زندگی کے حساس دن

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
سوره ابراهیم آیت 4-7۱۔ ایام اللہ کی یاد آوری

زندگی کے حساس دن

گزشتہ آیات میں قرآن مجید اور اس کے حیات بخش اثرات کے متعلق گفتگو تھی ۔ زیر بحث پہلی آیت میں بھی ایک خاص پہلو سے اس موضوع کے بارے میں بات کی گئی ہے اور وہ ہے انبیاء اور آسمانی کتب کی زبان کا اس پہلی قوم کی زبان سے ہم آہنگ ہونا جس کی طرف وہ مبعوث ہوئے ۔
فرمایا گیاہے : ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں ( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ) ۔
کیونکہ پہلے پہل تو کسی پیغمبر کا تعلق اسی قوم سے پیدا ہوتا ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں ، انبیاء کے ذریعے پہلی وحی کی شعاع اسی پر پڑتی ہے اور ان کے اولین اصحاب و انصار اسی میں سے ہوتے ہیں لہٰذا پیغمبر کو انہی کی زبان میں گفتگو کرنا چاہئیے ” تاکہ وہ ان کے لئے حقائق کو واضح طور پر پیش کر سکے “(لِیُبَیِّنَ لَھُم)
اس جملے میں در حقیقت اس کے نکتے کی طرف بی اشارہ ہے کہ عام طور پر انبیاء کی دعوت ان کے پیروکاروں پر کسی انجانے اور غیر مانوس طریقے سے منعکس نہیں ہوتے تھی بلکہ واضح و روشن طور پر عام مروجہ زبان میں وہ تعلیم و تربیت کرتے تھے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: ان کے سانے منے دعوت ِ الہٰی کی وضاحت کے بعد ”خدا جس شخص کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے “ (فَیُضِلُّ اللهُ مَنْ یَشَاءُ وَیَھْدِی مَنْ یَشَاءُ ) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آخر کار کسی کا ہدایت یافتہ ہونا یاگمراہ ہونا انبیاء کاکام تو تبلیغ اور تبیین ہے ۔ بندوں کی حقیقی ہدایت و رہنمائی تو خدا ہی کے ہاتھ ہے ۔
اس بناء پر کہیں یہ تصور نہ ہو کہ اس کا مطلب جبر ، لازمی طورپر ہونا اور انسان کی آزادی کا سلب ہونا ہے ، بلافاصلہ مزید ارشاد فرمایا گیا ہے : وہ عزیز حکیم ہے (وَھُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیم) ۔
اپنی عزت و قدرت کی وجہ سے وہ ہر چیز پر قادر و توانا ہے او رکوئی شخص اس کے ارادے کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا ۔ لیکن اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق وہ کسی شخص کو بلا سبب ہدایت نہیں کرتا اور نہ کسی کو بلا وجہ گمراہ کرتا ہے بلکہ بندے اپنے ارادے کی انتہائی آزادی کے ساتھ ”سیر الیٰ اللہ “ کے لئے قدم اٹھاتے ہیں اور اس کے بعد ان کے دل پر نور ہدایت اور فیض ِ حق کی کرنیں پڑتی ہیں ۔ جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیہ ۶۹ میں ہے :
والذی جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا
جو لوگ ہماری راہ میں جہاد اور جدو جہد کرتے ہیں ہم یقینی طور پر انہیں اپنے راستوں کی طرف ہدایت کرتے ہیں ۔
اسی طرح جن لوگوں نے تعصب ، ہٹ دھرمی ، حق دشمنی ، شہوات میں غوطہ زنی اور ظلم میں آلودگی کے باعث ہدایت کے لئے اپنی قابلیت گنواد ی ہے وہ فیض ِ ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں اور ضلالت و گمراہی کی وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :
کذٰلک یضل اللہ من ھومسرف مرتاب
اسی طرح خدا ہر اسراد کرنے والے اور آلودہ ٴ شک شخص کو گمراہ کرتا ہے ۔ (مومن ۔ ۳۴)
یہ بھی فرمایا گیا ہے :
ومایضل بہ الاالفاسقین
اس کے ذریعہ خدا صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے (بقرہ۔ ۲۶) نیز یہ بھی ار شاد ہوتا ہے :
یضل اللہ الظالمین
خدا ستمگروں کو گمراہ کرتا ہے ۔ (ابراہیم ۔ ۲۷)
گویا ہدایت اور گمراہی کا سر چشمہ خود ہمارے ہاتھ میں ہے ۔
اگلی آیت میں اپنے ہم عصر طاغوتوں کے مقابلے میں انبیاء کے قیام کا ایک نمومہ ذکر کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ وہ ظلمتوں سے نکال کر وادیٴ نور میں لے جانے ے لئے بھیجے گئے تھے ۔ ارشاد ہوتا ہے :ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات ( مختلف معجزات) کے ساتھ بھبیجا اور ہم نے اسے حکم دیا کہ اپنی قوم کو ظلمات سے ونر کی طرف ہدایت کرو(وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسَی بِآیَاتِنَا اٴَنْ اٴَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ ) ۔۱
جیسا کہ ہم نے اس سورہ کی پہلی آیت میں پڑھا ہے پیغمبر اسلام کے پروگرام کا خلاصہ بھی لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف نکال لے جانا تھا ۔
یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سب خدا کے انبیاء و رسل ہیں بلکہ سب کے سب انسانوں کے معنوی اور روحانی راہنما ہیں ۔ کیا برائیاں ، گمراہیاں ، کجرویاں ، ظلم و ستم ، استثمار ، ذلتیں ، زبوں حالیاں ، فتنہ و فساد اور گناہ ظلمت و تاریکی کے علاوہ کچھ اور ہیں ۔ اور کیا ایمان و توحید ، تقویٰ و پاکیزگی ، آزادی و استقلال اور سربلندی و عزت نور و ضیا کے سوا کچھ اور ہے ۔ اس بنا ء پر تمام رہبروں کی دعوت کے درمیان بالکل یہی قدر مشترک اور قدر جامع ہے ۔
ا س کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک عظیم ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : تیری ذمہ داری ہے کہ تو اپنی قوم کو ” ایام اللہ “ یا د دلائے (وَذَکِّرْھُمْ بِاٴَیَّامِ اللهِ ) ۔
مسلم ہے کہ تمام دن ایام الٰہی ہیں جیسے تمام جگہیں اور مقامات خدا سے تعلق رکھتے ہیں اب اگر کسی خاص مقام کو ” بیت اللہ “ سے موسوم کیا جائے تو یہ اس کی خصوصیت کی دلیل ہے ۔ اسی طرح مسلم ہے کہ ”ایام اللہ “ کا عنواب مخصوص دنوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو بہت زیادہ امتیاز و درخشندگی رکھتے ہیں ۔
اسی بناء پر مفسرین نے اس کی تفسیرمیں مختلف احتمالات پیش کئے ہیں ۔
بعض نے کہا ہے کہ یہ گزشتہ انبیاء اور ان کی سچی اور اچھی امتوں کی کامیابی کے دنوں کی طرف اشارہ ہے اور اسی طرح وہ ایام بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں کہ جن میں انہیں ان کی اہلیت کی بناء پر انواع و قسام کی نعمتوںن سے نوازا گیا ۔
بعض نے کہا کہ یہ ان دنوں کی طرف اشارہ ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے سر کش قوموں کو عذاب زنجیر میں جکڑ ا اور طاغوت و سر کش افراد کو ایک ہی فرمان سے تباہ و بر باد کردیا ۔
بعض نے ان دونوں حصوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔
لیکن اصولی طور پر اس گویا ، عمدہ اور رسا تعبیر کو محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ تمام دن ” ایام اللہ “ ہیں کہ جو نوعِ بشر کی زندگی کی تاریخ میں حامل ِ عظمت ہیں ۔ ہر وہ دن کہ جس میں کوئی فرمان ِ الہٰی اس طرح درخشندہ ہوا کہ باقی امور کو اپنے تحت الشعاع لے آیا وہ ایام اللہ میں سے ہے ۔
جس روز انسانوں کی زندگی میں سے نیا باب کھلا ، انہیں درس ِ عبرت دیا گیا ، ان مین کسی پیغمبر نے ظہور یا قیام فرمایا یا جس دن کوئی منکر ، طاغوت اور فرعون ظلمت کے گڑھے میں پھنکا گیا ۔ خلاصہ یہ کہ وہ دن کہ جس میں حق و عدالت بر پا ہو ئی اور ظلم و بدعت خاموش ہو ئی وہ ایام اللہ میں سے ہے جیساکہ ہم دیکھیں گے آئمہ معصومین علیہم السلام کی اس تفسیر کے ذیل میں منقول روایات میں بھی حساس دنوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے : اس گفتگو میں اور تمام ایام اللہ مین ہر صابر و با استقامت اور شکر گزار انسان کے لئے نشانیاں ہیں (إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ ) ۔
”صبار“ اور ”شکور“ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں ان میں سے ایک صبر و استقامت زیاد ہ ہونے اور دوسرا نعمت و احسان پر شکر گزاری زیادہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ صاحب ِ ایمان افراد نہ تو سختیوں اور مشکلوں کے دنوں میں حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں اور اپنے آپ کو حوالہ ٴ حوادث کردیتے ہیں اور نہ ہی کامیابی اور نعمت کے دنوں میں غرور و غفلت میں گرفتار ہوتے ہیں اور ” ایام اللہ “کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان دونوں کا تذکرہ گویا اسی مقصد کی نشاندہی کررہاہے ۔
بعد والی آیت میں تاریخ بنی اسرائیل میں ایام اللہ اور درخشاں و پر باردلوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کا ذکر مسلمانوں کے لئے بھی تذکرہ تھا ۔ ارشاد ہوتا ہے : اس وقت کو یاد کرو کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اس نعمت ِخدا کا تذکرہ کرو کہ جب اس نے تمہیں آل ِ فرعون سے نجات بخشی ( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ إِذْ اٴَنجَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ ) ۔
وہی فرعونی کہ جنہوں نے تم پر بد ترین عذاب مسلط کررکھا تھا ، تمہارے بیٹوں کو ذبح کردیتے تھے اور تمہاری عورتوں کو خدمت اور کنیزی کے لئے زندہ رکھتے تھے (یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ اٴَبْنَائَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَائَکُمْ) ۔
اور یہ تمہارے پر وردگا رکی طر ف سے تمہاری بہت بڑی آزمائش تھی ( وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ) ۔
اس دن سے زیادہ با بر کت کونسا دن ہو گا کہ جس دن تمہارے سروں سے خود غرض ، سنگدل اورا ستعمارگر لوگوں کو دور کیا گیا ۔ وہی لوگ کہ جو تمہارے ساتھ ایک بہت بڑا ستم روا رکھے ہوئے تھے ۔ اس ظلم سے بڑھ کر کیا ہوسکتاتھا کہ وہ تمہارے بیٹوں کے سر جانوروں کی طرح کاٹ دیتے تھے ( توجہ رہے کہ قرآن نے ذبح کہا ہے قتل نہیں ) اور اسے بڑھ کر یہ کہ تمہاری عزت و ناموس بے شرم دشمن کے چنگل میں کنیزوں کی طرح گرفتار تھی ۔
نہ صر ف بنی اسرائیل کے لئے بلکہ اقوام و ملل کے لئے آزادی و استقلا ل کے حصول اور طاغوت کی دست برد سے نجات کا دن ایام اللہ میں سے ہے کہ جسے انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے ۔ ایسی یاد کہ جس کے سبب وہ گزشتہ حالت کی طرف لوٹنے سے محفوظ ہیں ۔
”یسومونکم “ سوم ( بروزن ”صوم “) کے مادہ سے ہے ۔ در اصل یہ کسی چیز کے پیچھے جانے اور اس کی جستجو کے معنی میں ہے نیز یہ لفظ کسی پرکسی کام کو زبر دستی ٹھونسنے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ 2
”یسومونکم سوء العذاب “ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ تم پر بد ترین سختیاں اور عذاب مسلط کرتے تھے ۔ کیا یہ کم مصیبت ہے کہ ایک گروہ کی فعال قوت کو فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے اور اس کی عورتوں کو کسی سرپرست کے بغیر چند ظالموں کے چنگل میں کنیزوں کی طرح باقی رہنے دیا جائے ۔
ضمناً ”یسومون “ کا فعل مضارع کی صورت میں ہونا اس طرف اشارہ ہے کہ یہ کام مدتوں جاری رہا ۔3
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بیٹوں کا سر کاٹنے اور عورتوں کی کنیزی کے ذکر کے بعد ان کا واوٴ کے ذریعے ” سوء العذاب “ پر عطف کیا گیا ہے حالانکہ یہ خود ”سوء العذاب “ کا مصداق ہیں ۔ ایسا ان دونوں عذابوں کی اہمیت کی بناء پر ہوا ہے ۔ نیز یہ نشاندہی کرتا ہے کہ فرعون کی جابر اور ستم گر قوم بنی اسرائیل پر اور مظالم بھی روارکھتی تھی لیکن ان میںسے یہدو ظلم بہت شدید اور نہایت سخت تھے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : یہ بات بھی یاد رکھو کہ تمہارے پر وردگار نے اعلان کیا کہ اگرمیری نعمتوں کا شکر بجا لاوٴ تو یقینا میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کروں گا اور اگر کفران کرو تو میرا عذاب اور سزا شدیدہے (وَإِذْ تَاٴَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاٴَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ) ۔4
ہوسکتا ہے کہ یہ آیت بنی اسرائیل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کا تسلسل ہو ۔ آپ (علیه السلام) نے انہیں اس نجات ، کامیابی اور نعمات ِ فراواں پر شکر گزاری کی دعوت دی اور ان سے نعمت میں اضافے کا وعدہ کیا اور کفران کی صورت میں عذاب کی تہدید کی اور یہ ممکن ہے کہ یہ ایک مستقل جملہ ہو او ر مسلمانوں سے خطاب ہو لیکن بہر حال نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر بن اسرائیل کو خطاب ہو پھربھی قرآن مجید میں ہمارے لئے ایک اصلاحی درس کے طور پر آیا ہے ۔
یہ امر جاذب نظر ہے کہ شکر کے بارے میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے ” لا زید نکم “ ( یقینا میں اپنی نعمت تم پر زیادہ کر دوں گا ) ۔
جب کہ کفران نعمت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ تمہیں عذاب کروں گا بلکہ ارشاد ہوتا ہے :” میرا عذاب شدید ہے “ تعبیر کا یہ فر ق پر وردگار ک اانتہائی لطف و کرم ہے ۔

 


۱۔حضرت موسی بن عمران علیہ السلام سے ظاہر ہونے والے معجزات کی طرف زیر نظر آیت میں لفظ” آیات“کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۱۰۱کے مطابق وہ تو اہم معجزات تھے جن کی تفصیل اس آیت کے ضمن میں آئے گی ( انشاء اللہ ) ۔
2۔مفردات راغب ، تفسیر المنا ر( جلد ۱ ص ۳۰۸ اور تفسیر ابو الفتوح رازی کی جلد ۷ ص ۷ کی طرف رجوع کریں ۔
3۔ توجہ رہے کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اس آیت کی نظیر سورہ بقرہ کی آیت ۴۹ میں بھی ہے ۔
4۔تاٴذن باب تفعل سے ہے اور تاکید سے اعلان کرنے کے معنی میں ہے کیونکہ اس سے افعال کا مادہ ” ایذان “ اعلان کے معنی میں ہے اور جب تفعل کے معنی میں آئے تو اس سے اضافہ اور تاکید کا استفادہ ہوتا ہے ۔
سوره ابراهیم آیت 4-7۱۔ ایام اللہ کی یاد آوری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma