یہاں ظلم سے کیا مراد ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
حضرت ابراہیم - کی بت پرست قوم و جمعیت سےبحث و گفتگو نعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل

مفسّرین کے درمیان مشہور یہ ہے کہ یہاں ”ظلم“ شرک کے معنی میں ہے۔ سورہٴ لقمان (کی آیہ ۱۳) میں جو یہ وارد ہوا ہے کہ ”اِنَّ الشِّرک لَظُلْمٌ عَظِیمٌ “ (شرک ظلم عظیم ہے) کو اس معنی کا شاہد قرار دیا ہے۔
ایک روایت میں بھی ابن مسعود سے یہ نقل ہوا ہے کہ جس وقت یہ (زیر بحث) آیت نازل ہوئی، تو یہ بات لوگوں کو بہت گراں معلوم ہوئی۔ عرض کیا: اے اللہ کے رسول ایسا کون ہے کہ جس نے اپنے اُوپر تھوڑا بہت ظلم نہ کیا ہو (لہٰذا یہ آیت تو سبھی کو شامل کرلیتی ہے)
رسول اللہ نے فرمایا:جو تم نے خیال کیا ہے اس سے وہ مراد نہیں ہے۔ کیا تم نے خدا کے صالح بندے (لقمان کا) قول نہیں سنا (جو اپنے بیٹے سے) کہتا ہے ”میرے بیٹے خدا کا شریک قرار نہ دے کہ شرک، ظلم عظیم ہے“۔(1)
لیکن چونکہ قرآن کی آیات بہت سے مواقع پر دو یا دو سے زیادہ معانی کی حامل ہوتی ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ اُن میں سے ایک معنی دوسرے معنی دوسرے معنی سے زیادہ وسیع اور عمومی ہوتو آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ ”امنیت“ سے مراد عام امنیت ہے خواہ خدا کے عذاب سے امن و امان ہو یا اجتماعی دردناک حوادث سے امن و امان ہو۔
یعنی جنگیں ایک دوسرے پر زیادتیاں، مفاسد اور جرائم سے امان، یہاں تک کہ روحانی سکون و اطمینان صرف اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے جب کہ انسانی معاشرے میں دو اصولوں کی حکمرانی ہو، اوّل ایمان اور دوسرے عدالت اجتماعی، اگر خدا پر ایمان کی بنیادیں ہل جائیں اور پروردگار کے سامنے جواہدہی کا احساس ختم ہوجائے اور عدالت اجتماعی کی جگہ ظلم و ستم کا دَورہ ہو، تو ایسے معاشرے میں ان و امان ختم ہوجائے گا اور یہی سبب ہے کہ دنیا کے بہت سے مفکرین کی طرف سے دنیا میں بدامنی کی مختلف صورتوں کو ختم کرنے کی تمام کوششوںکے باوجود دنیا کے لوگوں کا واقعی امن دامان سے دن بدن فاصلہ بڑھتا جارہا ہے، اس کیفیت کا سبب وہی ہے کہ طرف زیر نظر آیت میں اشارہ ہوا ہے اور وہ یہ کہ ایمان کی بنیادیں ہل رہی ہیں اور عدالت کی جگہ ظلم کا دور دورہ ہے ۔
خاص طور پر روحانی امن و سکون میں ایمان کی تاثیر سے تو کسی کے لیے بھی تردید کی گنجایش نہیں ہے۔ جیسا کہ ارتکاب ظلم سے وجدان کی پریشانی اور روحانی امن وسکون کا چھن جانا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
بعض روایات میں بھی حضرت صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ زیر بحث آیت سے مراد یہ ہے کہ:وہ لوگ کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے حکم کے مطابق اُمت اسلامی کی ولایت و رہبری کے سلسلے میں آپ کے بعد ایمان لے آئیں اور اُسے دوسرے لوگوں کی ولایت و رہبری کے ساتھ مخلوط نہ کریں تو وہ امن و امان میں ہیں۔ (2)
یہ تفسیر حقیقت میں آیہ شریفہ میں موجود مطلب کی روح اور نچوڑ پپر نظر رکھتے ہوئے بیان ہوئی ہے کیونکہ اس آیت میں خدا کی ولایت و رہبری کے متعلق گفتگو ہے اور اُسے اُس کے غیر کی رہبری کے ساتھ خلط ملط نہ کرنے کے سلسلہ میں ہے اور چونکہ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری آیہ ”اِنَّمَا وَلِیّکُمُ اللّٰہ وَ رَسُولَہ“““کے اقتضا کے مطابق خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رہبری کا پرتو ہے اور خدا کی طرف سے معین نہ ہونے والی رہبریاں ایسی نہیں ہیں لہٰذا اُوپر والی آیت ایک وسیع نظر سے ان سب پر محیط ہوگی، اس بناء پر اس حدیث سے مراد یہ نہیں ہے کہ آیت کا مفہوم اسی معنی میں منحصر ہے، بلکہ یہ تفسیر آیت کے اصلی مفہوم کا پرتو ہے۔
اسی لیے ہم حضرت امام صادق علیہ السلام کی ایک دوسری حدیث میں پڑھتے ہیں کہ یہ آیت خوارج جو ولی خدا کی ولایت سے نکل گئے تھے اور شیطان کی ولایت و رہبری میں چلے گئے تھے، کے بارے میں بھی ہے۔(3)
بعد والی آیت اُن تمام بحثوں کی طرف۔ ایک اجمالی اشارہ کرتے ہوئے کہ جو حضرت ابراہیم- کی طرف سے توحید کے بیان اور شرک کے خلاف مبارزہ و مقابلہ کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں ایک اجمالی اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے: یہ ہمارے وہ دلائل تھے جو ہم نے ابراہیم - کو اس کی قوم و جمعیت کے مقابلہ میں دیئے تھے (وَتِلْکَ حُجَّتُنَا آتَیْنَاہَا إِبْرَاہِیمَ عَلیٰ قَوْمِہِ)۔
یہ صحیح ہے کہ اس استدلال میں منطقی پہلو بھی تھا اور ابراہیم - عقلی قوت اور فطری الہام کی بناپر اُن تک پہنچے تھے لیکن چونکہ یہ قوت عقل اور وہ الہام فطرت سب خدا کی ہی طرف سے تھے، لہٰذا خدا ان تمام استدلالات کو اپنی نعمات میں سے شمار کررہا ہے کہ جو ابراہیم - کے دل جیسے آمادہ دلوں میں منعکس ہوتے ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ”تلک“ عربی زبان میں بعید کے لیے اسم اشارہ ہے۔ لیکن بعض اوقات موضوع کی اہمیت، اور اس کا بلند پایہ ہونا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ ایک نزدیک کا موضوع بھی اسم اشارہٴ بعید سے ذکر ہو، جس کی مثال سورہٴ بقرہ کی ابتداء میں ہے:
”ذَٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ“۔
”یہ عظیم کتاب وہ ہے کہ جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے“۔
پھر اس بحث کی تکمیل کے لیے فرمایا یا ہے: ہم جس کے درجات کو چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں (نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ)۔(4)
لیکن اس غرض سے کہ کوئی اشتباہ واقع نہ ہو۔ کہ لوگ یہ گمان کرنے لگ جائیں کہ خدا اس درجے کے بلند کرنے میں کسی تبعیض سے کام لیتا ہے، قرآن فرماتا ہے: تیرا پروردگار حکیم اور عالم ہے اور وہ درجات عطا فرماتا ہے وہ ان کی لیاقت و قابلیت سے آگاہی اور میزان حکمت کے مطابق عطا فرماتا ہے اور جب تک کوئی شخص لائق اور قابل نہ ہو اُس سے بہرہ مند نہیں ہوگا (إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ)۔
۸۴ وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا ہَدَیْنَا وَنُوحًا ہَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ-
۸۵ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ-
۸۶ وَإِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِینَ-
۸۷ وَمِنْ آبَائِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَإِخْوَانِہِمْ وَاجْتَبَیْنَاہُمْ وَہَدَیْنَاہُمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ-
ترجمہ
۸۴۔ور ہم نے اُسے (ابراہیم - کو) اسحاق و یعقوب عطا کیے اور ہم نے ہر ایک کو ہدایت کی، اور نوح کو (بھی) ہم نے (ان سے) پہلے ہدایت کی تھی، اور اس کی ذریت و اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو (ہم نے ہدایت کی) اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح سے جزا دیتے ہیں۔
۸۵۔ اور (اسی طرح) زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس سب صالحین میں سے تھے۔
۸۶۔ اور اسماعیل، الیسع، یونس اور ہر ایک کو ہم نے عالمین پر فضیلت دی۔
۸۷۔ اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے کچھ افراد کو ہم نے برگزیدہ کیا اور اُنہیں راہ راست کی ہدایت کی۔


 
1۔ تفسیر مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
2۔ تفسیر نور الثقلین جلد اوّل صفحہ ۷۴۰۔
3۔ تفسیر برہان جلد اوّل صفحہ ۵۳۸۔
4۔ ”درجہ“ کے بار سے میں اور اس کے اور ”درک“ کے درمیان فرق کے بارے میں ہم سورہٴ نساء آیہ ۱۴۵ جلد چہارم صفحہ ۱۴۸ میں بحث کرچکے ہیں۔
 

 

حضرت ابراہیم - کی بت پرست قوم و جمعیت سےبحث و گفتگو نعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma