بہت ہی ضروری ہیں۔
اسی لئے تفسیر عیاشی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع) سے سوال کیا گیا : کیا جائز ہے کہ انسان آپ اپنی تعریف کرے ۔
آپ (ع) نے فرمایا :
نعم ،اذا اضطر الیہ اما سمعت قول یوسف اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم وقول العبد الصالح و انا لکم ناصح امین ۔
جی ہاں ! جب اس کے سوا چارہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ کیا تو نے حضرت یوسف (ع) کا قول نہیں سنا ۔ انہوں نے فرمایا : مجھے زمین کے خزانوں پر مقر کردو کیونکہ میں امین او رآگاہ ہوں ۔ اسی طرح خدا کے عبد صالح ( ہود (ع)) نے فرمایا :میں تمہارے لئے خیراخواہ اور امین ہوں ۔ 4
یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ خطبہ شقشقیہ اور نہج البلاغہ کے دیگر خطبوں میں حضرت علی (ع) نے جو اپنی تعریف کی ہے اور اپنے آپ کو محور ِ خلافت کا قب قرار دیا ہے کہ جس کی اوج فکر اور مقام ِ والا تک فکر انسانی کا پرندہ پر نہیں مارسکتااور علوم کی آبشار ان کے کوہسار وجود سے گرتے ہیں۔ اور اسی قسم کی دیگر تعریفیں سب اس لئے ہیں کہ نا آگاہ اور بے خبر لوگ ا ٓپ کے مقام کو سمجھیں اور آپ کے گنجینہ ٴ وجود سے معاشرے کی بہبود کے لئے استفادہ کریں ۔
۵۔ روحانی اجر بہتر ہے : اگر چہ بہت سے نیک لوگوں کو اس جہان میں مادی اجر مل جاتا ہے جیساکہ حضرت یوسف (ع) نے اپنی پاکدامنی ، صبر ، پارسائی اور تقویٰ کا نتیجہ اسی دنیا میں پالیا اور اگر وہ پاکدامن نہ ہوتے تو ہرگز اس مقام تک نہ پہنچتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام لوگوں کو اس قسم کی توقع رکھنا چاہئیے اور اگر انہیں مادی اجر نہ ملے تو وہ یہ گمان کرنے لگ جائیں کہ ان پر ظلم ہوا ہے کیونکہ اصلی اجر توو ہ ہے جو آئندہ زندگی میں انسان کے انتظار میں ہے ۔
شاید اسی اشتباہ رفع کرنے اور اس توہم کو دور کرنے کے لئے قرآن زیر بحث ِ آیات میں حضرت یوسف (ع) کے دنیا وی اجر کا ذکر کرکے بعد مزید فرماتا ہے :
ولاجر الاٰخرة خیر للذین اٰمنوا وکانوا یتقون
اہل ایمان اور صاحبان تقویٰ کے لئے اجر آخرت برتر و بہتر ہے ۔
۶۔قیدیوں کے حقوق کی حمایت : قید خانوں میں ہمیشہ نیک لوگ ہی نہیں رہے ۔ ان میں کبھی بے گناہ رہے ہیں اور کبھی مجرم لیکن ہر صورت میں اصول ِ انسانی کا تقاضا ہے کہ انسانی حقوق کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئیے ۔ ہوسکتا ہے کہ آج کی دنیا یہ سمجھے کہ قید یوں کے حقوق کی آواز اسی دور میں بلند ہو ئی ہے لیکن اسلام کی پر افتخار تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی حکومت کی ابتداہی میں قید یوں کے بارے میں نصیحتیں فرمائیں نیز حضرت علی (ع) نے اپنے ظالم قاتل عبد الرحمن بن ملجم مرادی کے بارے میں جو وصیت فرمائی وہ تو ہم سب نے سنی ہے کہ آپ (ع) نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے یہاں تک کہ آپ (ع) نے اپنے لئے آنے والا دودھ اس کے لئے بھیجا اور اسے قتل کرنے کے بارے میں فرمایا: اسے ایک سے زیادہ ضرب نہ لگائی جائے کیونکہ اس نے صرف ایک ضرب لگائی ہے ۔
حضرت یوسف (ع) بھی جب قید خانہ میں تھے تو آپ قیدیوں کے لئے مہربان رفیق ، دلسوز ساتھی اور خیر خواہ مشیر تھے اور جب آپ قید خانہ سے جانے لگے تو سب سے پہلے آپ نے دنیا کی توجہ قید یوں کے حالت کی طرف مبذول کرائی اور ان کے حقوق کی حمایت کی اور ان سے اظہار ِ ہمدردی کیا ۔ آپ نے حکم کہ قید خانہ کے دروازے پر عبارت لکھیں :
ھٰذا قبور الاحیاء، و بیت الاحزانو تجربة الاصدقاء و شماتة الاعداء
یہ زندوں کا قبرستان ہے غموں کا گھر ہے ، دوستوں کی آزمائش گاہ ہے اور دشمنوں کی سر زنش کی جگہ ہے ۔ 5
حضرت یوسف (ع) نے یہ دعا کرتے ہوئے قیدیوں سے اپنے لگاوٴ کاظہارکیا :
اللھم اعطف علیھم بقلوب الاخیار ، ولا تعم علیھم الاخبار ۔
بارالہٰا ! اپنے نیک بندوں کے دل ان کی طرف متوجہ کردے اور ان سے خبروں کو پوشیدہ نہ رکھ ۔ 6
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فذٰلک یکون اصحاب السجن اعرف الناس بالاخبار فی کل بلدة
یہی وجہ ہے کہ ہر شہر میں قیدی اس شہر کی خبروں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں ۔
اس بات کو خود ہم نے قید کے دوران آزامایاہے ۔ استثنائی مواقع کے علاوہ قیدیوں تک ایسی ایسی خبریں عجیب مخفی طریقوں سے پہنچ جاتی تھیں کہ جن سے قید خانے کے مامور آگاہ نہیں ہوتے تھے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قید خانے میں آنے والے نئے قیدیوں کو قید خانے میں ایسی خبریں سننے کو ملتیں جن سے وہ باہر آگاہ نہ ہوتے تھے ۔
اب اگر ہم اس کی مثالوں میں پڑگئے تو مقصد سے دور ہو جائیں گے ۔

۵۸۔ وَجَاءَ إِخْوَةُ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَعَرَفَھُمْ وَھُمْ لَہُ مُنکِرُونَ۔
۵۹۔ وَلَمَّا جھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ قَالَ ائْتُونِی بِاٴَخٍ لَکُمْ مِنْ اٴَبِیکُمْ اٴَلاَتَرَوْنَ اٴَنِّی اٴُوفِی الْکَیْلَ وَاٴَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ۔
۶۰۔ فَإِنْ لَمْ تَاٴْتُونِی بِہِ فَلاَکَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَتَقْرَبُونِی ۔
۶۱۔ قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اٴَبَاہُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ ۔
۶۲۔ وَقَالَ لِفِتْیَانِہِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَھُمْ فِی رِحَالِہِمْ لَعَلَّھُمْ یَعْرِفُونَھا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی اٴَھْلِھمْ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ۔

ترجمہ

۵۸۔اور یوسف (ع) کے بھائی آئے اور اس کے پاس پہنچے ۔ اس نے انہیں پہچان لیا لیکن وہ اسے نہ پہچان پائے ۔
۵۹۔ جب ( یوسف ) ان کے بار تیار کر چکا تو کہا( آئندہ جب آوٴتو ) تمہارا جوباپ کی طرف سے بھائی ہے اسے میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پیمانے کا حق ادا کرتا ہوں اور میں بہترین میز بان ہوں ۔
۶۰۔ اور اگر تم اسے میرے ہاں نہ لاوٴ توپھر میرے پاس تمہارے نہ کوئی کیل ( اور غلے کا پیمانہ )ہوگا اور نہ ہی ( تم ہرگز ) میرے پاس آنا ۔
۶۱۔ انہوں نے کہا ہم اس کے باپ سے بات کریں گے ( اور کوشش کریں گے کہ وہ مان جائے ) اور ہم یہ کام کریں گے ۔
۶۲۔ پھر اس نے اپنے کارندوں سے کہا : جو کچھ انہوں نے قیمت کے طور پر دیا ہے وہ ان کے سامان میں رکھ دو شاید اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ کر وہ اسے پہچانیں اور شاید پلٹ آئیں ۔




۱۔ وسائل الشیعہ جلد ۲ ص ۱۳۹ ( سفینة البحار جلد ۲ ص۲۵۲ پر اسی قسم کا مضمون امام کاظم علیہ السلام سے علی بن یقطین کے بارے میں منقول ہے ) ۔
یہ روایت بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
2۔کئی ایک روایات جو امام علی بن موسیٰ رضا (ع) سے منقول ہیں ، میں ہے کہ کچھ افراد جو اسلامی معیاروں سے ناآشنا تھے بعض اوقات آپ (ع) پر اعتراض کرتے کہ آپ (ع) نے اس زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے اعتنائی کے باوجود مامون کی ولی عہدی کو قبول کرلیا ہے ۔ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: کیا پیغمبر افضل ہے یا وصی پیغمبر ؟ انہوں نے کہا نہیں پیغمبر ہی افضل ہے ۔ فرمایا : کون افضل ہے مسلمان یا مشر ک ؟ انہوں نے عرض کیا: مسلمان، فرمایا عزیز مصر مشرک تھا اور یوسف پیغمبر تھے اور مومون ( ظاہراً) مسلمان ہے اور میں پیغمبر کا وصی ہوں اور یوسف (ع) نے عزیز مصر سے چاہا کہ انہیں مصر کے خزانوں پر مامون کریں اور کہا کہ میں حفیظ و علیم ہوں اور جب کہ میں اس منصب کو قبول کرنے پر مجبور تھا ۔( وسائل الشیعہ جلد ۱۲ ص ۱۴۶) ۔
3۔ اس حدیث کو اختصارسے ذکر کیا گیاہے اورصرف مفہوم پیش کیا گیا ہے ۔ یہ امام علی بن موسیٰ رضا (ع) سے منقول ہے ۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۵ ص ۲۴۴۔ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
4 تفسیرالثقلین جلد ۲ ص ۴۳۳۔
5۔نور الثقلین ، جلد ۲ ص ۴۳۲۔
6-نور الثقلین ، جلد ۲ ص ۴۳۲۔
یوسف (ع) مصر کے خزانہ دار کی حیثیت سے یوسف (ع) کی بھائیوں کو نئی تجویز
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma