قرآن مجید نے اس مقام پر ان ہٹ دھرم اور خود خواہ لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اس نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ وہ انھیں کہیں کہ زمین پر چلیں ،پھریں اورجولوگ حقائق کو جھٹلاتے تھے ان کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، شاید وہ بیدار ہوجائیں
( قُلْ سِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِین) ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ گذشتہ لوگوں اور ان قوموں کے آثار کودیکھنا کہ جنھوں نے حقائق کو ٹھکرانے کی وجہ سے فنا اور نابودی کا راستہ اختیار کرلیا تھا، تاریخ کی کتابوں میں ان کے حالات کے پڑھنے سے کہیں بڑھ کر پر اثر ہیں کیونکہ یہ آثار حقیقت کو محسوس اور قابل لمس بناتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ لفظ ”انظروا“(دیکھو) استعمال کیا گیا ہے نہ کہ ”تفکروا“(غوروفکر) ۔
ضمنا لفظ”ثم“ کا ذکر جو عام طور عطف با فاصلہ زمانی کے لئے آتا ہے ممکن ہے اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہو کر اپنی سیر اور فیصلہ میں جلدی نہ کرے بلکہ جب گذرے ہوئے لوگوں کے آثار کا مشاہدہ کرے تو حوصلہ اور وقت کے ساتھ غور وفکر کرے پھر اس سے نتیجہ اخذ کرکے ان کے کام کا انجام آنکھوں سے دیکھے ۔
زمین میں سیر وسیاحت کرنے اور افکار کو بیدار کرنے میں اس کی غیر معمولی تاثیر کے بارے میں ہم جلد سوم ،آل عمران کی آیت ۱۳۷کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ بحث کرچکے ہیں ۔
۱۲قُلْ لِمَنْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ قُلْ لِلَّہِ کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیہِ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ فَھُمْ لاَیُؤْمِنُونَ۔
۱۳ وَلَہُ مَا سَکَنَ فِی اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ۔
ترجمہ
۱۲۔کہہ دو کہ وہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ، کہہ دو کہ وہ سب خد کی ہیں جس نے رحمت (اور بخشش) کو اپنے اوپر ضروری قرار دے لیا ہے(اور اسی دلیل سے ) تم سب کو قطعی طور پر قیامت کے دن کہ جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے جمع کرے گا صرف وہی لوگ ایمان نہیں لائیں گے جنھوں نے اپنا سرمایہ حیات ضائع کردیاہے اور خسارہ کا شکار ہے ۔
۱۳۔اور جو کچھ رات اور دن میں ہے وہ بھی سب اسی کے لئے ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔