نعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
یہاں ظلم سے کیا مراد ہے؟چند قابل توجہ امور
اِن آیات میں اپنی نعمات میں سے ایک کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جو خداوندتعالیٰ نے حضرت ابراہیم- کو عطا کی تھیں اور وہ نعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل جو نعمات الٰہی میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: ہم نے ابراہیم- کو اسحاق اور (فرزند اسحاق) عطا کیے (وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ) ۔
اور اگر یہاں ابراہیم- کے دوسرے فرزند اسماعیل کی طرف اشارہ نہیں ہوا، بلکہ بحث کے دوران کہیں ذکر آیا ہے، شاید اس کا سبب یہ ہے کہ اسحاق کا سارہ جیسی بانجھ ماں سے پیدا ہونا، وہ بھی بڑھاپے کی عمر میں، بہت عجیب وغریب امر اور ایک نعمت غیر مترقبّہ تھی۔
پھر اس چیز کو بیان کرنے کے لئے کہ ان دونوں کا افتخار صرف پیغمبر زادہ ہونے کے پہلو سے نہیں تھا، بلکہ وہ ذاتی طور پر بھی فکر صحیح اور عمل صالح کے سائے میں نور ہدایت کو اپنے دل میں جاگزین کیے ہوئے تھے، قرآن کہتا ہے: ان میں سے ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی (کُلًّا ہَدَیْنَا )۔
اس کے بعدیہ بتانے کے لئے کہ کہیں یہ تصور نہ ہو کہ ابراہیم- سے قبل کے دور میں کوئی علَم بردارِ توحید نہیں تھا اور یہ کام بس انہی کے زمانے سے شروع ہوا ہے مزید کہتا ہے: اس سے پہلے ہم نے نوح کی بھی ہدایت ورہبری کی تھی (وَنُوحًا ہَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ)۔
اور ہم جانتے ہیں کہ نوح- پہلے اولوالعزم پیغمبر ہیں جو آئین وشریعت کے حامل تھے اور وہ پیغمبران اولوالعزم کے سلسلے کی کڑی تھے۔
حقیقت میں حضرت نوح- کی حیثیت اوران تمام کی طرف اشارہ کرکے کہ جو حضرت ابراہیم- کے اجداد میں سے ہیں، اور اسی طرح پیغمبروں کے اس گروہ کے مقام کا تذکرہ کرکے کہ جوابراہیم- کی اولاد اور ذریّت میں سے تھے، حضرت ابراہیم- کی ممتاز حیثیت کو دراثت، اصل اور ثمرہ کے حوالے سے مشخص کیا گیا ہے۔
اور اس کے بعد بہت سے انبیاء کے نام گنوائے ہیں جو ذریت ابراہیم- میں سے تھے، پہلے ارشاد ہوتا ہے: ابراہیم کی ذریت میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، موسیٰ اور ہارون تھے(وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ)اور اس جملے کے ساتھ کہ: ”اس قسم کے نیکوکار لوگوں کو ہم جزا دیں گے“ واضح کرتا ہے کہ ان کا مقام وحیثیت ان کے اعمال وکردار کی بناپر تھا(وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ)۔
اس سلسلے میں کہ ”وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ “ (اس کی اولاد میں سے) کی ضمیر کس کی طرف لوٹتی ہے، ابراہیم- کی طرف یا نوح- کی طرف، مفسّرین کے درمیان بہت اختلاف ہے لیکن زیادہ تر مفسّرین ابراہیم- کی طرف لوٹاتے ہیں اور ظاہراً اس بات کی تردید نہیں کرنا چاہیے کہ مرجع ضمیر ابراہیم- ہیں کیونکہ آیت کی بحث ان خدائی نعمات کے بارے میں ہے جو ابراہیم- کی نسبت سے ہوئی تھیں نہ کہ حضرت نوح- کے بارے میں۔ علاوہ ازیں اُن متعدد روایات میں سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے، جنھیں ہم بعد میں نقل کریں گے۔
صرف ایک مطب اس بات کا سبب بنا ہے کہ بعض مفسّرین نے ضمیر کو نوح- کی طرف لوٹایا ہے اور وہ ہے بعد کی آیات میں حضرت یونس- اور حضرت لوط- کا نام، کیونکہ تواریخ میں مشہور یہ ہے کہ یونس- حضرت ابراہیم- کی اولاد میں سے نہیں تھے اور لوط- بھی حضرت ابراہیم- کے بھتیجے یا بھانجے تھے۔
لیکن یونس- کے بارے میں تمام مورخین میں اتفاق نہیں ہے، بعض انھیں بھی اولاد ابراہیم- میں سے سمجھتے ہیں(۱) اور بعض انھیں انبیاء بنی اسرائیل میں سے شمار کرتے ہیں(۲)
علاوہ ازیں عام طور پر مورخین نسب کی باپ کی طرف سے حفاظت کرتے ہیں لیکن اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ حضرت یونس- کا بھی حضرت عیسیٰ - کا بھی حضرت عیسیٰ کی طرح کہ جن کا نام درج بالا آیات میں ہے کا سلسلہ نسب ماں کی طرف سے حضرت ابراہیم - تک پہنچتا ہو۔
باقی رہے لوط تو وہ اگر چہ ابراہیم - کے فرزند نہیں تھے لیکن ان کے خاندان اور رشتہ داروں میں سے تھے، تو جس طرح عربی زبان میں بعض اوقات ”چچا“ کو ”اب“ (باپ) کہا جاتا ہے اسی طرح بھتیجے اور بھانجے پر بھی ”ذریت“ اور فرزند کا اطلاق ہوتا ہے، اس طرح سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ظاہر آیات سے دست بردار ہوجائیں جو کہ ابرہیم - کے بارے میں ہیں اور ضمیر کو نوح - کی طرف پلٹادیں جو یہاں موضوعِ سُخن بھی نہیں ہیں۔
بعد کی آیت میں زکری-، یحییٰ، عیسیٰ - اور الیاس کا نام لیا گیا ہے اور مزید کہا گیا ہے کہ یہ سب صالحین میں سے تھے۔
یعنی ان کا مقام و منزلت تشرفاتی اور اجباری پہلو نہیں رکھتا تھا بلکہ انھوں نے عمل صالح کے ذریعہ بارگاہ خداوندی میں عظمت و بزرگی حاصل کی تھی (وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ)۔
بعد والی آیت میں بھی چار اور پیغمبروں اور خدائی رہنماؤں کے نام آئے ہیں اور فرمایا گیا ہے: اور اسماعیل, الیسع، یونس اور لوط بھی، اور سب کو ہم نے عالمین پر فضیلت عطا کی (وَإِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِینَ)۔اس بارے میں الیسع کس قسم کا نام ہے اور پیغمبروں میں سے کون سے پیغمبر کی طرف اشارہ ہے مفسرّین اور ادباء عرب کے درمیان اختلاف ہے بعض اسے ایک عبرانی نام سمجھتے ہیں جو اصل میں یوشع تھا اس کے بعد اس پر الف لام داخل ہوئے اور شین، سین سے تبدیل ہوگئی اور بعض کا نظریہ ہے کہ یہ ایک عربی نام ہے اور ”یسع“ سے لیا گیا ہے (جو وسعت کا فعل مضارع ہے)۔ یہ احتمال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اسی صورت میں گذشتہ انبیاء میں سے کسی نبی کا نام تھا بہرحال وہ جناب بھی نسل ابراہیم - میں سے ایک پیغمبر ہیں۔
اور آخری آیت میں مذکورہ انبیاء کے صالح آباؤ اجداد، اولاد اور بھائیوں کی طرف کہ جن کے نام یہاں پر تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیے گوے ایک کلی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان کے آباؤ اجداد، ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے کچھ افراد کو ہم نے فضیلت دی، انھیں برگزیدہ کیا اور راہ راست کی ہدایت کی (وَمِنْ آبَائِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَإِخْوَانِہِمْ وَاجْتَبَیْنَاہُمْ وَہَدَیْنَاہُمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ)۔

۱۔ تفسیر آلوسی, ج۷، ص۱۸۴-
۲۔ دائرة المعارف فرید وجدی، ج۱۰، ص۱۰۵۵ (ذیل مادہ یونس)
یہاں ظلم سے کیا مراد ہے؟چند قابل توجہ امور
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma