ہم نے اپنی نشانیاں اور دلائل اہلِ فکر ونظر اور اہل فہم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
طلوعِ صبح کرنے والاوہی وہ ذات ہے کہ جس نے تمھیں ایک انسان سے پیدا کیا ہے

گذشتہ آیت کے بعد آفتاب وماہتاب کی گردش کی طرف اشارہ ہوا تھا، یہاں پروردگار کی ایک اور نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہی ہے وہ ذات کہ جس نے تمھار ے لیے ستارے قرار دیئے ہیں تاکہ تم ان کے ذریعے صحرا اور دریا کی تاریکی میں اپنے راستوں کو اندھیری راتوں میں پالو:
”وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ النُّجُومَ لِتَہْتَدُوا بِہَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ“
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: ہم نے اپنی نشانیاں اور دلائل اہلِ فکر ونظر اور اہل فہم وفراست کے لیے کھول کر بیان کردی ہیں ( قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ)۔
انسان ہزار سال سے آسمان کے ستاروں اور ان کے نظام سے آشنا ہے۔ اگرچہ جس قدر انسانی علم ودانش بڑھتا جارہا ہے اسی قدر وہ اس نظام کی گہرائی میں زیادہ داخل ہوتا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ ہر زمانے میں اسی کی وضع وکیفیت سے کم وبیش آشنا تھا۔ لہٰذا دریائی اور خشکی کے سفروں میں سمت کے تعین کا بہترین ذریعہ یہی ستارے تھے۔
خصوصاً وسیع وعریض سمندروں میں جہاں راستے اور منزل کے تعین کی کوئی نشانی اس کے پاس نہ ہوتی تھی، قطب نما بھی اُس زمانے میں ایجاد نہیں ہوا تھا، آسمانی ستاروں کے سوا اور کوئی قابلِ اعتماد ذریعہ بھی موجود نہیں تھا۔ یہی ستارے تھے جو لاکھوں کروڑوں انسانوں کو گمراہی اور غرقاب سے نجات دیتے تھے اور انھیں منزل مقصود تک پہنچاتے تھے۔
صفحہٴ آسمان پر چند رات پے درپے متواتر نگاہ کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ستاروں کی حالت وکیفیت ہر مقام پر ایک ہی جیسی ہے گویا کہ ستارے موتیوں کے دانوں کی طرح ہیں کہ جو ایک سیاہ کپڑے کے اُوپر ٹکے ہوئے ہیں اور آغاز شب سے ہی اس کپڑے کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف کھینچ دیا جاتا ہے اور وہ سب کے سب اس کے ساتھ حرکت کررہے ہیں اور زمین کے محور کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جب کہ ان کے درمیانی فاصلوں میں بھی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ صرف ایک استثنا جو اس قانون کلی میں دکھائی دیتا ہے یہ ہے کہ کچھ ستارے ایسے بھی ہیں کہ جنھیں سیارہ کہتے ہیں اور ان کی اپنی مستقل اور مخصوص حرکات ہیں اور ان کی تعداد ۸ سے زیادہ نہیں ہے۔ ان میں سے ۶ آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں (عطارد، زہرہ، زحل، مریخ اور مشتری) لیکن باقی تین سیاروں (اورانوس، نپٹون اور پلوٹون) کو صرف دوربین کے ساتھ ہی دیکھا جاسکتا ہے (البتہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زمین بھی ایک سیارہ ہی ہے جو آفتاب کے گرد گردش کرتی ہے تو ان کی مجموعی تعداد ۹ تک پہنچ جاتی ہے)۔
شاید قبل از تاریخ کے انسان بھی ”ثوابت“‘ اور ”سیارات“ کی وضع سے آشنا تھے کیونکہ انسان کے لیے تاریک اور ستاروں بھری رات میں آسمان سے زیادہ دل لبھانے والا اور جاذب نظر کوئی منظر نہیں ہے۔ اسی بناپر بعید نہیں ہے کہ وہ بھی اپنے راستوں کو معلوم کرنے کے لیے ستاروں سے استفادہ کرتے ہوں۔
بعض روایات سے جو اہلِ بیت علیہم السلام کے طریق سے وارد ہوئی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت کی ایک اور تفسیر بھیہے اور وہ یہ ہے ہے کہ ستاروں سے مراد خدائی رہبر اور ہادیانِ راہ سعادت یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کہ جن کے وسیلہ سے لوگ زندگی کی تاریکیوں میں گمراہی سے نجات پاتے ہیں اور جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس قسم ی معنوی تفسیر آیت کی ظاہری اور جسمانی تفسیر کے منافی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ آیت کی نظر دونوں ہی باتوں کی طرف ہو(۱)


۹۸ وَہُوَ الَّذِی اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَہُونَ-
۹۹وَہُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِہِ فَاٴَخْرَجْنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَاٴَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُتَرَاکِبًا وَمِنْ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَغَیْرَ مُتَشَابِہٍ انظُرُوا إِلَی ثَمَرِہِ إِذَا اٴَثْمَرَ وَیَنْعِہِ إِنَّ فِی ذَلِکُمْ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ-
ترجمہ
۹۸۔ اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا حالانکہ بعض انسان پائیدار ہیں (ایمان یا خلقت کامل کے لحاظ سے) اور بعض ناپائیدار ہم نے اپنی آیات اُن لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں بیان کردی ہیں۔
۹۹۔ اور وہی وہ ذات ہے کہ جس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس کے ذریعے طرح طرح کے نباتات اُگائے ۔ اُن سے سبز تنے اور شاخیں نکالیں اور اُن سے ترتیب کے ساتھ چنے ہوئے دانے اور کجھور کے گچھوں سے باریک دھاگوں کے ساتھ جُڑے ہوئے خوشے باہر نکالے اور طرح طرح کے انگور، زیتون اور انار کے باغ (پیدا کئے) جو ایک دوسرے سے مشابہ بھی ہی اور (بعض) غیر مشابہ (ہیں) جب اُن میں پھل آتا ہے تو تم اُس میں پھل لگنے اور اُس کے پکنے کی طرف نگاہ کرو کہ اس میں صاحبانِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں۔


 
۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۷۵۰-
طلوعِ صبح کرنے والاوہی وہ ذات ہے کہ جس نے تمھیں ایک انسان سے پیدا کیا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma