ایمان اور نور نظر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
شرک کے تمام آثار مٹ جانے چاہئیںخدا سب بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کوکہاں قراردے

ان کا قبل کی آیات کے ساتھ ربط اس لحاظ سے ہے کہ گذشتہ آیات میں دو گرہوں کی اشارہ ہے۔ مومن خالص اور ہٹ دھرم کافر جو صرف یہ کہ خود ایمان نہیں لاتا بلکہ دوسروں کوگمراہ کرنے کی سختی سے کوشش بھی کرتا ہے، یہاں بھی دوجالب اور عمدہ مثالیں ذکر کرکے ان دونوں گروہوں کی کیفیت کو مجسم کیا گیا ہے۔
پہلے ان افراد کو جو گمراہی میں تھے پھر انھون نے حق اور ایمان کو قبول کرکے اپنے راستے کو بدل لیا انھیں اس مردہ سے تشبیہ دی ہے کہ جو خدا کے ارادہ اور فرمان سے زندہ ہوگیا ہو (اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاہُ )۔
قرآن میں بارہا ”موت“اور ”حیات“ معنوی موت وحیات اور کفر ایمان کے معنی میں آئی ہے، اور تعبیر اس بات کی طرف اچھی طرح نشاندہی کرتی ہے کہ ایمان ایک خشک اور خالی عقیدہ یا کوئی تکلفاتی الفاظ نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ایسی روح کی مانند کہ جو بے ایمان افراد کے بے جان جسم میں پھونکی جاتی ہے اور وہ ان کے تمام وجود میں اثر کرتی ہے ، ان کی آنکھوں میں بینائی اور وشنی آجاتی ہے، ان کے کانوں میں سننے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے ، زبان میں طاقر گویائی اور ہاتھ پاؤں میں ہر قسم کے مثبت کام انجام دینے کی قدرت پیدا ہوجاتی ہے، ایمان افراد کو دگرگوں کردیتا ہے اور ان کی ساری زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے اورزندگی کے آثار کو ان کے تمام حالات زندگی میں آشکار وواضح کرتا ہے۔
”فاحییناہ“ (ہم نے اسے زندہ کیاہے ) کے حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اگر چہ خود انسان کی اپنی سعی وکوشش سے صورت پذیر ہونا چاہئے لیکن جب تک خدا کی طرف سے کشش نہ ہو یہ کوششیں انجام کو نہیں پہنچتی۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے: ہم نے ایسے افراد کے لئے نور قرار دیا ہے کہ جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلیں پھریں(وَجَعَلْنَا لَہُ نُورًا یَمْشِی بِہِ فِی النَّاسِ )۔
اگر چہ مفسرین نے اس بارے میں کئی احتمال ذکر کئے ہیں کہ اس ”نور“ سے کیا مراد ہے لیکن ظاہری طور پر اس سے صرف قرآن اور تعلیمات پیغمبر ہی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ خدا پر ایمان انسان کو نور بصیرت اور ایک نیا ادراک بخشتا ہے اور ایک خاص قسم کا نور بصیرت اس کا عطا کرتا ہے، اس کی نگاہ کے افق کق مادی محدود زندگی اور عالم مادی کی چہار دیواری سے نکال کر ایک بہت ہی وسیع عالم میں لے جاتا ہے۔
اور چونکہ وہ انسان کو خود سازی کی دعوت دیتا ہے تو خودخواہی، خود بینی، تعصب، ہٹ دھرمی اور ہوا ہوس کے پردے اس کی روح کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دیتا ہے اور وہ ایسے حقائق دیکھنے لگ جاتا ہے کہ جن کے ادراک کی اس سے قبل ہرگز قدرت نہیں رکھتا تھا۔
اس نور کے پرتو میں وہ لوگوں کے درمیان اپنی زندگی کی راہ تلاش کرسکتا ہے اور وہ بہت سے ایسے اشتباہات سے کہ جن میں دوسرے لوگ طمع اور لالچ کی خاطر اور مادی محدود ففکر کی وجہ سے یا خود خواہی اور ہوا وہوس کے غلبہ کے باعث گرفتار ہوجاتے ہیں مامون ومحفوظ رہ جاتا ہے ۔ نیز یہ جو اسلامی رویات میں ہے کہ:
”اٴلْمُومِنُ یَنْظُرُ بِنُورِاللّٰہِ“
”مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے“۔
یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔اگرچہ ان تمام باتوں کے باوجود اس خاص نور کی کہ جو صاحب ایمان انسان میں پیدا ہوجاتا ہے بیان وقلم سے پھر بھی توصیف نہیں کرسکتے۔ بلکہ اس کا ذائقہ چکھنا چاہئے اور اس کے وجود کو محسوس کرنا چاہئے ۔
اس کے بعد ایسے زندہ، فعال، نورانی اور موثر افرا د کا ہٹ دھرم بے ایمان افراد کے ساتھ مقابلہ وموازنہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: کیا ایسا شخص اس شخص کی مانند ہے کہ جو ظلمتوں اور تاریکیوں کی امواج میں ڈوبا ہوا ہے اور ہر گز اس سے باہر نہیں نکل سکتا(کَمَنْ مَثَلُہُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْہَا )۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ نہیں کہتا کہ ”کمن فی الظلمات“ (اس شخص کی طرح جو ظلمات میں ہے) بلکہ یوں کہتا ہے”کمن مثلہ فی الظلمات“ اس شخص کی طرح کہ جس مثل ظلمات ہیں ۔ بعض نے کہا کہ اس تعبیر سے ہدف ومقصد یہ تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اس قسم کے افراد اس قدر تاریکی اور بد بختی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان کی وضع وکیفیت ایک ضرب المثل بن گئی ہے کہ جس سے تمام باسمجھ افراد آگاہ ہیں۔
لیکن ممکن ہے یہ تعبیر ایک لطیف تر معنی کی طرف اشارہ ہو اور وہ یہ کہ: ایسے افراد کی ہستی اور وجود سے حقیقت میں ایک قالب اور ایک مجسمہ کے سو کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے، وہ ایک ایسا ہیکل رکھتے ہیں کہ جو روح کے بغیر ہے اور ایسا دماغ اور فکر رکھتے ہیں جو بیکار ہوچکی ہے۔
اس نکتہ کی یاددہانی بھی لازمی ہے کہ مومن کا راہنما”نور“ (صیغہ مفرد کے ساتھ) اور کفار کا محیط”ظلمات“( صیغہ جمع کے ساتھ) بیان کیا گیا ہے ، کیوں کہ ایمان صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وحدت وویگانگی کی رمز ہے اور کفر وبے ایمانی ، پراگندگی وتفرقہ اور پھوٹ کا سرچشمہ ہے۔
آیت کے آخر میں اس بد بختی کی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: کفار کے اعمال کوان کی نظروں میں اسی طرح زینت دے دی گئی ہے

(کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں یہ برے عمل کے تکرار کی خاصیت ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی برائی نظر میں کم ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اس کی نظروں میں ایک اچھا کام معلوم ہونے لگتا ہے او ر ایک زنجیر کی مانند اس کے ہاتھ پاؤں میں پڑ جاتا ہے اور اپنے جال سے نکلنے کی اسے اجازت نہیں دیتا، تباہ کاروں کے حالات کا ایک سرسری مطالعہ اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کردیتا ہے۔
اور چونکہ منفی جہت سے ایک ماجرے کاہیرو ابوجہل تھا اور وہ مشرکین مکہ اور قریش کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا لہٰذا دوسری آیت میں ان گمراہ رہبروں اور کفر وفساد کے زعما کی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ہم نے ہر شہر اور آبادی میں اسی طرح سے ایسے بڑے بڑے لوگ قراردئے ہیں کہ جنھوں نے گناہ کا راستہ اختیار کرلیا اور مکروفریب اور دھوکا بازی کے ذریعے لوگوں کو راستے سے منحرف کردیا(وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَةٍ اٴَکَابِرَ مُجْرِمِیہَا لِیَمْکُرُوا فِیہَا)۔
ہم نے بارہا یہ کہا ہے اس قسم کے افعال کی خدا کی طرف نسبت اس بنا پر ہے کہ وہ مسبب الاسباب اور تمام قدرتوں کا سرچشمہ ہے اور جو شخص جس کام کو سر انجام دیتا ہے وہ ان امکانات ووسائل کے ساتھ سرانجام دیتا ہے کہ جو خدا نے اس کے اختیار میں دئے ہیں ۔ اگرچہ کچھ لوگ اس سے اچھا فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض لوگ ان ہی وسائل سے برے کام انجام دیتے ہیں۔
”لیمکروا“ (تاکہ وہ مکروفریب کو کام میں لائیں) کا معنی ان کے سرانجام کے معنی میں ہے۔ یہ ان کی خلقت کا ہدف نہیں ہے (۱)یعنی نافرمانی اور بکثرت گناہوں کا انجام یہ ہوا کہ وہ راہ حق کے رہزن بن گئے اور بندگان خدا کو راہ سے منحرف کردیا۔ کیوں کہ ”مکر“ اصل میں گرم کرنے اور مروڑنے کے معنی مین بعد ازاں ہر اس انحرافی کام کے لئے جو مخفیانہ اور چھپ کر کیا جائے استعمال ہونے لگا۔
آیت کے آخر میں کہا گیا ہے: وہ اپنے سوا کسی کو بھی فریب اور دھوکا نہیں دیتے، لیکن وہ سمجھتے نہیں ہیں اور متوجہ نہیں ہیں

( وَمَا یَمْکُرُونَ إِلاَّ بِاٴَنفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُونََ)۔
اس سے بڑھ کر اور کیا مکروفریب ہوگا کہ وہ اپنے وجود کا تمام سرمایہ چاہے وہ فکر ،ہوش، عقل، عمر اور وقت ہو یا مال دولت ایسی راہ میں استعمال کرتے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ ان کے لئے سود مند نہیں بلکہ ان کی پشت کو بار مسئولیت اور گناہ سے بھی بوجھل کردیتا ہے جب کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے ہیں۔
ضمنی طور پر اس آیت سے بھی اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ مفاسد اور بد بختیاں جو معاشرے کو دامن گیر ہوتی ہیں ان کا سر چشمہ قوموں کے بڑے اور سردار ہی ہوتے ہیں اور وہی لوگ ہوتے ہیں جو قسم قسم کے حیلوں اور فریب کاریوں کے ذریعہ راہ حق کو دگرگوں کر کے حق کے چہرے کولوگوں پر پوشیدہ کردیتے ہیں۔
 

۱۲۴ وَإِذَا جَائَتْہُمْ آیَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّی نُؤْتَی مِثْلَ مَا اٴُوتِیَ رُسُلُ اللهِ اللهُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ سَیُصِیبُ الَّذِینَ اٴَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا کَانُوا یَمْکُرُونَ ۔
ترجمہ
۱۲۴۔ اور جس وقت کوئی آیت ان کے لئے آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمیں بھی ویسی ہی چیز نہ دکھائی جائے جیسی کہ خدا کے پیغمبروں کو دی گئی ہے،۔خدا ہی بہتر طور پر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے، وہ لوگ جو گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں (اور انھوں نے اپنی حیثیت ومقام کو بچانے کے لئے لوگوں کو راہ حق سے منحرف کیا ہے ) وہ بہت جلدی اپنے مکر( اور فریب اور چالبازی) کے بدلے میں جو وہ کیا کرتے تھے، بارگاہ خدا وندی میں ذلیل ہوں گے اور عذاب شدید میں گرفتار ہوں گے۔

شان نزول

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں (کہ جو بت پرستوں کے مشہور سرداروں میں سے تھااور اصطلاح کے مطابق ان کا دماغ سمجھا جاتا تھا) نازل ہوئی ہے۔ وہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے کہتا تھا کہ اگر نبوت سچی بات ہے تو میں یہ مقام حاصل کرنے کا آپ سے زیادہ حقدار ہون ، کیون کہ ایک تو میرا سن آپ سے زیادہ ہے اور دوسرے میرے پاس مال ودولت بھی آپ سے زیادہ ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ کیوں کہ وہ خیال کرتا تھا کہ مسئلہ نبو ت بھی رقابتوں کا مرکز بنے ، وہ کہتا تھا کہ ہم اور قبیلہ بنی عبد مناف (پیغمبر کا قبیلہ) ہر چیز میں ایک دوسرے کے رقیب تھے اور گھوڑ دوڑکے دو گھوڑوں کی طرح ایک دوسروں کے دوش بدوش جارہے تھے یہاں تک کہ انھوں نے یہ دعوی کردیا کہ ہمارے درمیان میں سے ایک پیغمبر مبعوث ہوا ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے لیکن یہ بات ممکن نہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئےں مگر یہ کہ ہم پر بھی وحی اترے جس طرح اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔

 


۱۔ اصطلاح کے مطابق ”لام“ غایت کا”لام“ ہے بلکہ عاقبت کا لام ہے کہ جس کے قرآن میںمتعدد نمونے موجود ہیں۔
 
شرک کے تمام آثار مٹ جانے چاہئیںخدا سب بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کوکہاں قراردے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma