چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
ہت دھرم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے کس طرح خدا کو بتوں کا شریک بناتے ہو؟

۱۔ لفظ” رحمن “ کیوں استعمال کیا گیا ہے ؟ مندرجہ بالا آیات اور ان کے بارے میں مذکورہ شان نزول نشاندہی کرتی ہیں کہ قریش کو لفظ”رحمن “کہ قریش کو لفظ ”رحمن“ سے خدا کی توصیف و تعریف پسند نہیں تھی کیونکہ ایسی کوئی چیز ان کے درمیان رائج نہ تھی لہٰذا وہ اس کا مذاق اراتے تھے حالانکہ مندرجہ بالا آیا ت میں اس کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ اس لفظ میں ایک خاص لطف پوشیدہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی صفت ِ رحمانیت اس کے لطف ِ عام کی طرف اشارہ ہے کہ جو دوست اور دشمن سب پر محیط ہے اور مومن اور کافر سب کے شامل ِ حال ہے جب کہ اس کے مقابلے میں صفت ِ رحیمیت خداکی صفتِ خا ص ہے اور صالح او رمون بندوں کے بارے میں ہے ۔
یعنی  تم کس طرح اس خدا پر ایمان لاتے ہو کہ ج ومنبع لطف و کرم ہے یہاں تک کہ اپنے دشمنوں کو بی اپنے لطف و رحمت سے نوازتا ہے ۔ یہ تمہاری انتہائی نادانی ہے ۔
۲۔ پیغمبر اکرم نے معجزات کا تقاضاکیوں پورا نہ کیا یہاں ہمیں پھر ان لوگون کی گفتگو کا سامنا کرنا پڑرہاہے کہ جو یہ خیال کرتے ہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوائے قرآن کے اور کوئی معجزہ رکھتے تھے ۔ یہ لوگ زیر نظر آیات اور اس قسم کی دیگر آیات سے مدد لیتے ہیں کیونکہ ان آیات کا ظہور یہ بتاتا ہے کہ نبی اکرم نے مختلف معجزات کی فرمائش کو ٹھکرادیا ۔ وہ لوگ پہاڑوں کو ان کی جگہ سے پیچھے ہٹا نے کا ، وہاں کی زمین میں شگاف کرکے چشمے اور نہریں جاری کرنے کا اور مردوں کے زندہ ہوکر گفتگو کرنے کا تقاضا کررہے تھے لیکن آپ نے ان کی درخواست رد کردی۔
لیکن  ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ معجزہ ان لوگوں کو کہ جو حقیقت طلب ہیں صرف حقیقت کاچہرہ دکھانے کے لئے ہے نہ یہ کہ پیغمبر ایک معجزہ گر بن جائے اور جو شخص جس عمل فرمائش کرے وہ اسے انجام دیتا جائے چاہے وہ اسے قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہ ہو۔
من پسند کے معجزات کی ایسی فرمائش صرف ایسے ہٹ دھرم اور کوتاہ فکر افراد کی طرف سے کی جاتی ہے کہ جو کسی حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور اتفاق کی بات ہے کہ اس امر کی نشانیاں مندر جہ بالا آیات مندرجہ بالا آیات میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں ۔ آخری زیر بحث آیت میں ہم نے دیکھا ہے کہ گفتگو ان کی طرف سے پیغمبر کا مذاق اڑانے کے سلسلے میں آئی ہے یعنی وہ لوگ حق کا چہرہ نہیں دیکھناچاہتے تھے بلکہ ایسی فرمائشوں سے ان کا مقصود پیغمبر اکرم کا تمسخر اڑانا تھا۔
علاوہ از یںان آیات کے بارے میں جو شان ہائے نزول ہم نے پڑھی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرم سے تقاضا کیا تھا کہ وہ گزشتہ بزرگوں میں سے کسی ایک کو زندہ کردیں تاکہ وہ ان سے پوچھیں کہ کیا آپ حق پر ہیں یاباطل پر حالانکہ اگر پیغمبر اس قسم کا معجزہ (مردوں کو زندہ کرنا) پیش کردیں تو پھر اس بات کے پوچھنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ پیغمبر حق پر ہیں یا باطل پر ۔ یہی با ت نشاندہی کرتی ہے کہ وہ متعصب ، ہٹ دھرم اور معاند افراد تھے اور ان کا مقصد حق کی جستجو نہ تھا۔ وہ ہمیشہ عجیب و غریب فرمائشیں کرتے رہتے تھے اور آخر کار وہ ایمان بھی نہیں لاتے تھے ۔
سورہ ٴبنی اسرائیل کی آیہ ۹۰ کے ذیل میں ہم انشاء اللہ دوبارہ اس مسئلے کی وضاحت کریں گے ۔
۳۔ ” قارعة“ کیا ہے ؟ ’قارعة“ ” قرع“ کے مادہ سے ہے جو کہ کھٹکھٹانے کے معنی میںہے ۔ اس بناء پر ” قارعة“ کامعنی ہے ” کھٹکھٹانے والی “ یہاںایسے امو ر کی طرف کی طرف اشارہ ہے جو انسان کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور اسے تنبیہ کرتے ہیں اور اگر بیدار ہونے کے لئے آمادہ ہو تو اسے بیدارکرتے ہیں ۔
در حقیقت ” قارعة“ کا ایک وسیع معنی ہے کہ جس میں ہر قسم کی انفرادی یا اجتماعی مصیبتوں ، مشکلات اور دردناک حوادث کا مفہوم شامل ہے ۔ اسی لئے بعض مفسرین اسے جنگوں ، خشک سالیوں ، قتل ہونے اور قید ہونے کے معنی میں سمجھتے ہیں کہ جب دوسرے اسے صرف ان جنگوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو صدر اسلام میں ” سریہ“ کے عنوان سے ہوئیں ۔ ”سریہ“ ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں پیغمبر اسلام خود شریک نہیں ہوئے بلکہ ان میں آپ نے اپنے اصھاب و انصار کو مامور فرمایا لیکن مسلم ہے کہ ” قارعة“ ان امور میںسے کسی ایک کے لئے مختص نہیں اور ا س کے مفہوم میں یہ تمام امور شامل ہیں ۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ زیر بحث آیات میں ہے کہ یہ تباہ کن حوادث خود انہیں پہنچتے تھے یا ان کے گھر کے آس پاس رونما ہوتے تھے یعنی اگر وہ خود ان بیدار کرنے والے اور تنبیہ کرنے والے حوادث میں مبتلا نہ ہوں تو بھی یہ ان کے اوس پڑوس یا ان کے نزدیک رونما ہوتے ہیں ۔ کیا یہ ان کی بیداری کے لئے کافی نہیں ۔

 

۳۳۔ اٴَفَمَنْ ھوقَائِمٌ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّہِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمُّوھُمْ اٴَمْ تُنَبِّئُونَہُ بِمَا لاَیَعْلَمُ فِی الْاٴَرْضِ اٴَمْ بِظَاہِرٍ مِنْ الْقَوْلِ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُھُمْ وَصُدُّوا عَنْ السَّبِیلِ وَمَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَمَا لَہُ مِنْ ھَادٍ ۔
۳۴۔ لَھُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ اٴَشَقُّ وَمَا لَھُمْ مِنْ اللهِ مِنْ وَاقٍ۔

ترجمہ

۳۳۔کیاوہ کہ جو سب کے سروں پر موجود ہے ( اور سب کانگران اور نگہبان ہے )اور سب کے اعمال دیکھتا ہے ( اس کی مانند ہے کہ جو ان میں سے کوئی صفت نہیں رکھتا) ۔انہوں نے خدا کے لئے شریک قرار دیے ہیں ۔ کہہ دو: ان کے نام لو، کیا اسے ایسی چیز کی خبردیتے ہوئے کہ روئے زمین میں جس کے وجود سے وہ بے خبر ہے یاظاہری اور کھوکھلی باتیں کرتے ہو( نہیں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے )بلکہ کافروں کے سامنے ان کے جھوٹ مزین کئے گئے ہیں ( اور اندرونی ناپاکی کی بناء پر ان کا خیال ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں ) اور وہ( خداکی )راہ سے روک دیئے گئے ہیں اور جسے خدا گمراہ کردے اس کے لئے کوئی راہنما نہیں ہوگا ۔
۳۴۔ ان کے لئے دنیا میں ( دردناک ) عذاب ہے اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے اور خدا کے مقابلے میں کوئی ان کا دفاع نہیں کرسکتا۔

 

ہت دھرم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے کس طرح خدا کو بتوں کا شریک بناتے ہو؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma