مشرکین کی تکبر ،لاپرواہی اور ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ کرتے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
تمام چیزوں کا خالق وہی ہے سرکشی کرنے والوں کو سرگذشت

ہم بیان کرچکے ہیں کہ سورہ انعام میں زیادہ تر روئے سخن مشرکین کی طرف ہے اور قرآن مجید ان کی بیداری اور آگاہی کے لئے طرح طرح کے وسائل وذرائع سے کام لیتا ہے، یہ آیت اور بہت سی دوسری آیات جو اس کے بعد آئیں گی اسی موضوع سے متعلق ہے ۔
اس آیت میں حق اور خدائی نشانیوں کے مقابلہ میں مشرکین کی تکبر ،لاپرواہی اور ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: وہ اےسے ہٹ دھرم اور لاپرواہ ہے کہ وہ پروردگار کی نشانیوں میں سے جس نشانی کو بھی دیکھتے ہیں فورا اس سے منہ پھیر لیتے ہیں( وَمَا تَاٴْتِیہِمْ مِنْ آیَةٍ مِنْ آیَاتِ رَبِّھِمْ إِلاَّ کَانُوا عَنْھَا مُعْرِضِینَ ) (۱)
یعنی ہدایت اور راہ یابی کی سب سے پہلی شرط ہی جو کہ تحقیق وجستجو ہے ان میں موجود نہیں ہے، نہ صرف یہ کہ حق کو حاصل کرنے کا جوش وولولہ اور عشق ان میں موجود نہیں ہے، کہ وہ ان پیاسوں کی طرح جو پانی کے پیچھے دوڑتے ہیں، حق کی تلاش میں ہوں، بلکہ اگر صاف وشفاف پانی کا چشمہ بھی ان کے گھر کے سامنے جوش مارنے لگے ، تو وہ اس کی کی طرف سے منہ پھیر لیں اور بالکل اس کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے، خواہ یہ آیات ان کے پروردگار کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو ”ربہم“اور ان کی تربیت وتکامل کے لئے ہی کیوں نہ نازل ہوئی ہو ۔
یہ صورت زمانہ جاہلیت اور مشرکین عرب میں ہی منحصر نہیں، اب بھی ہم ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جو صرف ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں لیکن وہ خدا اورمذہب کے بارے میں تحقیق وجستجو کرنے کی ایک لمحہ کے لئے بھی زحمت اٹھا نے کے لئے تیار نہیں ہیں، یہ تو معمولی بات اگر اتفاق سے کوئی کتاب یا رتحریر اس سلسلے کی ان کے ہاتھ میں آجائے تو اس کی طرف نگاہ تک نہیں کرتے، اور اگر کوئی شخص اس کے بارے میں ان سے گفتگو کرے تو وہ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے یہ ہٹ دھرم جاہل اور بے خبر لوگ ہیں جو ممکن ہے بعض اوقات عالم کے لباس میں ملبوس ہیں ۔
اس کے بعد ان کے اس عمل کے نتیجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب حق ان کے پاس آیا تو انھوں نے اس کی تکذیب کی حالانکہ اگر وہ پرور دگار کی آیات اور نشانیوں میں غور وفکر کرتے تو حق کو اچھی طرح دیکھ لیتے اور پہچان لیتے اور اس کو یاد کرلیتے ( فَقَدْ کَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَائَھُمْ )اور اس تکذیب اور جھٹلانے کا نتیجہ وہ بہت جلدی پالیں گے اوراس کی خبر کے جس کا انھوں نے مذاق اڑاتھا ان تک پہنچ جائے گی

(فَسَوْفَ یَاٴْتِیھِمْ اٴَنْبَاءُ مَا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُون) ۔
اوپر والی آیات میں درحقیقت کفر کے تین مراحل کی طرف اشارہ ہوا ہے جس میں مرحلہ با مرحلہ شدت پیدا ہوتی جاتی ہے ۔
پہلا مرحلہ اعراض وروگردانی کا ہے، اس کے بعد تکذیب اور جھٹلانے کا مرحلہ ہے اور بعد میں حقائق اور آیات خدا کے استھزاء تمسخر اور مذاق اڑا نے کا مرحلہ ہے ۔
یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کفر کی راہ میں کسی ایک مرحلہ پر رکتا نہیں ہے، بلکہ جس قدر وہ آگے بڑھتا جاتا ہے اسی قدر اس کی شدت انکار، عداوت، حق سے دشمنی اور خدا سے بےگانگی میں زیادتی ہوتی جاتی ہے ۔
آیت کے آخر میں جو تھدید کی گئی اس سے منظور یہ ہے کہ آئندہ چل کر یا جلدی یا بدیر بے ایمانی کا برا انجام دنیا وہ آخرت میں ان کا دامن پکڑے گا ۔ بعد کی آیات بھی اس تفسیر کی گواہ اور شاہد ہیں ۔
۶ اٴَلَمْ یَرَوْا کَمْ اٴَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِھِمْ مِنْ قَرْنٍ مَکَّنَّاھُمْ فِی الْاٴَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَکُمْ وَاٴَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَیْھِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْاٴَنْھَارَ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھِمْ فَاٴَھْلَکْنَاھُمْ بِذُنُوبِھِمْ وَاٴَنشَاٴْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ قَرْنًا آخَرِینَ-
ترجمہ
۶۔کیا انھوں نے دیکھا نہیں ہے کہ ہم نے کتنی گذشتہ اقوام کو ہلاک کیا ہے وہ قومیں کہ (جو تم سے کیں زیادہ طاقتور تھیں اور )جنھیں ہم نے ایسی توانائیاں عطا کی تھیں جو تمھیں ہیں دی ہیں ، ہم نے ان کی طرف پے در پے بارشیں بھیجیں اور ان کی (آبادیوں) کے نیچے نہریں جاری تھیں(لیکن جب انھوں نے سرکشی اور طغیانی کی تو ) ہم نے ان کے گنا ہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا ، اور ان کے بعد ہم دوسری قوم کو وجود میں لے آئے ۔

 


۱۔یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ لفظ”آیة “ نکرہ سیاق نفی ہے، لہٰذا عمومیت کا فائدہ دے گایعنی وہ کسی بھی آیت اور کسی بھی نشانی کے مقابلے میں نہیں ٹھہرتے اور اس کامطالعہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔
 

 

تمام چیزوں کا خالق وہی ہے سرکشی کرنے والوں کو سرگذشت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma