عددی اکثریت کچھ اہمیت نہیں رکھتی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے شرک کے تمام آثار مٹ جانے چاہئیں

بعض لوگوں کی نظر میں یہ بات مسلم ہے کہ عددی اکثریتیں ہمیشہ صحیح راستہ پر گامزن ہوتی ہیں لیکن قرآن کے برخلاف متعدد اایات میں اس کی نفی کرتا ہے اور وہ عددی اکثریت کے لئے کسی اہمیت کا قائل نہیں ہے اور حقیقت میں وہ اکثریت ”کیفی“ کو معیار سمجھتا ہے نہ کہ اکثریت ”کمی“ کو، اس امر کی دلیل واضح ہے، کیون کہ آج کے معاشروں میں اگر چہ معاشرے کے امور میں لوگوں کو اکثریت پر بھروسہ کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں سوجھا لیکن یہ بات بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ بات جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ایک طرح سے مجبوری کے باعث قبول کرنا پڑتی ہے، کیوں کہ ایک مادی معاشرے میں اصلاحات کرنے اور درست قوانین بنانے کا کوئی ایسا ضابطہ موجود نہیں جو اشکال اور عیب سے خالی ہو، لہٰذا بہت سے علماء اور ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے ساتھ کہ افراد معاشرہ کی اکثریت کی نظر اکثر اوقات اشتباہ آمیز ہوتی ہے اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیوں کہ دوسرے راستوں کے عیوب اس سے زیادہ ہیں ۔
لیکن ایک ایسا معاشرہ جو انبیاء علیہم السلام کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو وہ قوانین کے نفاذاورپرپا کرنے کے لئے اکثریت کی پیروی کی کوئی مجبوری نہیں رکھتا، کیون کے سچے انبیاء کے پروگرام اور قوانین ہر قسم کے نقص، عیب اور اشتباہ سے خالی ہوتے ہیں اور جن قوانین کی جائز الخطا اکثریت تصویب وتصدیق کرتی ہے ان کا ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
آج کی دنیا کے چہرے پر ایک نظر ڈالنے اور ان حکومتوں پر جو اکثریت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے نظر کرنے اور ان نادرست اور ہوس آمیز قوانین کو جو بعض اوقات اکثریتوں کی طرف تائید وتصویب شدہ ہوتے ہیں دیکھنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اکثریت عددی نے کسی درد کی دوا نہیں کی ہے، بہت سی جنگوں کی اکثریت نے ہی تصویب کی تھی اور بہت سے مفاسد کو اکثریت نے ہی چاہاتھا۔
استعمار واستثمار، جنگیں اور خونریزیاں، شراب نوشی کی آزادی، خمار بازی، اسقاط حمل، فحشاء ومنکر یہاں تک کہ بعض ایسے قبیح وشنیع افعال کے جن کا ذکر باعث شرم ہے بہت سے ایسے ممالک جو اصطلاح میں ترقی یافتہ کہلاتے ہیں کے نمائندوں کی اکثریت کی طرف سے ہے جو ان ممالک کے عوام کی اکثریت کے نظریہ کو منعکس کرتے تھے اس حقیقت پر گواہ ہیں ۔
علمی نکتہ نظر سے کیا عوام کی اکثریت سچ ہی بولتی ہے ؟کیا اکثریت امین ہوتی ہے؟کیا اکثریت دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے سے اگر وہ کرسکے تو اجتناب کرتی ہے؟کیا اکثریت اپنے اور دوسروں کے منافع کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے؟ ۔
ان سوالات کے جواب بغیر کہے ظاہر ہیں، اس بنا پر اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ آج کی دنیا کا اکثریت پر اعتبار اور بھروسہ کرنا حقیقت میں ایک قسم کی مجبوری اور ماحول کی ضرورت ہے اور ایک ایسی ہڈی ہے جو معاشروں کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے۔
ہاں انسانی معاشروں کے صاحبان فکرو نظر اور دلسوز مصلحین اور بامقصد سوچ رکھنے والے جو ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں اگر عوام الناس کو روشنی بخشنے کے لئے ہمہ جہتی تلاش وکوشش کریں اور انسانی معاشرے کافی حد تک فکری ، اخلاقی اور اجتماعی رشد پالیں تو مسلمہ طور پر اس قسم کی اکثریت کی نظریات حقیقت کے بہت قریب ہوں گے، لیکن غیر رشیداور نا آگاہ یا فاسد ، منحرف اور گمراہ اکثریت کون سی مشکل اپنے اور دوسروں کے راستوں سے ہٹا سکے گی ، اس بنا پر محض اکثریت اکیلی کافی نہیں ہے بلکہ صرف وہی اکثریت کہ جو ہدایت یافتہ ہو اپنے معاشرے کی مشکلات کو اس حد تک کہ جو امکان بشر میں ہے حل کرسکتی ۔
اگر قرآن مختلف آیات میں اکثریت کے بارے میں اعتراض کرتا ہے تو اس میں شک نہیں ہے کہ اس کی مراد ایسی اکثریت ہے کہ جو غیر رشید ہو اور ہدایت یافتہ نہ ہو۔

۱۱۸ فَکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ إِنْ کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِینَ ۔
۱۱۹ وَمَا لَکُمْ اٴَلاَّ تَاٴْکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْہِ وَإِنَّ کَثِیرًا لَیُضِلُّونَ بِاٴَہْوَائِہِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِینَ ۔
۱۲۰ وَذَرُوا ظَاہِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَہُ إِنَّ الَّذِینَ یَکْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوا یَقْتَرِفُونَ ۔
ترجمہ
۱۱۸۔ اور جس (ذبیح) پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اس سے کھاؤ، (لیکن ان جانوروں کے گوشت سے کہ جن کو ذبح کرتے وقت ان پر خدا کا نام نہیں لیا گیا نہ کھاؤ)اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ۔
۱۱۹۔تم ان چیزوں میں سے کیوں نہیں کھاتے کہ جن پر خدا کا نام لیا گیا ہے، حالانکہ (خدا وند تعالی نے) جو کچھ تم پر حرام تھا اسے بیان کردیا ہے مگر یہ کہ تم مجبور ہوجاؤ( کہ اس صورت میں اس قسم کے جانور کا گوشت کھانا جائز ہے ) اور بہت سے لوگ (دوسروں کو ) ہوا وہوس اور بے علمی کی وجہ سے گمراہ کردیتے ہیں اور تیرا پرور دگار تجاوز کرنے والوں کو بہتر طور پر پہچانتا ہے۔
۱۲۰۔ آشکار اور مخفی گناہوں کو چھوڑ دو کیوں کہ جو لوگ گناہ کماتے ہیں انھیں ان کے بدلے میں سزا دی جائے گی۔
تفسیر


۱۔ ”خرص“ (بروزن ترس) اصل میں تخمین کے معنی میں ہے، پہلے پہل تو باغ وغیرہ کرایہ پر دینے کے وقت درختوں پر پھلوں کی مقدار کے تخمینے اور اندازے کے لئے استعمال ہوتا تھا، بعد از اں ہر قسم کے حدس وتخمین کے لئے یہ لفظ بولے جانے لگا اور چونکہ تخمینہ اور اندازہ بعض اوقات واقع کے مطابق اور بعض اوقات اس کے خلاف ہوتا ہے لہٰذا یہ لفظ جھوٹ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور مندرجہ بالا آیت میں ہوسکتا ہے دونوں معانی کے لئے ہو۔
۲۔ عموما”افعل تفضیل“،” با“ کے ذریعہ متعدی ہوجاتا ہے لہٰذا یہاں یہ کہنا چاہئے”اعلم بمن“لیکن با محزوف ہے اور ”ومن یضل “ اصطلاح کے مطابق منصوب بنزع خافض ہے۔
 
اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے شرک کے تمام آثار مٹ جانے چاہئیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma