چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
فطری توحیدنصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجام

۱۔ جواستدلال اوپر کی دوآیات میںنظر آتا ہے وہی توحید فطری والااستدلال ہے کہ جس سے دو مباحث میں استفادہ کیا جاسکتا ہے ،ایک خدا کے اصل وجود کے اثبات میں اور دوسرا اس کی یگانگت اور توحید ثابت کرنے میں، اسی لئے اسلامی روایات میں اور اسی طرح علماء کے کلام میں منکرین خدا کے مقابلے میں بھی اور مشرکین کے ،مقابلے میں بھی استدلال کیا گیا ہے ۔
۲۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ اوپر والے استدلال میں قیامت کے برپا ہونے کی بات درمیان میں آئی ہے، حالانکہ ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ تو اس قسم کے دن کو بالکل قبول ہی نہیں کرتے تھے، اس بنا پر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کے سامنے اس قسم کا استدلال پیش کیا جائے ۔
لیکن اس حقیقت پر توجہ کرنا چاہئے کہ پہلے تو وہ سب قیامت کے منکر نہیں تھے بلکہ ان میں سے ایک گروہ ایک طرح سے قیامت کا اعتقاد رکھتا تھا، دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ”ساعة“ سے مراد ہی موت کی گھڑی یا وحشتناک حوادث کی گھڑی ہو جو انسان کو موت کی چھوکھٹ تک لے جاتی ہے، تیسری بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ تعبیر ہولناک حوادث کی طرف اشارہ ہو کیوں کہ قرآنی آیات بار بار کہتی ہے کہ قیامت کی ابتدا بہت ہی ہولناک حوادث کے سلسلہ کے ساتھ شروع ہوگی اور زلزلے، طوفان، بجلیاں او ایسی ہی دوسری ناگہانی آفتیں اس وقت وقوع پذیر ہوں گی ۔
۳۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ قیامت کا دن اور اس سے قبل کے حوادث حتمی اور یقینی مسائل میں سے ہیں اور کسی طرح بھی قابل تغیر نہیں ہیں تو پھر اوپر والی آیت میں یہ کیوں کہا گیا ہے :اگر خدا چاہے تو اسے برطرف کردے گا، کیا اس سے صرف پروردگار عالم کی قدرت کا بیان کرنا مقصود ہے یا کوئی اور معنی مراد ہے ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ خدا ان کی دعا سے اصل قیام ساعة اور روز قیامت کو ہی ختم کردے گا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مشرکین بلکہ غیر مشرکین بھی جب قیامت کے روبرو ہوں گے تو اس کے حوادث ومشکلات اور اس کے سخت تریں عذاب سے جو انھیں درپیش ہوگا، وحشت اور پریشانی میں ہوں گے اور خدا سے درخواست کریں گے کہ وہ اس کیفیت اور حالت کو ان کے لئے آسان کردے اور انھیں خطرات سے رہائی بخشے، تو حقیقت میں یہ دعا دردناک حوادث سے اپنے آپ کی نجات کے لئے ہے نہ کہ قیامت کےختم ہوجانے کی دعا ۔
۴۲وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا إِلَی اٴُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاٴَخَذْنَاہُمْ بِالْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُونَ۔
۴۳ فَلَوْلاَإِذْ جَائَھُمْ بَاٴْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَکِنْ قَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمْ الشَّیْطَانُ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔
۴۴ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اٴَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا اٴُوتُوا اٴَخَذْنَاھُمْ بَغْتَةً فَإِذَا ھُمْ مُبْلِسُونَ۔
۴۵فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔
ترجمہ
۴۲۔ہم نے ان امتوں پر جو تم سے پہلے تھیں (پیغمبر بھیجے اور جب وہ ان کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے) تو ہم نے انھیں شدت وتکلیف اور رنج وبے آرامی میں مبتلا کردیا کہ شاید (وہ بیدار ہوجائیں اور حق کے سامنے ) سرتسلیم خم کردیں ۔
۴۳۔جب ہمارا عذاب ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے (خضوع کیوں نہیں کیا ؟) اور سرتسلیم کیوں خم نہ کیا؟، لیکن ان کے دل سخت ہوں گے اور شیطان نے ہر اس کام کو جو وہ کرتے تھے ان کی نظروں میں پسندیدہ کرکے دکھاےا ۔
۴۴۔ جب (نصیحتوں نے کوئی فائدہ نہ دیا اور ) جو کچھ یا ددہانی کرائی گئی تھی وہ اسے بھول گئے تو ہم نے (نعمتوں میں سے) تمام چیزوں کے دروازے ان کے لئے کھول دئےے یہاںتک کہ وہ (مکمل طور پر) خوشحال ہوگئے( اور انھوں نے ان کے ساتھ دل لگا لیا ) تو ہم نے یکا یک انھیں دھر پکڑا(اور سخت سزا دی) تو اس وقت وہ سب کے سب مایوس ہوگئے( اور امید کے تمام دروازے ان پر بند ہوگئے) ۔
۴۵۔اور (اس طرح سے ) جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا( اور ان کی نسل منقطع ہوگئی) اور حمد مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو عالمین کا پروردگار ہے ۔


 
۱۔ جیسا کہ عربی ادب کے علماء نے تصریح کی ہے کہ ”ک“ اریتک“ میں اور ”کم“ اراٴیتکم“ میں نہ اسم ہے نہ ضمیر بلکہ صرف خطاب ہے، جو حقیقت میں تاکید کے لئے آتا ہے، ایسے موقع پر عام طور پر فعل مفرد کی شکل میں آتا ہے اور اس کا مفرد ، تثنیہ اور جمع ہونا اسی حرف خطاب کی تغیرات سے ظاہر ہوتا ہے، اسی لئے ”اراٴیتکم“ میں باوجود یہ کہ مخاطب جمع ہے فعل ”رئیت“مفرد لا یا گیا ہے اور اس کا جمع ہونا ”کم“ سے جو کہ حرف خطاب ہے سمجھا گیا ہے، ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ یہ لفظ معنی کے لحاظ سے مساوی ہے ”اخبرنی“ یا اخبرونی“ کے لیکن حق یہ ہے کہ یہ لفظ اپنے استفہامی معنی کی مکمل حفاظت کرتا ہے اور ”اخبرونی“ اس کے معنی کا لازمہ ہے نہ کہ خود اس کے معنی ہے(غور کیجئے گا)
فطری توحیدنصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma