جیسا کے ہم نے اس تفسیر کی جلد سوم میں سورہٴ نساء کی آیہ ۴۳ کے ذیل میں اشارہ کیا ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے زمانہٴ جاہلیت میں شراب خواری اور مے نوشی کا بہت زیادہ رواج تھا اور یہ ایک عمومی و باکی صورت اختیار کر گئی تھی یہاں تک کہ بعض مورخین کہتے ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت کے عربوں کے عشق کا خلاصہ تین چیزیں تھیں شعر و شراب اور جنگ!
روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شراب کے حرام ہونے کے بعد تک بھی بعض مسلمانوں کے لیے اس کی ممانعت کا مسئلہ حد سے زیادہ سخت اور مشکل تھا ۔ یہاں تک کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ”ما حرّم علینا شیٴ اشدّ من الخمر“۔
”شراب کے حرام ہونے سے زیادہ اور کوئی حکم ہم پر سخت تر نہیں تھا“۔(1)
یہ بات واضح ہے کہ اگر اسلام چاہتا کہ اس عظیم عمومی وبا کے خلاف نفسیات اور معاشرے کے اجتماعی اصول کو مد نظر رکھے بغیر بر سر بیکار ہوجائے تو کامیابی ممکن نہ تھی لہٰذا اس نے مے نوشی کی بیخ کنی کے لیے تدریجی طریقہ اختیار کیا ۔ پہلے ان کے اذہان و افکار کو آمادہ کیا گیا پھر حرمت کا حکم ناقذ کیا گیا ۔ کیونکہ مے نوشی کی عادت ان کی ایک فطرت ثانیہ بن چکی تھی پہلے مکی سورتوں میں بعض آیات میں اس کام کی برائی کی طرف کچھ اشارے کئے گئے ۔ جیسا کہ سورہٴ نحل کی آیت ۶۷ میں ہے:
”و من ثمرات النخیل و الاعناب تتخذون منہ سکراً و رزقا حسناً“
”تم انگور اور کھجور کے ردخت کے پھلوں سے مسکرات (نشہ آور چیزیں) اور پاکیزہ روزی فراہم کرتے ہو“۔
اس مقام پر لفظ ”مسکر“ یعنی مسکر اور اس شراب کو جو وہ انگور اور خرما سے حاصل کرتے تھے رزقِ حسن کے مد مقابل بیان کیا گیا ہے اور اُسے ایک ناپاک اور آلودہ مشروب شمار کیا گیا ہے ۔
لیکن شراب خواری کی بُری عادت نے اس سے کہیں زیادہ جڑیں پکڑی ہوئی تھیں کہ اُس کی ان اشاروں سے بیخ کنی ہوجائے ۔ اس کے علاوہ شراب اُن کی اقتصادی در آمدات کے ایک حصّہ کی ضامن بھی تھی لہٰذا جب مسلمان مدینے میں منتقل ہوگئے اور پہلی اسلامی حکومت کی تشکیل ہوئی تو شراب خواری کی ممانعت کے بارے میں دوسرا حکم قاطع تر صورت میں نازل ہوا تا کہ افکار کو (شراب کی) حرمت کے انتہائی حکم کے لیے اور زیادہ آمادہ کیا جاسکے ۔ یہ موقع تھا جبکہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۱۹ نازل ہوئی:
”یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیہما اثم کبیر و منافع للنّاس و اثمہما اکبر من نفعہما“
اس آیت میں بعض معاشروں مثلاً دورِ جاہلیت کے لیے شراب کے اقتصادی منافع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے خطرات اور عظیم نقصانات کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ہے جو کہ اُس کے اقصادی منافع سے کئی درجہ بڑھ کر ہیں ۔
اس کے بعد سورہٴ نساء کی آیت ۴۳ ہے:
”یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَاٴَنْتُمْ سُکَارَی حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ“
اس مسلمانوں کو صراحت سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ مستی کی حالت میں ہرگز نماز نہ پڑھیں جب تک کہ یہ نہ جانیں کہ وہ اپنے خدا سے کیا باتیں کرتے ہیں ۔
البتہ اس آیت کا مفہوم یہ نہیں تھا کہ نماز کی حالت کے علاوہ شراب پینا جائز ہے بلکہ مقصد وہی تدریجی طور پر اس کی حرمت کا حکم نافذ کرنا تھا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ آیت نماز کی حالت کے علاوہ دوسری حالتوں کے سلسے میں خاموش ہے اور صراحت سے کچھ نہیں کہتی ۔
مسلمانوں کی احکام اسلام سے شناسائی اور اس عظیم معاشرتی روگ کو جو اُن کے وجود کی گہرائیوں میں اُتر چکا تھا جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اُن کی فکری آمادگی اس بات کا سبب بنی کہ آخری حکم مکمل صراحت اور قاطعیت سے نازل ہوا کہ جس کے بعد بہانہ سازی کرنے والے بھی اعتراض نہ کرسکیں اور وہ یہی زیر بحث آیت ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں مختلف تعبیرات کے ذریعہ اس کام کی ممنوعیت پر تاکید کی گئی ہے:
۱۔ آیت ”یا ایہا الذین آمنوا“ کے خطاب سے شروع ہوئی ہے، یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حکم کی مخالفت روح ایمان کے منافی ہے ۔
اس کے بعد لفظ ”انّما“ جو استعمال ہوا ہے حر وتاکید کے لئے ہے ۔
۳۔ شراب اور قمار بازی کو انصاب (2) (وہ بت کہ جن کی کوئی مخصوص شکل وصورت نہیں تھی صرف پتھر کے ٹکڑے سے بنے ہوئے تھے) کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ شراب اور قمار بازی کا خطرہ اس قدر زیادہ ہے کہ وہ بت پرستی کے ہم پلہ قرار پایا ہے، اسی بناپر پیغمبر اکرم سے ایک روایت میں ہے:
”شراب الخمر کعابد الوثن“
”شراب خوار بت پرست کی مانند ہے(3)
۴۔ شراب، قمار بازی اور اسی طرح بت پرستی اور ازلام (جو ایک قسم کی لاٹری ہے)(4) یہ سب رجس وپلیدی کے طور پر شمار کیے گئے ہیں (انّمَا الخمر وَالْمیسر وَالانصاب وَالازلام رِجسٌ)
۵۔ یہ سب شیطانی اعمال میں سے قرار دیئے گئے ہیں (من عمل الشیطان)
۶۔ آخر کار ان سے اجتناب کرنے کے بارے میں قطعی حکم صادر کرنے کرتے ہوئے فرماتا ہے: (فاجتنبوہ)
ضمنی طور پر توجہ رہے کہ اجتناب، نہی کی نسبت زیادہ رسا مفہوم رکھتا ہے کیونکہ اجتناب کا معنی فاصلہ پر رہنا ، دوری اختیار کرنا اور نزدیک نہ جانا ہے جو کہ ”نہ پیو“ سے کہیں بہتر اور رساتر ہے ۔
۷۔اس آیت کے آخر میں قرآن کہتا ہے کہ یہ حکم اس بنا پر دیا گیا ہے تا کہ تم کا میابی اور فلاح حاصل کر لو (لعلّکم تلحون) یعنی اس کے بغیر کامیابی اور نجات ممکن نہیں ہے ۔
۸۔ بعد والی ایت میں شراب اور قمار بازی کے بعض واضح نقصان ذکر کیے گئے ہیں، پہلے کہتا ہے کہ شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور قمار بازی کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت ودوشمنی کی تخم ریزی کرے اور تمھیں نماز اور ذکر خدا سے بازرکھے (إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُوقِعَ بَیْنَکُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَعَنْ الصَّلاَةِ )۔
۹۔ اس آیت کے آخر میں استفہام تقریری کے طور پر کہتا ہے: ”کیا تم اس سے بچوگے اور رک جاؤگے“ (فَہَلْ اٴَنتُمْ مُنتَہُون)۔
یعنی کیا ان تمام تاکیدوں کے باوجود ان دو عظیم گناہوں کو ترک کرنے کے بارے میں کوئی بہانہ جوئی یا شک وتردّد کی گنجائش رہ گئی ہے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر تک بھی گذشتہ آیات کی تصریحات کو اس لگاؤ کی وجہ سے جو (سنّی مفسّرین کی تصریح کے مطابق) انھیں شراب سے کافی نہیں سمجھتے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد کہنے لگے کہ یہ حکم کافی دوانی اور قناعت کنندہ ہے ۔
۱۰۔ تیسری میں اس حکم کی تاکید کے طور پر پہلے تو مسلمان کو حکم دیتا ہے کہ خدا اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کریں اور اس کی مخالفت سے پرہیز کریں ۔
”اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُو الرَّسُول وَاحْذَرُوا“
اس کے بعد مخالفین کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر انھوں نے پروردگار کے فرمان کی اطاعت سے روگردانی کی کیفر کردار اور سزا کے مستحق ہوںگے اور پیغمبر کی ذمہ داری اور فریضہ سوائے واضح ابلاغ اور تبلیغ کے اور کچھ نہیں ہے(فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا عَلَی رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِینُ ۔