ان کے شرکاء (یعنی بتوں) نے ان کی اولاد کے قتل کو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
تیرا پروردگار بے نیاز بھی اور رحیم ومہربان بھی ہے بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ

ان کے دماغوں سے بت پرستی کے افکار کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مشرکین کے بیہودہ عقائد ورسموں اور آداب وعبادات کادوبارہ ذکر شروع کیا گیا ہے اور بیان رسا کے ذریعے ان کے بیہودہ ہونے کو واضح کیا گیا ہے۔
قرآن پہلے کہتا ہے: کفار مکہ اور تمام مشرکین اپنی زراعت اور چوپایوں میں سے ایک حصہ تو خدا کے لئے اور ایک حصہ اپنے بتوں کے لئے قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ حصہ تو خدا کا ہے اور یہ ہمارے شرکاء یعنی بتوں کا مال ہے ( وَجَعَلُوا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاٴَ مِنْ الْحَرْثِ وَالْاٴَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا ہَذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہَذَا لِشُرَکَائِنَا)۔
اگرچہ آیت میں صرف خدا کے حصہ کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن بعد کے جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک حصہ خدا کا اور ایک حصہ بتوں کا قرار دیتے تھے، روایات میں آیاہے کہ اس حصہ کو تو جسے وہ خدا کے لئے قرار دیتے تھے بچوں اور مہمانوں میں صرف کرتے اور اس سے اس کام کے لئے استفادہ کرتے تھے لیکن زراعت اور چوپایوں کاوہ حصہ جو وہ بتوں کے لئے قرار دیتے تھے بتوں اور بت خانہ کے خادموں اور متولیوں اور مراسم قربانی اور خود ان کے اپنے لئے مخصوص تھا۔(۱)
”شرکائنا“ (ہمارے شریک) کی تعبیر بتوں کے لئے اس بنا پر تھی کہ وہ انھیں اپنے اموال ، سرمائے اور زندگی میں شریک سمجھتے تھے۔
”مما ذراء“(اس میں سے جو خدا نے خلق کیا ہے) کی تعبیر درحقیقت ان کے عقیدہ کے ابطال کی طرف اشارہ ہے کیوں کہ یہ تمام اموال سب کے سب خدا کی مخلوق تھے تو پھر ان میں سے ایک حصہ خدا کے لئے اور ایک حصہ بتوں کے لئے کیسے مقرر کرتے تھے۔
اس کے بعد اس بارے میں ان کے ایک عجیب وغریب فیصلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ حصہ جو انھوں نے بتوں کے لئے مقرر کیا تھا وہ تو ہر گز خدا کو نہیں مل سکتا تھا (اور خدا کے نام پر کسی کو نہیں دیا جاسکتا تھا) لیکن وہ حصہ جو انھوں نے خدا کے لئے قرار دیا تھا وہ بتوں کو پہنچ جاتا تھا

( فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلاَیَصِلُ إِلَی اللهِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ إِلَی شُرَکَائِہِمْ)۔
اس بارے میں کہ اس جملے سے کیا مراد ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن تقریباً وہ سب کے سب ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب کسی حادثہ کی وجہ سے زراعت یا چوپایوں میں سے مقرر کئے ہوئے خدا کے سہم کا کچھ حصہ خراب ہوجاتا تھا اور نابود ہوجاتا تھاتو وہ کہتے تھے کہ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے خدا بے نیاز ہے لیکن اگر بتوں کے حصہ مین سے کچھ ضائع ہوجاتا تو سہم خدا کو اس کی جگہ قرار دے لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بتوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔
اسی طرح اگر اس کھیت کا پانی جو خدا کے حصہ میں تھا بتوں کے حصہ والے میں چلاجاتا تھا تو کہتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے، خدا تو بے نیاز ہے، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوجاتاتو اس کو روک دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بتوں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔
آیت کے آخر میں خداتعالی ایک مختصر سے جملے کے ذریعے سے اس بیہودہ عقیدے کو جرم قرار دے کر اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے:یہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں( سَاءَ مَا یَحْکُمُون)۔
اس بات کے علاوہ کہ بت پرستی خود ایک فاسد اور بے اساس چیزہے ان کے فعل کی برائی کے کچھ اور پہلو بھی ہیں:
۱۔باوجود اس کے کہ تمام چیزیں خدا کی مخلوق ہیں اور اس کی مسلم ملکیت ہے او تمام موجوات کا حاکم ومدبر ومحافظ وہی ہے ، وہ اس میں سے صرف ایک ہی حصہ کو خدا کے ساتھ مخصوص قرار دیتے تھے، گویا اصلی مالک وہ خود تھے، لہٰذا تقسیم کا حق بھی صرف ان ہی کو حاصل تھا(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ”مما ذراء“ کا جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے) ۔
۲۔ وہ اس تقسیم میں بتوں کی طرف داری کو مقدم رکھتے تھے لہٰذا ہر وہ نقصان جو خدا کے حصہ میں واقع ہوتا تھا اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن جو نقصان بتوں کے حصہ میں ہوجاتا اس کی خدا کے حصہ سے تلافی کرلیا کرتے تھے اور خدا کے حصہ میں سے لے کر بتوں کو دے دیتے ، آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ ہوا ہے، اور یہ بتوں ک لئے خدا کی نسبت ایک قسم کی برتری اور امتیاز کا اظہار تھا۔
۳۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بتوں کے حصہ کے لئے ایک خاص اہمیت کے قائل تھے ، لہٰذا ان کے حصہ میں سے متولیان، بتوں کے خادم اور خود بت پرست کھاتے تھے اور خدا کے حصہ کو صرف بچوں اورمہمانوں کو دیتے تھے، قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موٹے تازے گوسفند اور اچھے قسم کا اناج بتوں کا مال تھا تاکہ بقولے ”حاتم کے بعد پیٹ بھر کر کھاسکیں“۔
یہ سب چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ تقسیم کے سلسلے میں خدا کے لئے بتوں جتنی قدرت وقیمت کے بھی قائل نہیں تھے، اس سے بڑھ کر قبیح اور زیادہ سنگین اور کیا فیصلہ ہوسکتا ہے کہ انسان پتھر یا لکڑی کے ایک بے قدروقیمت ٹکڑے کو عالم ہستی کے خالق ومالک سے بلند تر خیال کرے، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی انحطاط فکری تصور کیا جاسکتا ہے۔

۱۳۷ وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ اٴَوْلاَدِہِمْ شُرَکَاؤُہُمْ لِیُرْدُوہُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْہِمْ دِینَہُمْ وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ
ترجمہ
۱۳۷۔اور اسی طرح ان کے شرکاء (یعنی بتوں) نے ان کی اولاد کے قتل کو ان کی نظروںمیں پسندیدہ رکھا تھا (وہ اپنے بچوں کو بتوں پر قربان کرتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے) اور اس کام کا انجام یہ ہوا کہ بتوں نے انھیں ہلاکت میں ڈال دیا اور ان کے دین کو دگرگوں کردیا اور اگر خدا چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے( کیوں کہ خدا انھیں جبرا ایسا کرنے سے روک سکتا تھا لیکن جبر کا کوئی فائدہ نہیں ہے) اس بناپر انھیں اور ان کی تہمتوں کو بھی چھوڑ دو(اور ان کے اعمال کی پرواہ نہ کرو)۔

 


۱۔ تفسیر المنار، جلد ہشتم ، صفحہ ۱۲۲۔
تیرا پروردگار بے نیاز بھی اور رحیم ومہربان بھی ہے بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma