اس بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں حضرت ابراہیم - کے توحیدی استدلالات کے سلسلہ میں گزرچکی ہے، اِن آیات میں اُسی بحث و گفتگو کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم - کی بت پرست قوم و جمعیت سے ہوئی تھی۔ پہلے فرمایا گیا ہے: قومِ ابراہیم ان کے ساتھ گفتگو اور کج بحثی کرنے لگی (و حاجہ قومہ)
ابرہیم - نے ان کے جواب میں کہا: تم مجھ سے خدائے یگانہ کے سلسلہ میں بحث اور مخالفت کیوں کرتے ہو حالانکہ خدانے مجھے منطقی اور واضح دلائل کے ساتھ راہ توحید کی ہدایت کی ہے (قَالَ اٴَتَحَاجونِی فِی اللّٰہِ وَ قَد ہَدَان)۔
اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم - کی قوم کے بت پرستوں کی جمعیت اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ جس قیمت پر بھی ممکن ہوسکے ابراہیم - کو اُن کے عقیدے سے پلٹالیں اور بت پرستی کے آئین کی طرف کھینچ لیں۔ لیکن حضرت ابراہیم - انتہائی شجاعت و شہامت کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے ڈٹ گئے اور منطقی دلائل کے ساتھ سب کی باتوں کے جواب دیئے۔
یہ بات کہ وہ (بت پرست) کس منطق سے حضرت ابراہیم - کا مقابلہ کرتے تھے ان آیات میں صراحت کے ساتھ کوئی چیز بیان نہیں ہوئی لیکن حضرت ابراہیم - کے جواب سے اجمالی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے آپ کو پانے خداؤں اور بتوں کے غیض و غضب اور سزا کی دھمکی دی اور ان کی مخالفت سے ڈرایا تھا، کیونکہ آیت کے آخر میں ہم حضرت ابراہیم - کی زبانی اس طرح پڑھتے ہیں: میں ہرگز تمہارے بتوں سے نہیں ڈرتا کیونکہ اُن میں یہ قدرت ہی نہیں ہے کہ کسی کو نقصان و ضرر پہنچا سکیں (وَلَا اٴَخَافُ مَا تُشرِکُونَ بہ)۔کوئی شخص اور کوئی چیز مجھے نقصان نہیں پہنچاسکتی مگر یہ کہ خدا چاہے (اِلَّا اٴَنْ یَشَاءَ رَبِّی شَیئاً)۔(۱)
گویا ابراہیم - اس جملے کے ذریعے یہ جاہتے ہیں کہ ایک اجتمالی پیش بندی کرلیں اور کہیں کہ اگر اس کشمش کے دوران بالفرض مجھے کوئی حادثہ پیش آجائے، تو اس کا بتوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ربط نہیں ہوگا بلکہ اس کا تعلق مشیت الٰہی کے ساتھ ہوگا کیونکہ بے شعور وبے جان بت تو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں وہ کیا دوسرے کے نفع ونقصان کیا مالک ہوں گے؟
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: میرے پروردگار کا علم و دانش اس طرح ہمہ گیر و وسیع ہے کہ ہر چیز کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے (وَسِعَ رَبِّی کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا)۔
یہ جملہ حقیقت میں سابقہ جملے کی ایک دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ بت ہرگز کوئی نفع یا نقصان پہنچاہی نہیں سکتے کیونکہ وہ کسی قسم کا علم و آگاہی نہیں رکھتے، اور نفع اور نقصان پہنچانے کی پہلی شرط علم و شعور اور آگاہی ہے۔ صرف وہ خدا کہ جس کے علم و دانش نے تمام چیزوں کا احاط کیا ہوا ہے وہی سود و زیاں بھی پہنچا سکتا ہے، تو پھر میں اُس کے غیر کے غیض و غضب سے کیوں ڈروں۔
آخر میں اُن کے فکر و فہم کو بیدار کرنے کے لیے، اُنہیں مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے: کیا ان تما باتوں کے باوجود بھی تم متذکر اور بیدار نہیں ہوتے
( اٴَفَلاَتَتَذَکَّرُونَ)۔
بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم - کی ایک اور منطق و استدلال کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ بت پرست گروہ سے کہتے ہیں: ”یہ کس طرح ممکن ہے کہ میں بتوں سے ڈروں اور تمہاری دھمکیوں کے مقابلہ میں اپنے اندر وحشت اور خوف پیدا کرلوں حالانکہ مجھے تو ان بتوں میں عقل و شعور اور قدرت کی کسی قسم کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دیتی، لیکن تم باوجود اس کے کہ خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہو اور اس کی قدرت اور علم کو بھی جانتے ہو اور اُس نے کسی قسم کا کوئی حکم بتوں کی پرستش کے بارے میں تمہاری طرف نازل نہیں کیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود تم تو اُس سے نہیں ڈرتے، تو میں بتوں کے غضب سے کس طرح ڈروں (وَکَیْفَ اٴَخَافُ مَا اٴَشْرَکْتُمْ وَلاَتَخَافُونَ اٴَنَّکُمْ اٴَشْرَکْتُمْ بِاللَّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا)(2)- کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بت پرست ایسے خدا کے منکر نہ تھے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ وہ تو صرف بتوں کو عبادت میں شریک کرتے تھے اور انھیں درگاہ خداوندی میں شفیع خیال کرتے تھے۔
اب تم ہی انصاف کرو کہ میں امن و امان کا زیادہ حقدار ہوں یا تم (فَاٴَیُّ الْفَرِیقَیْنِ اٴَحَقُّ بِالْاٴَمْنِ إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ)۔
حقیقت میں اس مقام پر ابراہیم - کی منطق ایک عقلی منطق ہے جو اس واقعیت کی بنیاد پر قائم ہے کہ تم مجھے بتوں کے غضب ناک ہونے کی دھمکی دے رہے ہو۔ حالانکہ اِن کے وجود کی تاثیر مو ہوم ہے، لیکن تم اُس عظیم خدا سے بالکل نہیں ڈرتے جسے تم اور میں دونوں قبول کرتے ہیں اور ہمیں اُس کے حکم کا پیرو ہونا چاہیے اور اس کی طرف سے بتوں کی پرستش کا کوئی حکم نہیں پہنچا۔ تم نے ایک قطعی و یقینی امر کو تو چھوڑ رکھا ہے اور ایک موہوم چیز کے ساتھ چمٹے ہوئے ہو۔
بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم - کی زبانی اُس سوال کا جواب نقل ہوا ہے جو خود اُنہوں نے قبل کی آیت میں پیش کیا تھا (اور علمی استدلالات میں یہ ایک عمدہ طریقہ ہے کہ بعض اوقات استدلال کنندہ شخص مد مقابل کی طرف سے سوال کرکے پھر خود ہی اس کا جواب دیتا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مطلب اتنا واضح ہے کہ جس کا جواب ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے) ۔
ارشاد ہوتا ہے: وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم و ستم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا، امن و امان بھی انہی کے لیے ہے اور ہدایت بھی انہی کے ساتھ مخصوص ہے (اَلَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اٴُوْلَئِکَ لَہُمْ الْاٴَمْنُ وَہُمْ مُہْتَدُونَ)۔
اُس روایت میں بھی جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے، اس بات کی تاکید ہوتی ہے کہ یہ گفتگو حضرت ابراہیم - کی بت پرستوں کے ساتھ گفتگو کا ضمیمہ ہے۔(3)
بعض مفسّرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ جملہ خدا کا بیان ہوگا نہ کہ حضرت ابراہیم - کی گفتگو۔ لیکن پہلا احتمال علاوہ اس کے کہ یہ روایت میں وارد ہوا ہے، آیات کی وضع و ترتیب کے ساتھ بھی زیادہ بہتر مطابقت رکھتا ہے لیکن یہ احتمال کہ یہ جملہ بت پرستوں کی گفتگو ہو جو حضررت ابراہیم - کی باتیں سننے کے بعد بیدار ہوئے ہوں بہت ہی بعید نظر آتا ہے۔