اس آیت میں مشرکین کی ایک اور بہانہ جوئی کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انھیں توقع تھی کہ پیغمبر فقیر طبقے کے مقابلے میں ثروت مندوں کے لئے امتیاز کے قائل ہوجائیں گے اور ان کا خیال تھا کہ ان اصحاب پیغمبر کے پاس بیٹھنا اور ان کے لئے عیب اور بہت بڑا نقص ہے حالانکہ وہ اس بات سے غافل تھے کہ اسلام آیا ہی اس لئے ہے کہ وہ اس قسم کے لغو اور بے بنیاد امتیازات کو ختم کردے، اسی لئے وہ اس تجویز پر بہت مصر تھے،کہ پیغمبر اس گروہ کو اپنے قرب سے دور کریں لیکن قرآن صراحت کے ساتھ اور وزنی دلائل پیش کرکے ان کی تجویز کی نفی کرتا ہے، پہلے کہتا ہے :ان اشخاص کو کہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور سوائے اس کی ذات پاک کے ان کی نظر کسی پر نہیں ہے انھیں ہرگز اپنے سے دور نہ کرنا
(لاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْھَہُ ) (۱) ۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہاں بجائے اس کے کہ ان اشخاص کا نام یا عنوان ذکر کیا جاتا صرف اس صفت کے ذکر کرنے پر قناعت ہوئی ہے کہ وہ صبح اور شام ۔ اور دوسرے لفظوں میں ہمیشہ۔ خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں اور یہ عبادت وپرستش اور پروردگار کی طرف توجہ نہ تو کسی اورغرض کے لئے ہے اور نہ ریاکاری سے بلکہ (ان کی یہ عبادت) صرف اس کی ذات پاک کے لئے ہے، وہ اسے صرف ، خود اسی کی خاطر چاہتے ہیں اور اس کے پاس ہیں اور کوئی امتیاز اس امتیاز کی برابری نہیں کرسکتا ۔
قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ثروت مند اور خود پسند مشرکین کی طرف سے یہ پہلی اور آخری بار نہ تھا کہ انھوں نے پیغمبر کو ایسی تجویز پیش ہو بلکہ وہ بار ہا ایسا اعتراض کرچکے تھے کہ پیغمبر نے کچھ بیکس وبینوا افراد کو اپنے گرد کیوں جمع کرلیا ہے اور ان کا یہ اصرا رتھا کہ آپ انھیں اپنے پاس سے چلتا کردیں ۔
حقیقت میں یہ لوگ ایک پرانی غلط روایت کی بنا پر سمجھتے تھے کہ افراد میں امتیاز دولت وثروت کے سبب سے ہوتا ہے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ معاشرے کے طبقات جو ثروت کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں اہ محفوظ رہنے چاہیئں اور ہر وہ دین اور ہر وہ دعوت جو طبقاتی زندگی کو ختم کرنا چاہے اور ان امتیازات کو نظر انداز کرے اور ان کی نظر میں مطرود اور ناقابل قبول ہے ۔
ہم حضرت نوح علیہ السلام کے حالات میں بھی پڑھتے ہیں کے ان کے زمانے کے ”بڑے آدمی“ ان سے یہ کہتے تھے:
وما نراک اتبعک الا الذین ھم ارازلنا بادی الراٴی
ہم نہیں دیکھتے کہ کسی نے تمھاری پیروی کی ہو سوائے ان لوگوں کے جو ہم میں سے فرو مایہ اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ( ھود آیہ ۲۷) ۔
اور وہ اسے ان کی رسالت کے باطل ہونے کی دلیل سمجھتے تھے ۔
ایک نشانی اسلام اور قرآن کی عظمت کی بلکہ کلی طور پر انبیاء کی عظمت کی یہ ہے کہ ان سے جتنی سختی کے ساتھ ہو سکتا تھا اس قسم کی سوچوں کا مقابلہ کیا اور ایسے معاشروں میں کہ جن میں طبقاتی اختلاف ایک دائمی مسئلہ شمار ہوتا تھا، ایک موہوم امتیاز کو کچلنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلمان، ابو ذر، صہیب، خباب اور بلال جیسے پاک دل غلام، صاحب ایمان اور عقلمند افراد میں مال ودولت نہ رکھنے کے باوجود معمولی سی بھی کمزوری اور نقص نہیں ہے اور بے مغز ، کور دل، خود خواہ اور متکبر ثروت مند اپنی دولت وثروت کی وجہ سے اجتماعی اور معنوی امتیازات سے بہرہ اندوز نہیں ہوسکتے ۔
بعد والے جملے میں فرمایا گیا ہے: کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے صاحبان ایمان کو تو اپنے سے دور کرے نہ ان کا حساب تیرے اوپر اور نہ تیرا حساب ان کے اوپر ہے (مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِنْ شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِنْ شَیْءٍ) اس کے با وجود اگر تم ان کو اپنے سے دور کرو گے تو ستمگروں اور ظالموں میں سے ہوجاؤ گے( فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) ۔
اس کے بارے میں کہ یہاں پر حساب سے کونسا حساب مراد ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا احتمال ہے کہ اس سے مراد ان کی روزی کا حساب ہے ۔
یعنی اگر ان کا ہاتھ مال دولت سے خالی ہے تو وہ تمھارے کندھے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتے کیوں کہ ان کی روزی کا حساب تو اللہ پر ہے، جیسا کہ تم بھی اپنی زندگی کا بوجھ ان پر نہیں ڈالتے ، اور تمھاری روزی کا حساب ان پر نہیں ہے ۔
ابھی ہم وضاحت کریں گے یہ احتمال بعید نظر آتا ہے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ حساب سے مراد عمل کا حساب ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ خدا وند تعالیٰ یہ کس طرح فرماتا ہے کہ ان کے اعمال کا حساب تم پر نہیں ہے حالانکہ ان کا کوئی برا عمل نہیں تھا کہ ایسی بات کرنا ضروری ہوتا، یہ اس بنا پر ہے کہ مشرکین اصحاب پیغمبر میں سے فقراء کو مال ثروت نہ ہونے کی وجہ سے خدا سے دور سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ان کے اعمال خدا کے ہاں قابل قبول ہوتے تو پھر انھیں زندگی کے لحاظ سے خوش حال کیوں نہیں بنا یا گیا، علاوہ ازایں وہ انھیں اس بات سے متہم کرتے تھے کہ شاید ان کا ایمان لانا زندگی کی اصلاح اور روٹی پانی کے حصول کے لئے تھا ۔
قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ فرض کرو کہ وہ ایسے ہی ہو ں، لیکن ان کا حساب توخدا کے ساتھ ہے، صرف اس بات پر کہ وہ ایمان لے آئیں اور مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں، کسی قیمت پر انھیں دھتکارا نہیںجا نا چاہئے اور اس طرح سے امراء قریش کی بہانہ جوئیوں پر گرفت کی گئی ہے ۔
شاید یہ تفسیر وہی کہ کہ جو حضرت نوح (علیه السلام) کی داستان میں بیان ہوئی ہے جو اشراف قریش کی داستان کے مشابہ ہے، جہاں قوم نوح آپ سے کہتی ہے:
انوٴ من لک واتبعک الا رذلون
کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں؟ حالانکہ بے وقعت افراد نے تیری پیروی کی ہے ۔
حضرت نوح (علیه السلام) ان کے جواب میں کہتے ہیں:
وما علمی مماکانوا یعلمون ان حسابھم الاعلی ربی لو تشعرون وما انا بطاردالمومنین
مجھے ان کے اعمال کی کیا خبر ہے، ان کے اعمال کا حساب تو اللہ پر ہے اگر تم جانو اور جنھوں نے ایمان کا اظہار کیا ہے میں انھیں اپنے سے دور نہیں کرسکتا (2) ۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر کی ذمہ داری یہ ہے کہ بغیر فرق وامتیاز کے جو شخص بھی ایمان کا اظہار کرے خواہ وہ کسی بھی قوم ، قبیلہ اور طبقہ سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو اسے قبول کر لے چہ جائیکہ وہ پاک دل اور صاحب ایمان افراد ہوں کہ جو خدا کے سوا کسی کے جویا نہیں ہیں اور ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ ان کا ہاتھ مال و ثروت سے خالی ہے اوروہ اشراف کی نکبت بار زندگی میں آلودہ نہیں ہیں ۔