چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
یوسف (ع) کی بھائیوں کو نئی تجویز آخرکار باپ راضی ہو گئے

۱۔ حضرت یوسف (ع) نے بھائیوں نے اپنا تعارف کیوں نہیں کروا یا : مندرجہ بالا آیات کے مطالعہ سے جو پہلا سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضر ت یوسف (ع) نے بھائیوں نے اپنا تعارف کیوں نہ کروایا کہ وہ جلد از آپ کو پہچان لیتے اور باپ کے پاس واپس جاکر انہیں آپ کی جدائی کے جانکاہ غم سے نکالتے َ ؟
یہ سوال زیادہ وسیع حوالے سے بھی سامنے آسکتا ہے اور وہ یہ کہ جس وقت حضرت یوسف (ع) کے بھائی آپ کے پا س آئے اس وقت آپ کی زندان سے رہائی کو کوئی آٹھ سال گزر چکے تھے کیونکہ گزشتہ سات سال فراوان نعمتوں پرمشتمل گزر چکے تھے جن کے دوران آپ قحط سالی کے عرصے کے لئے اناج ذخیرہ کرنے میں مشغول تھے ۔ آٹھویں سال قحط کا دور شروع ہوا ۔ اس سال یا اس کے بعد آپ کے بھائی غلہ لینے کے لئے مصر آئے ۔ کیا چاہئیے نہ تھا کہ ان آٹھ سالوں میں آپ کوئی قاصد کنعان کی طرف بھیجتے اور اپنے والد کو اپنے حالات سے آگاہ کرتے اور انہیں شدید غم سے نجات دلاتے ؟
بہت سے مفسرین نے مثلاً طبرسی نے مجمع البیان میں ، علامہ طباطبائی نے المیزان میں اور قر طبی نے الجامع الاحکام القرآن میں اس سوال کا جواب دیا ہے اور اس سلسلے میں کئی جوابات پیش کئے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ بہتر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی کیونکہ فراق ِ یوسف (ع) دیگر پہلووٴں کے علاوہ حضرت یعقوب کے لئے ایک امتحان بھی تھا اور ضروری تھا کہ آزمائش کا یہ دور فرمان الہٰی سے ختم ہوا اور اس کے پہلے حضرت یوسف (ع) خبر دینے کے مجاز نہ تھے ۔
علاوہ ازیں اگر حضرت یوسف (ع) فوراً ہی اپنے بھائیوں کو اپنا تعارر کروادیتے تو ممکن تھا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوتا اور ہوسکتا تھا جہ وہ اس سے ایسے وحشت زدہ ہوتے کہ پھر لوٹ کر آپ کے پاس نہ آتے کیونکہ انہیں یہ خیال پیدا ہوتا کہ ممکن ہے یوسف (ع) ان کے گزشتہ رویہ کا انتقال لیں ۔
۲۔غلہ کی قیمت کیوں واپس کردی : حضرت یوسف (ع) نے یہ حکم کیوں دیا تھا کہ جو مال ان کے بھائیوں نے غلے کی قیمت کے طور پر دیا ہے وہ ان کے سامان میں رکھ دیا جائے ؟
اس سوال کے بھی کئی جواب دئیے گئے ہیں ۔ ان میں سے فخرالدین رازی نے اپنے تفسیر میں دس جوابات ذکر کئے ہیں ۔ بعض تو ان میں سے غیر مناسب ہیں البتہ خود مذکورہ آیت نے اس سوال کا جواب دیا ہے :” لَعَلَّھُمْ یَعْرِفُونَھا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی اٴَھْلِھمْ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُون“۔
یعنی حضرت یوسف (ع) کا مقصد یہ تھا کہ جب وہ وطن واپسی پر اپنا سامان دیکھیں گے تو انہیں عزیز مصر ( حضرت یوسف (ع) ) کی کرم نوازی کا پہلے سے زیادہ احساس ہو اور اسی بنیاد پر وہ دوبار ہ آپ کے پاس آجائیں یہاں تک کہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی پورے اطمینان ِقلب سے اپنے ساتھ لے آئیں اور خود حضرت یعقوب (ع) بھی یہ بات دیکھ کر بنیامین کو بڑے اعتماد سے مصر روانہ کردیں ۔
۳۔حضرت یوسف (ع) نے بیت المال کا مال کیوں بلا معاوضہ دے دیا؟ :ایک اور سوال جو یہاں سامنے آتاہے یہ ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے اپنے بھائیوں کو بیت المال کا کچھ حصہ کیوں بلا معاضہ دے دیا۔
اس سوال کا جوانب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے :
پہلا یہ کہ مصر کے بیت المال میں مستضعفین کا حق تھا( اور ہمیشہ ہوتا ہے ) اور مختلف ممالک میں موجود سر حدوں سے یہ حق ختم نہیں ہوتا ۔ اسی لئے حضرت یوسف (ع) اپنے بھائیوں کے لئے جو اس وقت مستضعف تھے اس حق سے استفادہ کیا جیسا کہ وہ دیگر مستضعفین کے لئے بھی کرتے تھے ۔
دوسرا یہ کہ حضرت یوسف (ع) اس وقت ایک حساس منصب پر تھے جس کی بناء پر ذاتی طور پر بھی ان کے کچھ حقوق تھے ، ان کا کم از کم یہ حق تھا کہ وہ اپنے معاشی ضروریات کا ، اپنے ضرورت مند اہل و عیال کا اور اپنے باپ اور بھا ئیوں جیسے رشتہ داروں کی کم از معاشی زندگی کا خیال رکھیں اسی بناء پر آپ نے اس بخشش و عطا میں اپنے حق سے استفادہ کیا۔

۶۳۔ فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی اٴَبِیھِمْ قَالُوا یَااٴَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَاٴَرْسِلْ مَعَنَا اٴَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ۔
۶۴۔ قَالَ ھَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْہِ إِلاَّ کَمَا اٴَمِنتُکُمْ عَلَی اٴَخِیہِ مِنْ قَبْلُ فَاللهُ خَیْرٌ حَافِظًا وَھُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ۔
۶۵۔ وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَھُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَھُمْ رُدَّتْ إِلَیْھِمْ قَالُوا یَااٴَبَانَا مَا نَبْغِی ھَذِہِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ اٴَھْلَنَا وَنَحْفَظُ اٴَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ
۶۶۔ قَالَ لَنْ اٴُرْسِلَہُ مَعَکُمْ حَتَّی تُؤْتُونِی مَوْثِقًا مِنْ اللهِ لَتَاٴْتُونَنِی بِہِ إِلاَّ اٴَنْ یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْہُ مَوْثِقَھُمْ قَالَ اللهُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ۔

ترجمہ

۶۳۔ جب وہ اپنے والد کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : ابا جان ! ہم سے ( غلے کا) پیمانہ روک دیا گیا ہے لہٰذا ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے گا تاکہ ہم ( غلے کا ) حصہ لے سکیں اور ہم اس کی حفاظت کریں گے ۔
۶۴۔ اس نے کہا کہ کیا میں اس کے بارے میں تم پر بھروسہ کرلوں جیسا کہ اس کے بھائی ( یوسف ) کے بارے میں میں تم پر بھروسہ کیا تھا اور( میں نے دیکھا کہ کیا ہوا اور بہر حال ) خدا بہترین محافظ اور ارحم الراحمین ہے ۔
۶۵۔ اور جس وقت انہوں نے اپنا مال و متاع کھولا تو انہوں نے دیکھا کہ ان کا سرمایہ انہیں واپس کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا : ابا جان ! ہمیں اور کیاچاہئیے یہ( دیکھئے)ہمارا سرمایہ جو ہمیں واپس کردیا گیا ہے ( لہٰذا کیا ہی اچھا ہے کہ بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے) اور ہم اپنے گھر والوں کے لئے اناج لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور زیادہ بڑا پیمانہ حاصل کریں گے ، یہ تو چھوٹا پیمانہ ہے ۔
۶۶۔ اس نے کہا میں ہر گز اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ مجھ سے پکا خدائی وعدہ نہ کرو کہ اسے حتماً میرے پاس لے آوٴگے مگر یہ کہ ( موت یا کسی اور سبب سے ) تم سے قدرت سلب ہو جائے اور جس وقت انہوں نے اس سے قابل ِ وثوق وعدہ کرلیا تو اس نے کہا : جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں خدا اس پر ناظر و حافظ ہے ۔

 

یوسف (ع) کی بھائیوں کو نئی تجویز آخرکار باپ راضی ہو گئے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma