تمام چیزوں کا خالق وہی ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
وہی وہ ذات ہے کہ جس نے تمھیں ایک انسان سے پیدا کیا ہےچند قابل توجہ نکات

ان آیات میں مشرکین اور باطل مذہب رکھنے والوں کے کچھ غلط اور بیہودہ عقائد بیان کئے گئے ہیں اور ان کے منطقی جواب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے:وہ جنوں میں سے خدا کے لئے شرکاء کے قائل ہوگئے ہیں (وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَاءَ الْجِن)۔
اس بارے میں یہان پر جن سے مراد اس کا لغوی معنی یعنی جنس انسانی سے غائب اور پوشیدہ موجودات ہے یا خاص طور پر وہ جنات مراد ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن نے بارہا گفتگو کی ہے اور ہم اس کی طرف عنقریب اشارہ کریں گے، مفسرین نے اس سلسلہ میں دواحتمال بیان کئے ہیں۔
پہلے احتمال کی بنا پر ممکن ہے کہ آیت ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہو جو فرشتوں اور ہر دکھائی نہ دینے والی چیز کی پرستش کرتے تھے، لیکن دوسرے احتمال کی بنا پر آیت ان لوگوں کی طرف اشارہ کررہی ہے جو گروہ جنات کا خدا کا شریک یا اس کی بیوی سمجھتے تھے۔
”کلبی“ ”الاصنام“ میں نقل کرتے ہیں کہ عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلہ جا کا نام ”بنو طیح“ تھا کہ جو قبیلہ ”خزاعہ“ کی شاخ تھا جن کی پرستش کرتا تھا (۱) کہا جاتا ہے کہ ”جن“ کی عبادت اور اسکی الوہیت کا عقیدہ قدیم یونان اور ہندوستان کے بیہودہ اور فضول مذہب میں بھی پایا جاتا تھا (۲)۔
جیسا کہ سورہٴ صافات کی آیہ ۱۵۸ہے:
”وَجَعَلُوا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا“۔
”وہ خدا اور جنات کے درمیان رشتہ داری کے قائل ہوگئے تھے “۔
اس سے معلو م ہوتا ہے کہ عربوں کے درمیان کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو جنوں کی خدا کے ساتھ ایک قسم کی رشتہ داری کے قائل تھے۔
اور جیسا کہ بہت سے مفسرین نے نقل کیا ہے کہ قریش کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا نے جنیات کے ساتھ شادی کی ہے اور فرشتے اس شادی کا نتیجہ اور ثمر ہے۔(۳)
اس کے بعد اس فضول اور بیہودہ خیال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے :حالانکہ خدا نے تو انھیں (یعنی جنات کو) پیدا کیا ہے ( وَخَلَقَھم) یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کی مخلوق اسی کی شریک ہوجائے کیوں کہ شرکت ہم جنس اور ہم رتبہ ہونے کی علامت ہے حالانکہ مخلوق ہرگز خالق کی ہم پلہ نہیں ہوسکتی۔
دوسری بیہودہ بات یہ تھی کہ: وہ خدا کے لئے نادانی سے بیٹوں اور بیٹیوں کے قائل ہوگئے تھے ( وَخَرَقُوا لَہُ بَنِینَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ )۔
حقیقت میں ان بیہودہ عقائد کے باطل ہونے کی بہترین دلیل وہی ہے جو ”بغیر علم “ کے الفاظ سے معلوم ہوتی ہے یعنی کسی قسم کی کوئی دلیل اور نشانی ان خرافات وموہومات کے لئے ان کے پاس موجود نہ تھی۔
لائق توجہ بات یہ ہے کہ” خرقوا“ ”خرق“ (بروزن غرق) کے مادہ سے لیا گیا ہے، جو اصل میں کسی چیز کو بے سوچے سمجھے اور بلاوجہ پارہ پارہ کرنے کو کہتے ہیں ۔یہ لفظ ٹھیک لفظ ”خلق“ کے بالمقابل ہے جو کسی چیز کو سوچ سمجھ کر کسی حساب سے ایجاد کرنے کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ یہ دونوں لفظ(خلق اور خرق) کبھی کبھار گھڑے ہوئے اور جھوٹے مطالب کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ جھوٹ جو سوچ سمجھ کر کسی حساب سے گھڑے گئے ہوں وہ تو خلق واخلاق کہلاتے ہیں اور وہ جھوٹ جو بغیر کسی حساب اور اندازے کے اور اصطلاح کے مطابق شاخدار جھوٹ ہوں انھیں ”خرق واختراق “ کہا جاتا ہے۔
یعنی انھوں نے یہ جھوٹ اس کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کئے بغیر اور اس کے لوازم پر نظر کئے بغیر گھڑا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ وہ کونسے گروہ تھے جو خدا کے لئے بیٹوں کے قائل تھے، قرآن نے دوسری آیت میں دو گروہوں کے نام لئے ہیں ۔ایک عیسائی جو حضرت عیسیٰ - کے خدا کا بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور دوسری یہودی جو عزیر - کا خدا کا بیٹا سمجھتے تھے اور جیسا کہ سورہٴ توبہ کی آیہ ۳۰ سے اجمالی طور پر معلوم ہوتا ہے اور محققین معاصر کی ایک جماعت نے بھی عیسائیت اور بدھ مذہب کے مشترک اصولوں کو خصوصا مسئلہ تثلیث میں مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم کیا ہے کہ خدا کا بیٹا عیسائیوں اور یہودیوں میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ ان سے پہلے کے فضول وبیہودہ قسم کے مذاہب میں بھی موجود تھا۔
باقی رہا کہ بیٹیوں کے وجود کا عقیدہ تو خود قرآن نے دوسری آیات میں اس مطلب کو واضح کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ:
”وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَةَ الَّذِینَ ھُمْ عِبَادُ الرَّحْمَانِ إِنَاثًا “
”وہ فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں اس کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں“(زخرف: ۱۹)
جیسا کہ ہم سطور بالا میں بھی اشارہ کرچکے ہیں تفاسیر وتواریخ میں ہے کہ قریش کا ایک گروہ اس بات کا معتقد تھا کہ فرشتے خدا کی وہ اولاد ہیں جو خدا کی جنیات سے شادی کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آئے ہیں۔
لیکن اس آیت کے آخر میں قرآن نے ان بیہودہ مطالب اور موہوم وبے بنیاد خیالات پر قلم سرخ کھینچ دیا ہے اور ایک عمدہ اور بیدار کرنے والے جملے کے ساتھ ان تمام باطل باتوں کی نفی کردی ہے اور فرمایا ہے کہ: خدا (ان خرافات سے ) منزہ ہے اور ان اوصاف سے برتر وبالاتر ہے جو وہ اس کے لئے بیان کرتے ہیں (سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ )۔
بعد والی آیت میں ان بیہودہ عقائد کا جواب دیتے ہوئے پہلے کہا گیا ہے:خدا وہ ہستی ہے کہ جس نے آسمان اور زمین کو ایجاد کیا ہے

(بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ )۔
آیا کوئی اور بھی ایسا ہے کہ جس نے ایسا کام کیا ہو، یا ایسا کرنے کی قدرت ہی رکھتا ہو۔ جس کی بنا پر وہ عبودیت میں اس کا شریک سمجھا جائے؟ نہیں ! ایسا نہیں ہے، بلکہ سب اس کی مخلوق ہیں اور اسی کے تابع فرمان ہیں اور اسی کی ذات پاک کے سب محتاج ہیں۔
علاوہ ازایں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو جب کہ اس کہ بیوی ہی نہیں ہے(اٴَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُنْ لَہُ صَاحِبَةٌ)۔
اصولی طور پر اسے بیوی کی ضرورت ہی کیا ہے اور پھر یہ بات کس کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس کی (بیوی یا ) ہمسر ہوسکے جب کہ سب اس کی مخلوق ہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر اس کی ذات مقدس عوارض جسمانی سے پاک ومنزہ ہے اور بیوی اور اولاد کا ہونا واضح طور پر جسمانی اور مادی عوارض میں سے ہیں۔
دوسری مرتبہ پھر تمام چیزوں اور تمام افراد کے بارے میں اسی کے خالق ہونے اور ان تمام کے متعلق اس کے احاطہٴ علمی کو بیان کرتے ہوئے کہا گیاہے : اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ، اور وہ ہر چیز کا عالم( وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ )۔
تیسری زیر بحث آیت میں تمام چیزوں کا خالق ہونے، آسمان اور زمین کو ایجاد کرنے، اور اس عوارض جسم وجسمانی اور بیوی اور اولاد سے منزہ ہونے اور ہر کام اور ہر چیز پر اس کے احاطہ علمی کا ذکر ہونے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ”تمھارا خدا اور پروردگار ایسی ذات ہے اور چونکہ اور کوئی ان صفات کا حامل نہیں ہے لہٰذا اس کے سوا اور کوئی بھی عبودیت کے لائق نہیں ہوسکتا، پروردگار وہی اور خالق وآفریدگار بھی وہی ہے اس بنا پر معبود صرف وہی ہوسکتا ہے لہٰذا اسی کی پرستش وعبادت کرو(ذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ لاَإِلَہَ إِلاَّ ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوہُ )۔
آیت کے آخر میں اس مقصد کے پیش نظر اور اس غرض سے کہ غیر خدا سے ہرقسم کی امید کو قطع کردے اور ہر قسم کے شرک کی جڑ کو اور خدا کے سوا اور کسی پر بھی بھروسہ کرنے کو کلی طور پر ختم کردے قرآن کہتا ہے: اور وہی تمام چیزوں کا حافظ ونگہبان ومدبر ہے (وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ وَکِیلٌ )۔
اس بنا پر تمھارے مشکلات کے حل کی جابیاں صرف اسی کے ہاتھ میں اور اس کے سوا کوئی بھی شخص اس کام کی توانائی نہیں رکھتا، کیوںکہ اس کے سوا جو بھی ہیں وہ سب اس کے محتاج اور نیاز مند ہیں اور اس کے احسان کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو ان حالات میں کوئی وجہ نہیں کہ کوئی شخص اپنی مشکلات کسی اور کے پاس لے جائے اور اس کا حل اس سے چاہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں ”علی کل شیء وکیل“ کہا گیا ہے نہ ”لکل شیء وکیل“ اور ان دونوں کے درمیان فرق واضح ہے کیوں کہ لفظ ”علی“کاذکراس کے تسلط اور نفوذ امر کی دلیل ہے جب کہ لفظ” لام“ کا استعمال تابع ہونے کی نشانی ہے۔
دوسرے لفظوں میں تعبیر اولولایت اور حافظ ہونے کے معنی میں ہے اور دوسری تعبیر نمائندگی کے معنی میں ہے ۔
آخری زیر بحث میں تمام چیزوں پر اس کی حاکمیت اور نگہبانی کو ثابت کرنے کے لئے اور اسی طرح تمام موجودات سے اس کے فرق کو ثابت کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے:آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں لیکن وہ تمام آنکھوں کا ادراک کرتا ہے وہ طرح طرح کی نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے اور ہر چھوٹے سے چھوٹے کام سے باخبر اور آگاہ ہے، وہ بندوں کے مصالح کو جانتا ہے اور ان کی حاجات وضروریات سے باخبر ہے اور اپنے لطف کرم کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے

( لاَتُدْرِکُہُ الْاٴَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاٴَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیر)۔
حقیقت جو یہ چاہتا ہو کہ وہ تمام چیزوں کا محافط ومربی اور سہارا ہو اسے ان صفات کا حامل ہونا چاہیے۔
علاوہ از ایں یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تمام موجودات جہاں سے مختلف ومتفاوت ہے کیوں کہ ان میں سے کچھ چیزیں تو ایسی ہیں کہ جو دیکھتی بھی ہیں اور خود بھی دیکھی جاتی ہیں ، جیسے انسان ہے اورکچھ ایسی ہیں جو نہ خود دیکھتی ہیں اور نہ ہی دیکھی جاتی ہیں، جیسے ہمارے اندرونی صفات، اور بعض ایسی ہیں کہ جنھیں دیکھا تو جاسکتا ہے لیکن وہ کسی کو نہیں دیکھتیں ، جیسے جمادات، تنہا وہ ہستی ہے کہ جسے دیکھا تو نہیں جاسکتا لیکن وہ ہر چیز اور ہر شخص کو دیکھتی ہے صرف اسی کی ذات پاک ہے ۔

 


۱۔تفسیرفی ظلال، جلد سوم ، صفحہ ۳۲۶(پاورقی)(حاشیہ)-
۲۔ تفسیر المنار، جلدہشتم صفحہ ۶۴۸-
۳۔ تفسیر مجمع البیان اور دیگر تفاسیر زیر نظر آیہ کے ذیل میں-

 

وہی وہ ذات ہے کہ جس نے تمھیں ایک انسان سے پیدا کیا ہےچند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma