۱۔ کیا آخرت سے مراد قبر ہے ؟ بہت سی روایات میں ہے کہ جب انسان قبر میں پہنچتا ہے اور فرشتے اس سے اس کی حقیقت کے متعلق سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے ایمان کے راستے پر ثابت قدم رکھتا ہے اور اس کا یہی معنی ہے :
یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ
ان میں سے بعض روایا ت میں صراحت کے ساتھ لفظ” قبر “ آیاہے ۔ 1
جبکہ بعض دوسری روایات میں ہے کہ شیطان موت کے وقت صاحب ِ ایمان کے پاس آتا ہے اور کبھی داہنی طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے اسے گمراہ کرنے کے لئے وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن خدا اسے اجازت نہیں دیتا کہ وہ مومن کو گمراہ کرے ” یثبت اللہ الذین اٰمنوکا یہی مفہوم ہے ۔
امام صادق علیہ السلام کی اس روایت کا بھی یہ مفہوم ہے :
ان الشیطان لیا تی الرجل من اولیاء ناعند موتہ عن یمینہ و عن شمالہ لیضلہ عما ھو علیہ فیاٴبی اللہ عزو جل لہ ذٰلک قول اللہ عزو جل یثبت اللہ الذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحیٰوة الدنیا و فی الآخرة۔2
مفسر عظیم طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ اکثر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دار ِ آخر نہ لغزش کی جگہ ہے اور نہ عمل کی بلکہ صرف نتائج اعمال کا سامنا کرنے کا مقام ہے لیکن وہ لمحہ کہ جب موت آپہنچے اور حتی کہ عالم بر زخ ( وہ جہان کہ جو اس عالم اور عالم ِ آخرت کے درمیان ہے )میں تھوڑا بہت لغزش کا امکان ہے ۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں لطف ِ الہٰی انسا ن کی مدد کو آپہنچتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے ثابت قدم رکھتا ہے ۔