غیبی محافظ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
خدا کا بے پایاں علم عظمت الہٰی کی کچھ نشانیاں

گزشتہ آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ خدا علم الغیب و الشہادة ہونے کی بناء پر لوگوں کے پنہاں اور آشکار سے باخبر ہے اور وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ۔
زیر بحث آیت میں مزید اشاد فرمایا گیا ہے : اس کے علاوہ کہ خدا اپنے بندوں کا محافظ اور نگہبان ہے ” کچھ مامورین ہیں کہ جو پے در پے آگے اور پیچھے سے حوادث سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں “ ( لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ )۔۱
لیکن کوئی اس بناء پر کہ کوئی یہ اشتباہ نہ کرے کہ یہ حفاظت و نگہبانی بلا مشروط ہے اور انسان کہیں اپنے آپ کو ہر گڑھے میں نہ گرادے یاکہیں انسان ہر طرح کے گناہ کامرتکب نہ ہونے لگے اور اس طرح اپنے آپ کو عذاب کا سزا وار بنا کر بھی توقع رکھے کہ خدا اور اس کے مامو محافظین اس کی حفاظت کریں ، مزید فرمایا گیا ہے : خداکسی قوم و ملت کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ میں تبدیلی پیدا نہ کرے ( إِنَّ اللهَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِھِمْ )۔دوبارہ اس لئے کہ کوئی غلط فہمی نہ ہو کہ انسانی حفاظت کے مامورین ہونے کے باوجود مجازات و سزا اور خدا ئی امتحانات کا کیا معنی ہے ، آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : جس وقت خدا کسی قوم کے لئے برائی کا رادہ کرتا ہے تو پھر دفاع اور بازگشت کی کوئی باگشت کی کوئی صورت نہیں ہے (وَإِذَا اٴَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوئًا فَلاَمَرَدَّ لَہُ
” اور خدا کے علاوہ ان کو کوئی والی و ناصر اور یارو مدد گار نہیں ہو سکتا “ ( وَمَا لَھُمْ مِنْ دُونِہِ مِنْ وَالٍ
اسی بناء پر جب کسی قوم کے لئے خدا کی طرف سے عذاب ، سزا اور نابودی کا فرمان صادر ہوجاتا ہے تو محافظین اور نگہبان الگ ہو جاتے ہیں اور انسان کو حوادث کے سپرد کردیتے ہیں ۔

 

چند اہم نکات

 

۱۔ ”معقبات“ کیا ہیں ؟ جیسا کہ طبرسی نے مجمع البیان میں اور بعض میں اور بعض دوسرے بزرگ مفسرین نے کہاہے ” معقبات“ جمع ہے ” معقبہ“کی جب خود ” معقبہ“ بھی ” معقب“ کی جمع ہے اور یہ اس گروہ کو کہتے ہیں جس کے افراد پے در پدے ایک دوسرے کی نیابت میں کسی کا کے لئے نکلیں ۔
اس آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالےٰ نے کچھ فرشتوں کی یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ رات دن باری انسان کے پاس آئیں اور آگے اور پیچھے سے اس کی حفاظت کریں ۔
بیشک انسان اپنی زندگی میں بہت سی آفات و بلیات سے دوچار ہے ۔ اندرونی و بیرونی حوادث ، طرح طرح کی بیماریاں ، جرائم اور مختلف قسم کے حادثات و خطرات کہ جو زمین و آسمان سے ابھر تے ہیں انسان کو گھیر ے ہوئے ہیں ۔ خصوصاًبچپن کے زمانے میں جب گردو پیش کی کیفیتوں سے انسان بہت کم آگاہ ہوتا ہے ، اسے کوئی تجربہ نہیں ہوتا، ہر قدم پر اسے کوئی نہ کوئی خطرہ در پیش ہوتا ہے او رکبھی تو انسان تعجب کرتا ہے کہ ان تمام حوادث سے بچہ طرح بچ نکلتا ہے اور بڑا ہو جاتا ہے خصوصاًایسے گھر انوں میں جہاں ماں باپ مسائل سے بالکل آگاہ بھی نہیں ہوتے یا ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے ۔ خاص طور پر دیہات میں پلنے بڑھنے والے وہ بچے جو محرومیوں کا شکارہوتے ہیں اور بیماری اور خطرات کے عوامل میں گھر ے ہوتے ہیں ۔
اگر ان مسائل پر ہم حقیقی طور پر غور وفکر کریں تو ہم محسوس کریں گے کہ ایک محافظ طاقت ہے کہ جو ان حوادث سے ہماری حفاظت کرتی ہے اور سپرد اور ڈھال کی طرح آگے اور پیچھے سے ہماری محافظ و نگہبان ہے ۔
بہت سے مواقع پر انسان کو خطر ناک حادثات پیش آتے ہیں اور وہ معجزانہ طور پر ان سے بچ نکلتا ہے اس طرح سے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سب چیزیں اتفاقی نہیں ہیں کہ بلکہ ایک محافظ طاقت اس کی نگہبانی کررہی ہے ۔
پیشوایان ِ اسلام سے مروی بہت سی روایات بھی اس پر تاکید کرتی ہیں ۔ ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ زیر ِ بحث آیت کی تفسیر میں آپ (ع) نے فرمایا :
بحفظ بامر اللہ من ان یقع فی رکی علیہ حائط او یصیبہ شیء حتی اذاجاء القدر خلو بینہ و بین یدفعونہ الیٰ المقادیر و ھما ملکان یحفظانہ باللیل و ملکان من نھار یتعاقبانہ
حکم خدا سے انسان کی حفاظت ہوتی ہے ، کنویں میں گرنے سے یا دیوار پر آپڑ نے سے یا کوئی اور حادثہ سے مگر جب حتمی مقدرات آپہنچیں تو محافظین ایک طرف ہا جاتے ہیں اور اسے حوادث کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اور دو فرشتے انسان کی رات کو حفاظت کرتے ہیں اور ( ان کے علاوہ ) فر شتے دن کے وقت باری باری ذمہ داری پوری کرتے ہیں ۔ 2
ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :
مامن عبد الا و معہ ملکان یحفظانہ فاذا جاء الامر من عند اللہ خلیا بینہ و بین امر اللہِ
کوئی بھی ایسا بندہ نہیں کہ جس کے ساتھ دو فرشتے نہ ہوں کہ جو اس کی حفاظت کرتے ہوں لیکن جب خدا کا قطعی فرمان آپہنچا ہے تو وہ اسے حوادث کے سپرد کردیتے ہیں ۔3
(اس بناء پر وہ انسان کی حفاظت صرف ان حوادث سے کرتے ہیں جن کے بارے میں خدا کا قطعی حکم نہیں ہوتا )۔
نہج البلاغہ میں بھی حضر ت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا :
ان مع کل انسان ملکین یحفظانہ فاذا جاء القدر خلیا بینہ و بینہ
یعنی ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں کہ جو اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن جب حتمی مقدرات آپہنچے تو وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔ 4
اسی طرح نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں فرشتوں کی تعریف اور ان کے مختلف گروہوں کے بارے میں ہے :
و منھم الحفظة لعبادہ
ان میں سے ایک گروہ خد اکے بندوں کا محافظ ہے ۔
البتہ حسّی ذرائع سے یا طبعی علوم کے ذریعے ان فرشتوں کے وجود کے بارے میں عدم آگاہی ان کے وجود کی نفی کی دلیل نہیں ہو سکتی اور یہ بات زیر بحث آیت میں منحصر نہیں ہے بلکہ قرآن مجید اور اسی طرح دیگر مذاہب بہت سے ایسے امور کی خبر دیتے ہیں جو حس ّ انسانی سے ماوراء ہیں کہ جن کے بارے میں انسان عام ذرائع سے آگاہی حاصل نہیں کرسکتا ۔
اس سے قطع نظر جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں کہا ہے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمیں اس محافظ قوت کی واضح نشانیاں نظر آتی ہیں اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ بہت سے تباہ کن حوادث سے ہم معجزانہ طور پر نجات حاصل کرتے ہیں کہ جن کی تفسیر عام طریقے سے نہیں ہوسکتی یا جنہیں اتفاق قرار دینا مشکل ہے ۔
خود راقم نے اپنی زندگی میں اس کے نمونے دیکھے ہیں کہ جو یقینا حیرت انگیز ہیں کہ جو مجھ جیسے جلدی یقین نہ کرنے والے شخص کے لئے بھی غیر مرئی محافظ کے وجود کے لئے دلیل تھے ۔
۲۔ تبدیلی ہمیشہ خود ہمارے ہاتھو سے آتی ہے :”ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسھم “ یہ جمہ قرآن میں دو مواقع پر مختصر سے فرق کے ساتھ آیاہے اس میں ایک عمومی اور کلی قانون بیان کیا گیا ہے ۔ یہ ایک حیات ساز ، انقلاب آفریں، اور خبر دار اور ہوشیار کرنے والا قانون ہے ۔
یہ قانون اسلام میں جہاں بینی او رمعاشرہ شناسی کی بنیاد ہے .....یہ قانون ہم سے کہتا ہے کہ تمہاری تقدیر ہر چیز اور ہر شخص سے پہلے خود تمہارے ہاتھ میں ہے اور قوموں کی خوش بختی و بد بختی کے سلسلے میں تبدیلی اور تغیر پہلے درجے میں خود انہی سے وابستہ ہے ۔ قسمت ، اقبال اتفاقات اور اوضاعِ فلکی کی تاثیر و غیرہ کوئی بھی بنیاد نہیں رکھتی ۔ اساس و بیاد یہی ہے کہ ہر شخص خود چاہے تو سر بلند اور کامیاب ہو یا اس کے علاوہ خود چاہے تو اپنے آپ کو ذلت ، زبوں حالی اور شکست کے سپرد کردے ۔ یہاں تک کہ لطف الہٰی کسی ملت پر بغیر کسی مقدمہ اور تمہید کے نہیں آتا۔
بلکہ یہ ملتوں کا اپنا ارادہ ، خواہش اور ان کے اندر ونی تغیرات ہیں کہ جو انہیں لطف ِ خدا یا عذابِ خدا کا مستحق بنا تے ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں اسلام اجتماعی پرگرام کے ایک اہم ترین گوشے سے آگاہ کرنے والا یہ قانون ہم سے کہتا ہے کہ ہر قسم کے بیرانی تغیرات اور تبدیلیاں ملتوں اور قوموں کے اندرونی تغیرات پر منحصر ہوتی ہیں اور کسی قوم کو پیش آنے ہر قسم کی فتح و شکست کا سر چشمہ اس کے اندر ہو تا ہے ۔ لہٰذا وہ لوگ کہ جو اپنا دامن بچانے کے لئے ہر وقت ” بیرونی عوامل “ کے پیچھے پھرتے ہیں اور ہمیشہ اقتدار پرست اور استعماری طاقتوں کو اپنی بد بختی کا عامل شمار کر تے ہیں بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کیونکہ اگر کسی معاشرے کے اندر ان جہنمی طاقتوں کو کوئی مر کز حاصل نہ ہو تو یہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ ان توسیع پسندوں ، استعماری قوتوں اور سپرد طاقتوں کی چھاوٴنیاں او رمراکز اپنے معاشرے سے در ہم برہم کردیں اور ان کی سر کوبی کریں تاکہ ان کے لئے نفوذ کی کوئی راہ ہی باقی نہ رہے ۔
یہ طاقتیں شیطان کی مانند ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ قرآن کے بقول شیطان ان لوگوں پر دسترس حاصل نہیں کرسکتا جو” عباد مخلصین “ ہیں ۔ وہ صرف ان لوگوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے جنہوں نے اپنے وجود کے اندر شیطان کے لئے کوئی جگہ بنا رکھی ہے ۔
قرآن کی اس بنیادی تعلیم کا تقاضا ہے کہ بد بختیوں او رناکامیوں کو ختم کرنے کے لئے اندرونی انقلاب کی طرف بڑھیں ۔ ایک فکری اور ثقافتی انقلاب کی طرف ، ایک ایمانی اور اخلاقی انقلاب کی طرف ۔ بد بختیوں کے چنگل میں گرفتاری کے وقت اپنے کمزور پہلووٴں کو فوراً تلاش کرنا چاہئیے ۔ ہمیں اپنی روح سے کمزوری کے داغ توبہ او رحق کی طرف باز گشت کے پانی سے دھونے چاہئیں ۔ا س طرح ہم ایک نیا جنم لیں گے ، نیا نور بصیرت ملے گا اور نئی طاقت حرکت پیدا ہو گی اور اس کے ذریعے ہم اپنی ناکامیوں اور شکستوں کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں ۔ یہ کامیابی اس طرح سے ممکن نہیں کہ ہم اپنے کمزورپہلووٴں کو خود خواہی اور خود غرضی کے پردوں میں چھپا دیں اور عوامل شکست کو اپنے معاشرے کے باہر سے تلاش کرتے پھریں ۔
پہلے مسلمانوں کی فتح و کامرانی او ربعد والے مسلمانوں کی شکست کے عوامل پر اب تک بہت سی کتا بیں لکھی گئی ہیں ۔ ان میں سے بہت سی مباحث سنگلاخ زمین پر ہل چلانے اور بے سمت چلنے کے مترادف ہیں ۔ ہمیں چاہئیے کہ کامیابی اور ناکامی کے عوامل خود مسلمانوں کے فکری ، اعتقادی اور اخلاقی تغیرات میں تلاش کریں ۔ خود مسلمانوں کی عملی زندگی کا مطالعہ کریں نہ کہ اس سے ہٹ کر ۔
دورحاضر کے انقلابات کہ جن میں سے ایک ہماری ملت کا انقلاب ہے اسی طرح اگر ہم الجزائر ، افغانستان اور دیگر مقامات کی انقلابی جد و جہد کا مطالعہ کریں تو ہم ان میں واضح طورپر اس قرآنی اصل کی حاکمیت کا مشاہدہ کریں گے۔
یعنی ... سامراجی حکومتوں اورتو سیع پسند طاقتوں نے تو اپنی روش نہیں بدلی لیکن جب ہم اندر سے تبدیل ہو گئے تو ہر چیز بدل گئی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ صرف وہی رہبر اور قائد کا میاب ہوئے ہیں کہ جنہوں نے اس بنیادی قانون کے مطابق اپنی ملت کی رہبری کی ہے اور اس میں ایک انقلاب پیدا کیا ہے ۔
تاریخ اسلام اور دورِ حاضر کی تاریخ اس اساسی و بنیادی اور جاو دانی و دائمی قانون کی صداقت کے شواہد سے بھری پڑی ہے کہ جن کے تفصیلی ذکر سے ہماری بحث ہمیں اس تفسیر کی روش سے دور لے جائے گی ۔
 ۱۲۔ ھُوَ الَّذِی یُرِیکُمْ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنْشِءُ السَّحَابَ الثِّقَالَ۔
۱۳۔ وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِیفَتِہِ وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیبُ بِھَا مَنْ یَشَاءُ وَھُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللهِ وَھوَ شَدِیدُ الْمِحَالِ۔
۱۴۔ لَہُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ لاَیَسْتَجِیبُونَ لَھُمْ بِشَیْءٍ إِلاَّ کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ إِلَی الْمَاءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ھوَ بِبَالِغِہِ وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِینَ إِلاَّ فِی ضَلَالٍ۔
۱۵۔ وَلِلَّہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ طَوْعًا وَکَرْھًا وَظِلَالُھمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۔

ترجمہ

 

۱۲۔ وہ وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھا تا ہے کہ جو خوف کا بھی باعث ہے اور امید کا بھی نیزہ وہ بوجھل بادہ پیدا کرتاہے ۔
۱۳۔ اور گرج اس کی تسبیح اور حمد کرتی ہے اور فرشتر ( بھی ) اس کے خوف سے( مشغول تسبیح ہیں )اور ویہ صاعقہ بھیجتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس میں گرفتار کرتا ہے حالانکہ وہ (خدا کی ان آیات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ) خدا کے بارے میں مجادلہ میں مشغول ہیں اوراس کی قدرت لامتناہی ( اور عذاب درناک) ہے ۔
۱۴۔ حق کی دعوت اس کی طرف سے ہے اور جو ( مشرک ) لوگ غیر خدا کو پکار تے ہیں ان کی پکار کا وہ کوئی جواب نہیں دیتے یہ لوگ اس شخص کی طرح ہیں جو پانی کی طرف اپنی ہتھیلیاں کھولتا ہے تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے لیکن وہ کبھی نہیں پہنچے گا اور کافروں کا پکار ضلالت ( اور گمراہی ) کے سوال کچھ نہیں
۱۵۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے طوعاً یاکرھاًخد اکے لئے سجدہ ریز ہے ۔ اسی طرح دن رات ان کے سائے بھی ( سجدہ گزار ہیں ) ۔


 
۱۔ مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ ”لہ “ کی ضمیر کس کی طرف لوٹتی ہے ۔ مشہور تفسیر یہی ہے کہ یہ انسان کی طرف لوٹتی ہے جس کی طرف قبل کی آیت میں اشارہ ہوا ہے ۔ بعض نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ یہ پیغمبر یا خدا کی طرف لوٹتی ہے لیکن یہ احتمال ذیل کی آیت سے مناسبت نہیں رکھتا ( غورکیجئے گا )
2۔ تفسیر بر ہان جل د ۲ ص ۳۸۳۔
3۔ تفسیر بر ہان جل د ۲ ص ۳۸۳۔
4۔نہج البلاغہ ، کلمات قصار جملہ ۲۰۱۔
خدا کا بے پایاں علم عظمت الہٰی کی کچھ نشانیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma