بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
ان کے شرکاء (یعنی بتوں) نے ان کی اولاد کے قتل کو بت پرستوں کے بیہودہ احکام

قرآن اس آیت میں بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: جس طرح خدا اور بتوں کے بارے میں ان کی تقسیم ان کی نظروں میں جچتی تھی اور اس برے، بیہودہ اور مضحکہ خیز عمل کو وہ پسندیدہ خیال کرتے تھے، اسی طرح ان کے شرکاء نے اولاد کے قتل کو بہت سے بت پرستوں کی نگاہ میں پسندیدہ بنا رکھا تھا یہان تک کہ وہ اپنے بچوں کو قتل کرنا ایک قسم کا افتخار یا عبادت شمار کرت تھے(وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ اٴَوْلاَدِہِمْ شُرَکَاؤُہُمْ)۔
یہاں ”شرکاء “سے مراد بت ہیں کہ جن کی خاطر وہ بعض اوقات اپنے بیٹوں کو بھی قربان کردیتے تھے یا نذرکرتے تھے کہ اگر انھیں بیٹا نصیب ہوگا تو وہ اسے بت کے لئے قربان کریں گے ۔ جیسا کہ قدیم بت پرستوں کی تاریخ میں بیان کیا گیا ہے اور اس بنا پر بتوں کی طرف ”زینت دینے“ کی نسبت اس سبب سے ہے کیوں کہ بتوں کے ساتھ تعلق اور عشق انھیں اس مجرمانہ عمل پر آمادہ کرتا تھا۔ اس تفسیر کی رو سے مذکورہ بالا آیت میں قتل کرنے کا بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا یا فقر وفاقہ کے خوف سے بیٹوں کو قتل کرنے کے مسئلہ کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔
یہ احتمال بھی موجود ہے کہ بتوں کے وسیلہ سے اس جرم کی تزئین سے مراد یہ ہو کہ بت کدوں کے خدام اور متولی لوگوں کو یہ کام کرنے کا شوق دلاتے تھے اور خود کو بتوں کی زبان سمجھتے تھے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب اہم سفروں اور دوسروے کاموں کے انجام دینے کے لئے ”ھبل“ (ان کا بڑا بت تھا) سے اجازت لیتے تھے ، ان کے اجازت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ تیر کی وہ لکڑیاں جو ایک مخصوص تھیلے میں ”ھبل“ کے پہلو میں ہوا کرتی تھیں او ان میں سے بعض کے اوپر ”افعل“ (یہ کام انجام دو) اور بعض کے اوپر ”لاتفعل“ (یہ کام انجام نہ دو) لکھا ہوا ہوتا تھا، وہ تھیلے کو ہلاتے تھے اور ان میں سے ایک تیر کی لکڑی نکال لیتے تھے اور جو کچھ اس کے اوپر لکھا ہوا ہوتا تھا، اسے وہ ”ھبل“ کا پیغام سمجھتے تھے اور یہ چیزاس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اس طریقے سے بتوں کا منشاء معلوم کرنا چاہتے تھے اور کچھ بعید نہیں کہ بت کے لئے قربانی کا مسئلہ بھی خدام کے ذریعہ بت کے ایک پیغام کے طور پر متعارف ہوا ہو۔
یہ احتمال بھی ہے کہ بیٹیوں کا زندہ درگور کرنا ان لوگوں کے درمیان کہ جو تواریخ کے بیان کے مطابق بدنامی اور ننگ عار کا داغ مٹانے کے نام پر قبیلہ بنی تمیم کے درمیان رائج تھا، وہ بت کے پیغام کے طور پر ہی متعارف ہوا ہے ، کیوں کہ تاریخ میں ہے کہ نعمان بن منذر نے عرب کی ایک جماعت پر حملہ کیا او ر ان کی عورتوں کو اسیر کرلیا اور ان کے درمیان ”قیس بن عاصم“ کی بیٹی بھی تھی، اس کے بعد ان کے درمیان صلح ہوگئی اور ہر عورت اپنے قبیلہ کی طرف پلٹ آئی سوائے قیس کی بیٹی کے کہ ا س نے اس بات کو ترجیح دی کہ وہ دشمن کی قوم کے درمیان رہ جائے اور شاید ان کے کسی جوان سے شادی کرلے، یہ مطلب قیس پر گراں گزرا اور اس نے بتوں کے نام کی قسم کھائی کہ جب میری دوسری لڑکی پیدا ہوگی تو میں اسے زندہ درگور کردوں گا،کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ عمل بطور سنت ان کے درمیان رائج ہوگیا کہ انھوں ناموس کے دفاع کے نام پر ایک بہت بڑے جرم یعنی بے گناہ اولاد کو قت کرنے کا ارتکاب کرنا شروع کردیا۔(۱)
اس بنا پر ممکن ہے کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا بھی زیر نظر آیت میں داخل ہو ۔
ایک اور احتمال بھی زیر بحث آیت کی تفسیر میں نظر آتا ہے، اگرچہ مفسرین نے اسے ذکر نہیں کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب بتوں کے لئے اس قسم کی اہمیت کے قائل تھے کہ اپنے نفیس اور عمدہ اموال تو بتوں اور ان کے طاقتور اور مالدار متولیوں اور خدام پر خرچ کردیا کرتے تھے، اور خود فقیر اور تنگ دست ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ بعض اوقات بھوک اور فقر وفاقہ کی وجہ سے اپنے بچوں کو ذبح کردیتے تھے، بتوں کے ساتھ ان کے اس عشق نے ایسے برے عمل ان کی نظروں میں مزین کردیا تھا ۔
لیکن پہلی تفسیر یعنی بتوں کے لئے اولاد کو قربان کرنا آیت کے متن کے ساتھ سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
اس بعد قرآن کہتا ہے: اس قسم کے قبیح اور بداعمال کا نتیجہ یہ تھا کہ بتوں کے خدام ، مشرکین کو ہلاکت میں ڈال دیں، اور دین وآئین حق کو ان پر مشتبہ کردے اور انھیں ایک پاک وپاکیزہ دین تک پہنچنے سے محروم کردے( لِیُرْدُوہُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْہِمْ دِینَہُمْ )۔
قرآن کہتا ہے :ان تمام باتوں کے باوجود اگر خدا چاہتا تو جبرا انھیں اس کام سے روک دیتا، مگر جبر کرنا سنت الٰہی کے برخلاف ہے، خدا چاہتا ہے کہ بندے آزاد رہیں، تاکہ تربیت اور تکامل وارتقا کی راہ ہموار ہو، کیوں کہ جبر میں نہ تربیت ہے نہ تکامل وارتقا(وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا فَعَلُوہُ)
اور آخر میں فرماتا ہے: اب جب کہ یہ حال ہے کہ وہ اس قسم کے کے بیہودہ ، پست اور شرم ناک اعمال میں غوطہ زن ہیں یہاں تک کہ اس کی قباحت کو بھی نہیں سمجھتے اور سب سے بد تر یہ کہ وہ کبھی ایسے خدا کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں لہٰذا تم انھیں اور ان کی تہمتوں کو چھوڑ دو اور آمادہ ومستعد دلوں کی تربیت کرو( فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُون)۔
 

۱۳۸ وَقَالُوا ہَذِہِ اٴَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لاَیَطْعَمُہَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِہِمْ لاَیَطْعَمُہَا إِلاَّ مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِہِمْ وَاٴَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُہُورُہَا وَاٴَنْعَامٌ لاَیَذْکُرُونَ اسْمَ اللهِ عَلَیْہَا افْتِرَاءً عَلَیْہِ سَیَجْزِیہِمْ بِمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ۔
۱۳۹ وَقَالُوا مَا فِی بُطُونِ ہَذِہِ الْاٴَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُکُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلیٰ اٴَزْوَاجِنَا وَإِنْ یَکُنْ مَیْتَةً فَہُمْ فِیہِ شُرَکَاءُ سَیَجْزِیہِمْ وَصْفَہُمْ إِنَّہُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ۔
ترجمہ
۱۳۸۔ اور انھوں نے کہا کہ چوپایوں اور زراعت کا یہ حصہ (جو بتوں کے ساتھ مخصوص ہے یہ سب کے لئے) ممنوع ہے اور سوائے ان لوگوں کے کہ جنھیں ہم چاہیں۔ان کے گمان کے مطابق۔ اس سے کسی کو نہیں کھانا چاہئے ۔اور(وہ یہ کہتے تھے کہ یہ) ایسے چوپائے ہیں کہ جن پر سوار ہونا حرام قرار دیا گیا ہے اور وہ چوپائے کہ جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا پر جھوٹ بولتے تھے (اور یہ کہتے تھے کہ یہ احکام خدا کی طرف سے ہیں ) عنقریب ان کے افتراء انھیں دے گا۔
۱۳۹۔ اور انھوں نے کہا کہ جو کچھ ان حیوانات کے شکم میں (جنین اور بچہ میں سے) موجود ہے وہ تو ہمارے مردوں کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ ہماری بیویوں پر حرام ہے لیکن اگر وہ مردہ ہوں (یعنی مردہ پیدا ہوں ) تو پھر سب اس میں شریک ہیں اور عنقریب (خدا) اس توصیف (اور جھوٹے احکام) کی سزا انھیں دے گا، وہ حکیم ودانا ہے۔


۱۔ بعض خیال کرتے ہیں کہ لفظ اولاد زیر نظر آیت میں اس تفسیر کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ لفظ اولاد ایک وسیع مععنی رکھتی ہے جو بیٹا اور بیٹی دونوں پر بولا جاتا ہے، جیسا کہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۲۳ میں ہے: <وَالْوَالِدَاتُ یُرضِعْنَ اَولَادَھُنَّ حَولَینِ کَامِلَینِ(مائیں اپنی اولا کو مکمل دو سال دودھ پلائیں گی)۔
ان کے شرکاء (یعنی بتوں) نے ان کی اولاد کے قتل کو بت پرستوں کے بیہودہ احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma