قابل توجہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
خدائی امداداس دن کہ جس میں ان سب کو جمع ومحشور کرے گا

۱۔ ہم بارہا بیان کرچکے ہیں کہ خدائی ”ہدایت“ اور ”ضلالت“ سے مراد ایسے اشخاص کے لئے کہ جنھوں نے حق قبول کرنے کے لئے اپنے اعمال وکردار سے آمادگی یا عدم آمادگی کو ثابت کردیا ہے ، ہدایت کی بنیادیں فراہم کرنا یا فراہم شدہ ہدایت کی بنیادوں کو برطرف کرنا ہے۔
وہ لوگ کہ جو راہ حق پر رواں دواں ہین اور ایمان کے اور ایمان کے آب زلال کے متلاشی اور پیاسے ہیں، خدا ان کے راستوں میں ایسے ضیا بخش چراغ روشن کردیتا ، تاکہ وہ اس آب حیات کو حاصل کرنے کے لئے تاریکیوں میں گم نہ ہوجائےں لیکن وہ لوگ کہ جنھوں نے ان حقائق ک بارے میں اپنی بے اعتنائی ثابت کردی ہے وہ اس خدائی امداد سے محروم اور اپنی راہ میں انبوہ مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں اور ان سے توفیق ہدایت سلب ہوجاتی ہے۔
۲۔یہاں”صدر“ (سینہ) سے مراد روح اور فکر ہے اور یہ کنایہ بہت سے مواقع پر استعمال ہوتا ہے ۔نیز ”یشرح“ (کشادہ کرنا) سے مراد وہی وسعت روح، بلندیٴ فکر اور انسان کی عقل کے افق کا پھیلاؤ ہے ۔ کیوںکہ حق کو قبول کرنے کے لئے بہت سے ذاتی منافع چھوڑنے پڑتے ہیں کہ جس کے لئے وسعت روح رکھنے والے اور بلند افکار افراد کے سوا اور کوئی آمادہ نہیں ہوگا۔
۳۔ ”حرج“ (بروزن حرم) حد سے زیادہ تنگی اور شدید محدویت کے معنی میں ہے ۔ یہ ہٹ دھرم اور بے ایمان افرا د کا حال ہے ، کہ جن کی فکر بہت کوتاہ اور ان کی روح حد سے زیادہ چھوٹی اور ناتواں ہے اور جو معمولی سی گنجائش بھی زندگی میں نہیں رکھتے۔۔
۴۔ قرآن کا ایک علمی معجزہ: اس قسم کے افراد کو ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ کہ جو یہ چاہتا ہے کہ آسمان پر چڑھ جائے اس لحاظ سے ہے کہ آسمان کی طرف صعود کرنا (چڑھنا) حد سے زیادہ مشکل کام ہے اور ان کے لئے حق کو قبول کرنا بھی اسی طرح ہے۔
جیسا کہ ہم روزمرہ کی گفتگو میں کہتے ہیں کہ یہ کام فلاں شخص کے لئے اتنا مشکل ہے کہ گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ میں آسمان کی طرف چڑھ جاؤں، یا جیسا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے بجائے آسمان پر چڑھ جاؤ تو زیادہ آسان ہے ۔
البتہ اس زمانے میں آسمان کی طرف پرواز کرنا انسان کے لئے ایک تصور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا، لیکن آج بھی جب کہ فضا میں سیر کرنا ایک عملی شکل اختیار کرچکا ہے پھر بھی وہ ایک طاقت فرسا اور مشکل کاموں میں سے ہے اور فضا نوردوں کو ہمیشہ شدید مشکلات کا سامنہ رہتا ہے۔
لیکن اس آیت کے لئے ایک لطیف تر معنی بھی نظر میں آتا ہے جو گذشتہ بحث کی تکمیل کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کرہٴ زمین کے اطراف کی ہوا اس زمین کے قرب جوار میں تو بالکل نتھری ہوئی اور انسانی تنفس کے لئے آمادہ ہے، لیکن ہم جتنا اوپر کی طرف چڑھتے چلے جائیں ہوا اتنی ہی زیادہ رقیق اور کم ہوجاتی ہے اور اس کی آکسیجن کی مقدار کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے، اس حد تک کہ اگر ہم( آکسیجن کے ماسک کے بغیر) زمین کی سطح سے چند کلو میٹر اوپر کی طرف چلے جائیں تو ہمارے لئے سانس لینا ہر لحظہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا اور اگر ہم برابر اوپر کی طرف بڑھتے رہیں تو تنگیٴ نفس اور آکسیجن کی کمی ہماری بے ہوشی کا سبب بن جائے گی ، اس دن جب یہ واقعیت علمی ثابت نہیں ہوئی تھی اس تشبیہ کا بیان کرنا حقیقت میں قرآن کے علمی معجزات میں شمار ہوگا۔
۵۔ شرح صدر کیا ہے آیت میں شرح صدر(سینہ کی کشادگی) ایک عظیم نعمت اور ضیق صدر(سینہ کی تنگی) ایک خدائی سزا شمار کی گئی ہے ۔ جیسا کہ خدا وند تعالی اپنے پیغمبر سے ایک عظیم نعمت کابیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
”اٴَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ“
”کیا ہم نے تیرے سینہ کو وسیع اور کشادہ نہیں کیا“۔(۱)
یہ ایک ایسا امر ہے کہ جو افرادکے حالات کا مشاہدہ کرنے سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔ بعض کی روح تو اس قدر بلند وکشادہ ہوتی ہے جو ہر حقیقت کو قبول کرنے کے لئے ۔چاہے وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو۔ آمادہ اور تیار ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس بعض کی روھ اتنی تنگ اور محدود ہوتی ہے جیسے کسی بھی حقیقت کے نفوذ کے لئے اس میں کوئی راہ اور جگہ نہیں ہے ان کی فکری نگاہ کی حد روزمرہ کی زندگی اور کھانے پینے تک ہی محدود ہوتی ہے، اگر وہ انھیں مل جائے تو ہر چیزچھی ہے اور اگر اس میں تھوڑا سا بھی تغیر پیدا ہوجائے تو گویا سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور دنیا خراب ہوگئی ہے۔
جس وقت اوپر والی آیت نازل ہوئی پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے لوگوں نے پوچھاکہ شرح صدر کیا ہے تو آپ نے فرمایا:
”نور یقذفہ اللّٰہ فی قلب من یشاء فینشرح لہ صدرہ وینفسح“
”ایک نور ہے کہ جسے خدا جس شخص کے دل میں چاہے ڈال دے تواس کے سائے میں اس کی روح وسیع اور کشادہ ہوجاتی ہے“۔
لوگوں نے پوچھا کہ کیا اس کی کوئی نشانی بھی ہے جس سے اسے پہچانا جائے تو آپ نے فرمایا:
”نعم الانابة الی دار الخلود والتجافی عن دارالغرور والاستعداد للموت قبل نزول الموت“۔(۲)
”ہاں! اس کی نشانی ہمیشہ گھر کی طرف توجہ کرنا ، اور دنیا کے زرق برق سے دامن سمیٹنا، اور موت کے لئے آمادہ ہونا (ایمان وعمل صالح اور راہ حق میں کوشش کرنے کے ساتھ ) قبل اس کے کہ موت آجائے “۔
بعد والی آیت میں گذشتہ بحث کی تاکید کے عنوان سے کہتا ہے: یہ مطلب کہ خدائی مدد حق طلب لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے اور سلب توفیق دشمنان حق کی تلاش میں جاتی ، ایک مستقیم وثابت اور ناقابل تغیر سنت الٰہی ہے(وَہَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیمًا)۔
اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ ”ھذا“ کا اشارہ اسلام اور قرآن کی طرف ہو، کیو ں کہ وہی صراط مستقیم اور راست ومعتدل راستہ ہے۔
آیت کے آخر میں دوبارہ تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ہم نے اپنی نشانیوں اور آیات کو ان لوگوں کے لئے جو قبول کرنے والا دل اور سننے والا کان رکھتے ہیں تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے( قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ)۔
بعد والی آیت میں خدا وند تعالی اپنی نعمتوں کے ان دو عظیم حصوں کو جو وہ بےدار افراد اور حق طلب لوگوں کو عطا کرتا ہے بیان کرتا ہے: پہلی یہ کہ ان کے پروردگار کے پاس ان کے لئے امن وامان کا گھر ہے(لَہُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِنْدَ رَبِّہِمْ )۔
اور دوسری یہ کہ : ان کا ولی وسرپرست اور حافظ ناصر خدا ہے(وہُوَ وَلِیُّہُمْ)۔
”اور یہ سب کچھ ان نیک اعمال کی وجہ سے ہے جو وہ انجام دیتے تھے“( بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )۔
اس سے بڑھ کر اور کونسی چیز باعث افتخار ہوگی کہ انسان کی سرپرستی اور کفالت امورخدا وند تعالی اپنے ذمہ لے لے، اور وہ اس کا حافظ، دوست اور یارویاور ہوجائے۔
اور کون سی نعمت اس سے عظیم تر ہے کہ ”دارالسلام“ یعنی امن امان کا گھر وہ جگہ کہ جس میں نہ جنگل ہے نہ خونریزی،نہ نزاع ہے نہ جھگڑا، نہ خشونت وسختی ہے نہ زمانے والی اور طاقت صرف کرنے والی رقابتیں، نہ مفادات کا تصادم ہے نہ جھوٹااور افتراء نہ تہمت، حسد اور کنہ ہے اور نہ غم واندوہ ، ایسا گھر جو ہرلحاظ سے راحت وآرام کی جگہ ہے، انسان کے انتظار میں ہے۔
لیکن آیت یہ کہتی ہے کہ یہ چیزیں وہ زبانی جمع خرچ سے کسی کو نہیں دیتا بلکہ عمل کے بدلے میں دیتا ہے، ہاں! ہاں! عمل ہی کے بدلے میں۔
 

 

۱۲۸ وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیعًا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدْ اسْتَکْثَرْتُمْ مِنْ الْإِنسِ وَقَالَ اٴَوْلِیَاؤُہُمْ مِنْ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا اٴَجَلَنَا الَّذِی اٴَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِینَ فِیہَا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ۔
۱۲۹ وَکَذٰلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ۔
ترجمہ
۱۲۸۔ اور اس دن کہ جس میں ان سب کو جمع اور محشور کرے گا تو ان سے کہے گا کہ اے گروہ شیاطین وجن تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا ہے ، تو انسانوں میں سے ان کے دوست اور پیروھار کہیں گے اے ہمارے پروردگا ر ہم دونوں(گمراہ پیشواؤں اور گمراہ پیروکاروں) میں سے ہر ایک نے دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہے( ہم ہوس آلودہ اور زود گزر لذات تک پہنچے اور انھوں نے ہم پر حکومت کی) اور جو اجل تونے ہمارے لئے مقرر کردی تھی ہم اس تک پہنچ گئے،(خدا) کہے گا:تمھارے رہنے کی جگہ آگ ہے تم ہمیشہ کے لئے اسی میں رہوگے، مگر جو کچھ خدا چاہے ، تیرا پروردگار حکیم اور داناہے۔
۱۲۹۔ اور اس طرح سے ہم بعض ستمگروں کو بعض (دوسرے ظالموں ) کے سپرد کردیتے ہیں یہ ان اعمال کی وجہ سے ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔

 

 

 

 
۱۔ سورہٴ الم نشرح، آیہ :۱۔
۲۔ مجمع البیان، جلد ۴، صفحہ ۳۶۳۔
 
خدائی امداداس دن کہ جس میں ان سب کو جمع ومحشور کرے گا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma