۱۔ ایمان اور راہ ِخدا کو نور سے تشبیہ دینا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
ظلمتوں سے نور کی طرف سوره ابراهیم آیت 4-7

۱۔ ایمان اور راہ ِخدا کو نور سے تشبیہ دینا: اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”نور“ عالم مادہ کا لطیف ترین موجود ہے ، اس کی رفتار نہایت تیز ہے اور جہان ِ مادہ میں اس کے آثار و بر کات ہر چیز سے زیادہ ہیں ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام مادی نعمات و بر کات کا سر چشمہ نور ہے ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایمان اور راہِ خدا میں قدم رکھنے کو نور سے تشبیہ دینا کس قدر پر معنی ہے ۔
نور اتحاد کا سبب ہے اور ظلمت انتشار کا عامل ہے ۔ نور زندگی کی علامت ہے اور ظلمت موت کی نشانی ہے ۔ اسی بناء پر قرآن ِ مجید میں بہت سے قیمتی امور کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
ان میں سے ایک عمل صالح ہے ۔
یوم تری المومنین و الموٴمنات یسعیٰ نور ھم بین ایدیھم و بایمانھم
وہ دن کہ جب تو صاحب ِ ایمان مردو اور عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے سامنے اور دائیں جانب رواں دواں ہو گا ۔ ( حدید ۔۱۲) ۔
ایمان اور توحید کے لئے بھی یہ لفظ آیا ہے ۔ مثلاً
اللہ ولی الذین اٰمنوا یخرجھم من الظلمات الیٰ النور
اللہ ان لوگوں کا ولی و سر پرست ہے جو ایمان لائے ہیں کہ جنہیں وہ ظلمتوں سے نور کی ہدایت کرتا ہے ۔( بقرہ ۔ ۲۵۷)
قرآن کو بھی نور سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :
فالذین اٰمنوا بہ و عزروہ و نصروہ و اتبعوا النور الذی انزل معہ اولٰئک ھم المفلحون
اور جوپیغمبر پر ایمان لائے ہیں ، اس کی عزت و توقیر کرتے ہیں ، اس کی مدد کرتے ہیں اور ا س نور کی پیروی کرتے ہیں کہ جو اس کے ساتھ نازل ہواہے ، وہ فلاح پانے والے ہیں ۔ (اعراف ۔۱۵۷)
نیز خدا کے آئین و دین کو اس پر بر کت وجود سے تشبیہ دی گئی ہے :
یریدون ان یطفوٴا نور اللہ بافواھھم
وہ چاہتے ہیں کہ پھونکوں سے نور خدا کا خاموش کردیں ۔ ( توبہ ۔۳۲)
اور سب سے بڑھ کر خدا کی ذات پاک کہ جو افضل ترین وجود ہے بلکہ سب کی ہستی جس کے وجود ِ مقدس کا پر تو ہے کو نو ر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :
اللہ نور السمٰوٰت و الارض
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ ( نور۔۳۵)
یہ تمام امور ایک ہی حقیقت کی طرف پلٹ تے ہیں کیونکہ یہ سب اللہ ، اس پر ایمان ، اس کی گفتگو اور اس کی راہ کے پر تو ہیں ۔ لہٰذا یہ لفظ ان مواقع پر مفرد کی شکل میں آیا ہے ۔ جب کہ اس کے بر عک” ظلمات“ چونکہ ہر جگہ انتشار و تفرقہ کا عامل ہے لہٰذا جمع کی صورت میں تعدد و تکثر کی علامت کے طور پر ذکر ہوا ہے اور خدا پر ایمان لانا ، اس کی راہ میں قدم رکھنا چونکہ حرکت بیداری کا سبب ہے ، اجتماعیت و وحدت کا عامل ہے اور ارتقاء و پیش رفت کا ذریعہ ہے لہٰذا یہ تشبیہ ہر لحاظ سے رسا ، با معنی اور باعث تربیت ہے ۔
۲۔ ”لتخرج“ کامفہوم : پہلی آیت میں ” لتخرج“ کی تعبیر در حقیقت دو نکات کی طرف اشارہ کرتی ہے :
پہلا یہ کہ قرآن مجید اگر انسان کے لئے ہدایت و نجات کی کتاب ہے تا ہم اسے اجراء و نفاذ کرنے والے اور علمی صورت بخشنے والے کی احتیاج ہے لہٰذا پیغمبر جسے راہبر کی ضرورت ہے جو ا س کے ذریعے راہ حقیقت سے بھٹکے ہوؤں کی بد بختی کی ظلمات سے نورِ سعادت کی طرف ہدایت کرے ۔ لہٰذا قرآن بھی اپنی اس قدر عظمت کے باوجود رہبر ، رانما، مجری اور نافذ کرنے والے کے بغیر تمام مشکلات حل نہیں کرسکتا ۔
دوسرا یہ کہ خارج کرنے کی تعبیر در حقیقت تغیر و تبدل کے ساتھ حرکت دینے اور چلانے کی دلیل ہے ۔ گویا بے ایمان لو گ ایک تنگ و تاریک فضا میں ہوتے ہیں اور پیغمبر و رہبر ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں وسیع او ر روشن فضا میں لے جاتے ہیں ۔
۳۔ سورة کے آغاز و اختتام پر ایک نظر : یہ امر جاذب توجہ ہے کہ اس سورة کا آغاز لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف ہدایت سے ہوا ہے او راکا اختتام بھی لوگوں کو ابلاغ و انذار پر ہوا ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ بہر حال اصلی ہدف خود لوگ ، ان کی سر نوشت اور ان کی ہدایت ہے اور در حقیقت انبیاء و مر سلین کا بھیجنا اور آسمانی کتب کا نزول سب اسی کو پانے کے لئے ہے ۔

ظلمتوں سے نور کی طرف سوره ابراهیم آیت 4-7
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma