۳۔ مسئلہ احباط

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
۲۔ ان کے اعمال کیوں کھوکھلے ہیں؟۴۔ کیا ایجادات و انکشافات کرنے والوں کے لئے بھی جزا ء ہے ؟

۳۔ مسئلہ احباط : جیسے ہم سورہٴ بقرہ کی آیہ ۲۱۷ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں حبط ِ اعمال یعنی برے اعمال یاکفرو بے ایمانی کی وجہ سے اچھے اعمال ختم ہو جانے کا مسئلہ علماء اسلام کے درمیان اختلافی ہے لیکن حق یہ ہے کہ کہ بے ایما نی اور کفر پر اصرار اور ہٹ دھرمی نیز بعض اعمال مثلاً حسد ، غیبت اور قتل ِ نفس کی ایسی بری تاثیر ہے جو نیک اعمال اور حسنات کو بر باد کردیتی ہے ۔ زیر نظر آیت بھی حبط ِ اعمال کے امکان پر ایک اور دلیل ہے ۔

 

( جلد ۲ تفسیر نمونہ صفحہ ۶۶ ( اردو ترجمہ )
  کیا ایجادات و انکشافات کرنے والوں کے لئے بھی جزا ء ہے ؟ مندرجہ بالا مباحث کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ اہم سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ علوم اور ایجاداتو انکشافات کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے سائنسدانوں نے طاقت فرسازحمتیں جھیلی ہیں اور بہ محرومیوں کو بر داشت کیا ہے تاکہ ایجاد اور انکشاف کرسکیں تاکہ اپنے ہم نوع لوگوں کے دوش سے بھاری بوجھ اتار سکیں مثلاً بجلی ایجاد کرنے والے اڈیسون نے اس قیمتی ایجاد کے لئے کیسی جانکاہ زحمتیں جھیلی ہیں۔
اس ایجاد کی برکت سے سر سبز کھیتیوں کو ٹیوب ویل سے پانی ملا ہے ، درخت سر سبز ہوئے ہیں اور کھیت آباد ہوئے خلاصہ یہ کہ دنیا کاچہرہ ہی بدل گیا ہے ۔
اسی طرح پاسور ہے کہ جس نے جراثیم کو دریافت کرکے لاکھوں انسانوں کو موت کے خطرے سے نجات دلادی ہے ۔
کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ ایسے سب افراد اس فرض کی بناء پر قعر ِ جہنم میں گراجائیں کہ وہ ایمان نہیں رکھتے تھے لیکن وہ افراد جنہوں نے عمر بھر انسانوں کی خدمت کا کوئی کام نہیں کیا ان کا مقام بہشت ہو۔
اس کا جواب یہ کہ :
اسلام کے معاشرتی اصولوں کے لحاظ سے فقط اسلام کے معاشرتی اصولوں کے لحاظ سے فقط عمل کو دیکھنا کافی نہیں بلکہ عمل کی قدر و قیمت اس کے محرک ، سبب اور مقصد کے ساتھ بنتی ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ہسپتال ، سکول یاکوئی اور مفید عمارت تعمیر کرتے ہیں اور اظہار بھی یہ کرتے ہیں کہ ان کا مقصد اس معاشرے کی انسانی خدمت ہے جس کے وہ مرہون ِ منت ہیں حالانکہ اس پر دے کے پیچھے کوئی اور مطلب چھپا ہوتا ہے ۔ ان کا مقصد مقام و منصب ی امال و ثروت کا حصول ہوتا ہے یا وہ اپنے بچاوٴ کے لئے ایسا کرتے ہیں یا وہ عوامل کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے مادی مفادات کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں یا پھر وہ دوسروں کی نظر وں سے بچ کر خیانت کرنا چاہتے ہیں ۔
لیکن اس کے بر عکس ممکن ہے کوئی شخص پورے خلوص سے یا سوفی صدانسانی اور روحانی جذبہ سے کوئی چھوٹا سا کام انجام دے ۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ” عظیم لوگوں “ کے عمل اور کردار کے محرک کی بھی تحقیق کی جائے ۔ اگر تحقیق کی جائے تو ان کا عمل یقینا چند اشکال سے خارج نہیں ہے ۔
الف: کبھی کسی ایجاد کا حقیقی مقصد تخریب ہوتا ہے ( جیسے اٹامک نر جی کی دریافت پہلے پہل ایٹم بم بنانے کے لئے ہوئی ) ۔
پھر اس کے ساتھ نوعِ انسان کو کچھ فائدے بھی حاصل ہو جاتے ہیں کہ جو دریافت یا ایجاد کرنے والوں کو حقیقی مقصد نہیں ہوتا یا پھر اسے ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے ایجادات کرنے والوں کی ذمہ داری پوری طرح واضح ہوجاتی ہے ۔
ب: کبھی ایجاد و انکشاف کرنے والے کا مقصد مادی فوائد یانام و نمود اور شہرت کا حصول ہوتا ہے ۔ ایسا شخص درحقیقت ایک تاجر کی طرح ہے کہ جو زیادہ آمدنی کے لئے زیادہ نفع بخش چیزیں بناتاہے ۔ اس کی بنائی ہوئی چیزیں کچھ لوگوں کے لئے مفید ہوتی ہیں اور ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ اس کا مقصد سوائے آمدنی کے کچھ بھی نہیں ہوتا اور اگر کسی اور کا م میں زیادہ آمدنی ہو تو وہ اسے شروع کردیتا ہے ۔ البتہ ایسی تجارت یاپیدا وار اگر شرعی قوانین کے مطابق ہو تو غلط اور حرام کام نہیں ہوگا لیکن کوئی مقدس عمل بھی شمار نہیں ہوگا ۔
ایسی ایجادیں اور دریافتیں تاریخ میں کم نہیں ہیں کہ جو ا س قسم کے طرز فکر کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ اگر یہ لوگ دیکھیں کہ ایسے کسی کام کی نسبت دوسرے راستے میں آمدنی زیادہ ہے اگر چہ وہ معاشرے کے لئے مضر ہو ( مثلا ً دوا سازی کی صنعت میں ۲۰ ۰/۰منافع ہے اور ہیروئن سازی میں ۵۰ ۰/۰) تو یہ دوسرے کو ترجیح دیں گے ۔
ایسے لوگ نہ خد اسے کوئی مطالبہ رکھتے ہیں نہ اپنے ہم نوع انسانوں سے ۔ ان کا اجر وہی فائدہ اور شہرت ہے جو وہ چاہتے ہیں اور جوانہوں نے پالیا ہے ۔
ج: ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس کے محرکات اور اسباب یقینا انسانی نہیں یا اگر وہ اللہ کے معتقد ہیں تو ان کے اہداف اور محرکات الہٰی ہیں۔ یہ لوگ کبھی کبھی سالہا سال تجربہ گاہوں کے گوشے میں غربت و محرومی سے گزاردیتے ہیں ۔ اس امید پر کہ اپنی نوع کی کچھ خدمت کرسکیں اور جہان ِ انسانیت کوکوئی ہدیہ اور سوغات پیش کرسکیں ، کسی تکلیف زدہ کے پاوٴں کی زنجیر کھول سکیں اور کسی رنجیدہ خاطر کے چہرے پر پریشانی کی پر چھائیاں دور کرسکیں ۔
ایسے افراد اگر ایمان اور الہٰی محرم رکھتے ہوں تو پھر ان کے بارے میں کوئی بحث نہیں اور اگر وہ ایمان اور الہٰی محرک نہ رکھتے ہوں لیکن ان کا محرم انسانی اور لوگوں کی خدمت ہو تو اس میں شک نہیں کہ انہیں خد اوند ِ عالم کی طرف منابس اجر اور جزا ملے گی ۔ ہو سکتاہے انہیں یہ جزا دنیا میں ملے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے جہان میں ملے یقینا خدا وند عالم و عادل انہیں محروم نہیں کر ے گا ۔ لیکن کسی طرح اور کس طرز پر ، اس کی تفصیلات ہم پر واضح نہیں ۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”خدا اس قسم کے نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا“ ( البتہ اگر وہ ایمان قبول نہ کرنے میں جاہل قاصر ہو تو پھر مسئلہ بہت واضح ہے ) ۔
اس مسئلہ دلیل حکم عقلی کے علاوہ وہ اشارات ہیں جو آیات یا روایات میں آئے ہیں ۔ ہمارے پا س کوئی دلیل نہیں کہ ” ان اللہ یضیع اجر المحسنین “۱
کے مفہوم میں ایسے افراد شامل نہ ہوں ۔ کیونکہ قرآن میں لفظ ”محسنین“ کااطلاق صرف ”مومنین “ نہیں ہوا ۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کے پاس آئے تو انہیں پہچانے بغیر عزیز مصر سمجھتے ہوئے کہنے لگے :
انانراک من المحسنین
ہم تجھے نیکو ں کاروں میں سے سمجھتے ہیں ۔
اس سے قطع نظر یہ بھی فرمان ِ الہٰی ہے :
فمن یعمل مثقال ذرة خیراً ومن یعمل مثقال ذرة شرّاً یرہ
جو شخص بھی ذرہ بھر اچھا کام کرے گا اسے دیکھے گا او ر جو کوئی ذرہ بھر بر اکام کرے گا اسے دیکھے گا ۔
ایک حدیث میں علی بن یقطین کی وساطت سے امام کاظم علیہ السلام سے مروی ہے :
بنی اسرائیل میں ایک صاحبِ ایمان تھا ۔ اس کا ہماسایہ کافر تھا ۔ کافر اپنے صاحب ِ ایمان ہمسائے اچھا سلوک کرتا تھا ۔ جب وہ دنیا سے گیا تو خدا نے اس کے لئے ایک گھر بنایا تاکہ جہنم کی آگ کی تپش سے رکاوٹ ہو اور اس سے کہا گیا کہ یہ اپنے مومن ہمسائے سے تیرے نیک کے سلوک کے سبب سے ہے 2
عبد اللہ بن جد عان زمانہ جاہلیت کے مشہور مشرکین اور قریش کے سر داروں میں سے تھا ۔ اس کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے منقول ہے :
اہل جہنم میں کمترین عذاب ابن ِ جدعان کو ہو گا ۔
لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیوں
آپ نے فرمایا:
انہ کان یطعم الطعام
کیونکہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا تھا ۔3
ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
یمن سے کچھ لوگ رسول اللہ سے بحث و تمحیص کے لئے آپ کی خدمت میں آئے ا ۔ ان میں سے ایک شخص تھا جو زیادہ باتیں کرتا تھا اور آپ سے بڑی سختی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا تھا ۔آنحضرت کو اتنا برا لگا کہ ناپسند ید گی کے آثارآپ کے چہرہ مبارک پر پوری طرح ظاہر ہوئے ۔ اس وقت جبرائیل آئے اور یہ پیام الہٰی آپ تک پہنچا یا کہ خدا فرماتا ہے : یہ شخص سخی ہے ۔ یہ بات سنتے ہیں رسول اللہ کا غصہ ختم ہوگیا ۔ اس کی طرف رخ کرکے آپ نے فرمایا کہ پروردگارنے مجھے اس قسم اس قسم کا پیغام دیا ہے اور اگر یہ بات نہ ہوت تو میں تجھ پر اس قسم کی سختی کرتا کہ تو دوسروں کے لئے عبرت بن جاتا ۔ اس شخص نے پوچھا : کیا آپ کے پروردگار کوسخاوت پسند ہے ؟ فرمایا : ہاں ۔ تو اس نے عرض کیا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو اکوئی معبود نہیں اور آپ اس کے رسول اور فرستادہ ہیں اور اسی خدا کی قسم جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے آج تک میں نے کسی شخص کو اپنے ہاں سے محروم نہیں پلٹا یا ۔ ۴
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بعض آیات اور بہت سے روایات سے معلم ہوتا ہے کہ ایمان یا یہاں تک کہ ولایت قبول ِ اعمال یا جنت میں داخلے کی شرط ہے لہٰذا اگر بے ایمان افراد سے بہترین اعمال سرزد ہوں تو وہ بار گاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوں گے ۔
لیکن اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے کہ ”قبولیت اعمال “ کا ایک مفہوم ہے اور مناسب اجر ملنا دوسرا مسئلہ ہے لہٰذ علماء اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ مثلاً حضور قلب کے بغیر یابعض گناہوں مثلاً غیبت سے نماز مقبول ِ بار گاہ خدا نہیں ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی نمازشرعاًصحیح ہے ، فرمان الہٰی کی اطاعت ہے اور اسے ذمہ داری ادا ہوجاتی ہے اور مسلم ہے کہ فرمانِ الہٰی کی اطاعت اجر و جزا کے بغیر نہیں ہوگی ۔
لہٰذا عمل کی قبولیت در اصل عمل کا عالی مرتبہ ہوتا ہے ۔ زیر بحث مسئلے میں بھی ہم یہی بات کہتے ہیں کہ اگر انسانوں اور عوام کی خدمات ایمان کےس اتھ ہوں تو ان کا مدہوم عالی ہوگا لیکن ایسانہ ہوتو بھی بالکل بے معنی اور بغیر اجر کے نہیں ہوں گی ۔ جنت میں داخلے کے بارے میں بھی یہی جواب دیں گے کہ عمل کا اجر ضروری نہیں کہ جنت میں داخلے پر منحصر ہو۔( بحث کا نچور اور تفصیلی بحث مناسب ہے کہ اس مسئلے کی فقہی مباحث میں ہو) ۔

 


 

۱۔ یوسف ۔ ۹۰ اور بعض دیگر سورتیں ۔
2۔ بحار الانوار جلد ص ۳۷۷ چاپ کمپانی۔
3۔ بحار الانوار جلد ص ۳۷۷ چاپ کمپانی۔
۴۔سفینة البحار جلد ۲ ص۶۰۷۔
۲۔ ان کے اعمال کیوں کھوکھلے ہیں؟۴۔ کیا ایجادات و انکشافات کرنے والوں کے لئے بھی جزا ء ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma