۵۔ شیطان کو شریک قرا ردینے سے مراد : شیطان کو شریک قرار دینے سے مراد شرکِ اطاعت ہے نہ کہ شرک ِعبادت۔
۶۔ ”ان الظالمین لھم عذاب الیم “کس کا جملہ ہے : یہ جملہ شیطان کی باتوں کا آخری حصہ ہے یا پر وردگار کی طرف سے مستقل جملہ ہے ، اس سلسلے میںمفسرین میں اختلاف ہے ۔ لیکن زیادہ تر یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے مستقل جملہ ہے کہ جو شیطان کی اپنے پیروکاروں سےگفتگو کے بعد ایک اصلاحی و تربیتی درس کے طور پر آیا ہے ۔
زیر بحث آخری آیت میں سر کش و بے ایمان جابر افراد کی حالت اور ان کا دردناک انجام بیان کرنے کے بعد مومنین کی حالت او ر ان کا انجام بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اور جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دئے وہ باغات ِبہشت میں داخل ہو ںگے ، وہ باغات کے جن کے درختوں کے نیچے پانی نہریں جاری ہیں (وَاٴُدْخِلَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَا الْاٴَنْھَارُ ) ۔ وہ اپنے پر وردگار کے اذن سے ہمیشہ ان باغات میںر ہیں گے (خَالِدِینَ فِیھَا بِإِذْنِ رَبِّھِمْ تَحِیَّتُھُمْ فِیہَا سَلَامٌ) ۔
”تحیت “ در اصل ”حیات “ کے مادہ سے لیا گیا ہے بعد از اں یہ لفظ افراد کی سلامتی اور حیات کی دعا کے لئے استعمال ہونے لگا ۔ہر قسم کی سلام و دعا کہ جو ابتدائے ملاقات میں کہی جاتی ہے ، اس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ زیر بحث آیت میں ”تحیت “ وہ خوش آمدید او ردرود و سلام جو اللہ تعالیٰ نے صاحب ایمان پر بھیجا ہے اور انہیں اپنی اپنی نعمتِ سلامتی کا ہم آغوش قرار دیتا ہے ۔
سلامتی ہر قسم کی ناراحتی اور درد و غم سے سلامتی
سلامتی ہر قسم کی جنگ و نزع سے سلامتی
اس مفہوم کی بناء پر ” تحیتھم“ کی اضافت کی طرف ہے اور اس کا فاعل خدا تعالیٰ ہے ۔
بعض نے کہا ہے کہ یہاں مراد وہ تحیہ و سلام ہے جومومنین ایک دوسرے سے کہیں گے یافرشتے ان سے کہیں گے ۔
بہر حال لفظ ” سلام “ جو بطورمطلق آیاہے ، اس کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ جو ہر قسم کی سلامتی پر محیط ہے اور ہر قسم کی ناراحتی اور تکلیف سے سلامتی پرمشتمل ہے چاہے روحانی ہو یاجسمانی ۔3