پیغمبر مجبور نہیں کرتے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
چند قابل توجہ نکاتتم مشرکین کے بتوں اور معبودوں کو کبھی گالیاں نہ دو

درحقیقت ان آیات میں گذشتہ آیات کا ایک طرح سے خلاصہ اور نتیجہ پیش کیا گیا ہے، پہلے کہا گیا ہے:تمھارے پاس توحید، خدا شناسی اور ہر قسم کے شرک کی نفی کے بارے میں ایسی واضح و روشن دلائل اور نشانیاں آچکی ہیں جو بصیرت وبینائی کا سبب ہے( قَدْ جَائَکُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّکُمْ )۔
”بصائر“ جمع ہے ”بصیرت“ کی ”بصر“ کے مادہ سے دیکھنے کے معنی میں لیکن عام طور پر یہ لفظ فکری وعقلی بصیرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، بعض اوقات ان تمام امور پر اس کا اطلاق ہوتا کہ جو کسی مطلب کے ادراک وفہم کا باعث ہو، زیر نظر آیت میں یہ لفظ دلیل، شاہد اور گواہ کے معنی میں آیا ہے، اور ان تمام دلائل کو جو گذشتہ آیات میں خدا شناسی کے سلسلہ میں بیان کی جاچکی ہیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے بلکہ سارا قرآن اس کے مفہوم میں موجود ہے۔
اس کے بعد یہ حقیقت واضح کرنے کے لئے یہ دلائل حقیقت کوآشکار کرنے کے لئے کافی ہیں اور منطقی پہلو رکھتے ہیں، کہا گیا ہے: اور لوگ جو ان دلائل کے ذریعہ حقیقت کے چہرے کو دیکھ لےں تو انھوں نے خود اپنے ہی نفع کی طرف قدم بڑھایا ہے اور وہ لوگ جو اندھوں کی طرح ان کے مشاہدہ سے اپنے آپ کو محروم رکھے انھوں نے اپنے ہی نقصان میں کام کیا ہے (مَنْ اٴَبْصَرَ فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْہَا )۔
اور آیت کے آخر میں پیغمبر کی زبانی کہا گیا ہے :میں تمھارا نگہبان اور محافظ نہیں ہوں (وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظٍ )۔
اس بارے میں کہ اس جملے سے مراد کیا ہے، مفسرین نے دواحتمال ظاہر کئے ہیں۔
پہلا یہ کہ میں تمھارے کاموں کا محافظ ونگہبان اورجوابدہ نہیں ہوں، بلکہ خدا ہی سب کی نگہداری کرنے والا ہے اور وہی ہر شخص کو جزا وسزا دے گا، میرافریضہ تو صرف رسالت کو پہنچانا اور لوگوں کی ہدایت کے لئے جتنی زیادہ سے زیادہ سعی وکوشش ہوسکتی ہے ، کرنا ہے۔
دوسرا یہ کہ میں اس بات پر مامور اور تمھارا ذمہ دار نہیں ہوں کہ میں تمھیں جبر واکراہ سے طاقت سے اور زبردستی ایمان کی دعوت دوں، بلکہ میرا فریضہ تو صرف منطقی حقائق بیان کرنا ہے اور آخری تصمیم وارادہ خودتمھارا اپنا کام ہے، اس امر میں کوئی بات مانع نہیں ہے کہ اس لفظ سے دونوں ہی معانی مراد لئے گئے ہوں ۔
بعد والی آیت میں اس امر کی تاکید کے لئے کہ حق وباطل کے انتخاب کی راہ میں آخری ارادہ خود لوگوں کے اپنے اختیار میں ہے فرمای گیا: ہم آیات ودلائل کو اس طرح سے مختلف شکلوں، مختلف قیافوں اور مختلف صورتوں میں بیان کرتے ہیں ( وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ)۔(۱)
لیکن ایک جماعت مخالفت پر کھڑی ہوگی، اور بغیر مطالعہ اور بغیر کسی قسم کی دلیل کے کہنے لگی:تونے یہ درس دوسروں (یہودونصاری اور ان کی کتب ) سے لئے ہیں(وَلِیَقُولُوا دَرَسْتَ )۔(۲)
پیغمبر پر اس نظر سے تہمت کہ آپ نے اپنی تعلیمات یہودونصاری سے حاصل کی ہے، ایک ایسی بات ہے جو مشرکین کی طرف سے بارہا کہی گئی ہے اور ہٹ دھرم مخالفین اب بھی ایسا کہتے رہتے ہیں حالانکہ اصولا پورے جزیرہ نمائے عرب میں کوئی درس مکتب اور علم تھا ہی نہیں کہ پیغمبر اسے حاصل کرتے اور جزیرہ نمائے عرب سے باہر پیغمبر کے سفر اس قدر کم تھے کہ جن میں اس قسم کے احتمال کی گنجائش ہی نہیں ہے، پورے حجاز کے اندر رہنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کی معلومات بھی اس قدر کم اور خرافات سے مخلوط تھی کہ وہ اصلا اس قابل ہی نہ تھی کہ ان کا قرآن اور تعلیمات پیغمبر سے موازنہ کیا جائے، اس موضوع کے بارے میں ہم انشاء للہ مزید وضاحت سورہٴ نحل کی آیت ۱۰۳ میں بیان کریں گے۔
اس کے بعد مخالفین کی ہٹ دھرمیوں، کینہ پروریوں اور تہمتوں کے مقابلے میں پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا فریضہ بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے:تیرا فریضہ یہ ہے کہ تیرے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تجھ پر وحی ہوتی ہے اس کی پیروی کر ،وہ خدا کے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے(اتَّبِعْ مَا اٴُوحِیَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ)۔
نیز تیرا فریضہ یہ ہے کہ ”مشرکین اور ان کی ناروا تہمتوں اور بے بنیاد باتوں کی پرواہ نہ کر“( وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِکِینَ )۔
حقیقت میں یہ آیت پیغمبراکرم کے لئے ایک قسم کی تسلی اور روحانی تقویت ہے تاکہ اس قسم کے مخالفین کے مقابلہ میں آپ کے عزم راسخ اور آہنی ارادہ میں ذراسی بھی کمزوری واقع نہ ہو۔
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے اچھی طرح واضح اور روشن ہوجاتا ہے کہ ”واعرض عن المشرکین“ (مشرکین سے منہ پھر لو اور ان کی پروہ نہ کرو)کاجملہ انھیں اسلام کی طرف دعوت دینے کے حکم اور ان کے مقابلے میں جہاد کرنے سے کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی بے بنیادباتوں اور تہمتوں کی پرواہ نہ کرواور اپنی راہ حق پر ثابت قدم رہو۔
آخری زیر بحث آیت مین اس حقیقت کی دوباری تاکید کی گئی ہے کہ خدا وند تعالی یہ نہیں چاہتا کہ انھیں جبرا ایمان پر آمادہ کرے اور اگر وہ یہ چاہتا تو سب کے سب ایمان لے آتے اور کوئی مشرک نہ ہوتا (وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اٴَشْرَکُوا)۔
اور یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ تم ان کے اعمال کے لئے جوابدہ نہیں ہو اور تم انھیں ایمان پر مجبور کرنے کے لئے بھی مبعوث نہیں ہوئے ہو( وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا)۔
جیسا کہ تمھارا یہ فرض بھی نہیں کہ تم انھیں کار خیر پر مجبور کرو( وَمَا اٴَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیلٍ)۔
”حفیظ“ اور” وکیل“ میں فرق یہ ہے کہ حفیظ تو اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو کسی شخص یا چیز کی نگہبانی کرے اور اسے زیان وضرر پہنچنے سے محفوظ رکھے،لیکن وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے لئے منافع ےا حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرے۔
شاید یہ بات یاد دلانے کی ضرور ت نہ ہو کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ان دو صفات (حفیظ ووکیل) نفی دفع ضرر اور جلب منفعت پر مجبور کرنے کی نفی کے معنی میں ہے، اور نہ پیغمبر تبلیغ کے طریقے سے اور نیک کاموں کے بجالانے اور برے کاموں کے ترک کرنے کی دعوت کے ذریعہ ان دونوں فرائض کو ان کے موقع ومحل پر اختیاری صورت میں انجام دیتے ہیں۔
ان آیات کا لب لہجہ اس نظر سے بہت ہی قابل ملاحظہ ہے کہ خدا پر اور مبانی اسلام پر ایمان لاناکسی قسم کا بھی جبری پہلو نہیں رکھ سکتا، بلکہ ان امور کو منطق واستدلال اور افراد بشر کی فکروررح میں نفوذ کے طریق سے پیش رفت کرنا چاہئے، کیوں کہ جبری ایمان کی تو کوئی بھی قدروقیمت نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ لوگ حقائق کو سمجھیں اور اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ انھیں قبول کریں۔
قرآن نے بارہا مختلف آیات میں اس حقیقت پر تاکید کی ہے اور وہ ایسے سخت گیر اعمال سے جیسے کہ قرون وسطیٰ (3)میں کلیہ کے اعمال اور محکمہ تفتیش عقائد وغیرہ کے اعمال تھے اسلام کی بیگانگی کا اعلان کررہا ہے، اور انشاء للہ سورہٴ برائت کی ابتدا میں مشرکین کے مقابلہ میں اسلام کی سخت گیری کے علل واسباب کو زیر بحث لایا جائے گا۔
۱۰۸ وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَیَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اٴُمَّةٍ عَمَلَہُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ مَرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔
ترجمہ
۱۰۸۔ایسے لوگوں (کے معبود) کو جو خدا کے علاوہ کسی کو پکارتے ہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ (بھی) ظلم وجہالت کی وجہ خدا کو گالیاں دےنے لگ جائیں، ہم نے ہر امت کے لئے ان کے عمل کو اسی طرح زینت دی اس کے بعد ان کی بازگشت تو ان کے پروردگار کی طرف ہی ہے، اور وہ انھیں ان کے اس عمل سے جو وہ کیا کرتے تھے آگاہ کرے گا(اور اس کی جزا یا سزا دے گا) ۔

 

 

 

 
۱۔ ”نصرف“ ،”تصریف“ کے مادہ سے دگر گوں کرنے اور مختلف شکلوں میں لانے کے معنی میں ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کی آیات، مختلف لب ولہجہ، اور دل میں اترجانے والے تمام وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے، ایسے اشخاص کے لئے جو فکرعقیدہ اور تمام معاشرتی اور نفسیاتی پہلو سے مختلف سطح پر ہوتے ہیں، نازل ہوئی ہے۔
۲۔ لام”لیقولوا“، اصطلاح کے مطابق(لام عاقبت) ہے، جو کسی کے سرانجام اور عاقبت کے بیان کے لئے لایا جاتاہے، لیکن وہ اس کا اصلی ہدف نہیں ہوتا اور ”درست“ مادہ ”درس“ سے ، حاصل کرنے اور قبضے میں لینے کے معنی میں ہے، اور یہ ایک تہمت تھی جو مشرک پیغمبر اکرم پر لگایا کرتے تھے۔
لیکن ایک اور دوسرا گروہ کہ جو حق کو قبول کرنے کی آمادگی رکھتا ہے اور جس کے افراد صاحب بصیرت، عالم وآگاہ ہیں، وہ اس کے ذریعہ حقیقت کے چہرے کو دیکھ لیتے ہیں اور اسے قبول کرلیتے ہیں(وَلِنُبَیِّنَہُ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ )۔
3۔ قرون وسطیٰ: ایک ہزار سالہ دور کو کہتے ہیں جو چھٹی صدی عیسوی سے شروع ہوکر پندرہویں صدی عیسوی پر ختم ہوتا ہے، یہ زمانہ مغرب اور عیسائیت کا ایک تاریک ترین دور تھا، اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسلام کا سنہری دور ٹھیک قرون وسطیٰ کے وسط میں ہوا ہے۔
 
چند قابل توجہ نکاتتم مشرکین کے بتوں اور معبودوں کو کبھی گالیاں نہ دو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma