تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
چند اہم نکاتمصلحین کے راستے میں ہمیشہ مشکلات رہی ہیں

پہلی آیت کی تفسیرمیں دو احتمال ہیں،ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم اور سخت قسم کے مشرکین کی گفتگو کے بعد ہونے والی حالت کی نشاندہی ہے جو قیامت کا منظر دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں اور تلافی کریں، لیکن قرآن کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ پلٹ بھی جائیں تو نہ صرف یہ کہ تلافی کی فکر نہیں کریں گے اور اپنے کاموں کو جاری رکھیں گے بلکہ اصلا دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے اور قیامت ہی کا انکار کردیں گے اور بڑے تعجب کے ساتھ کہیں گے تو زندگی تو صرف یہ دنیاوی زندگی ہی ہے اور اب ہم کبھی دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے نہیں جائیں گئے ( وَقَالُوا إِنْ ہِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ )(۱)
۱۔ اس احتمال کے مطابق ”وقالوا“عطف ہے ”عادوا“ اور اس احتمال کو تفسیر” المنار “کے مولف نے اختیار کیا ہے ۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین کے ایک ایسے گروہ کے بارے میں جو معاد کا بالکل ہی انکار کرتے تھے اور یہ ایک جدا بحث بیان کر رہی ہے کیوں کہ مشرکین عرب میں ایک ایسی جماعت بھی تھی جو معادکا عقیدہ نہیں رکھتی تھی جب کہ بعض ایسے لوگ بھی تھے جو کسی نہ کسی طرح معاد پر ایمان رکھتے تھے ۔
بعد کی آیت میں قیامت کے دن ان کے انجام کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے قرآن یوں کہتا ہے: اگر تم اس وقت انھیں دیکھو کہ جب وہ اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا کیا یہ حق نہیں ہے( وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُوا عَلَی رَبِّھِمْ قَالَ اٴَلَیْسَ ھَذَا بِالْحَقِّ)تو وہ جواب میں کہیں گے: جی ہاں ! ہمارے پروردگار کی قسم یہ حق ہے(قَالُوا بَلَی وَرَبِّنَا) ۔
دوبارہ ان سے کہا جائے گا: پس تم عذاب اور سزا کا مزہ چکھو، کیوں کہ تم اس کا انکار کیا کرتے تھے اور کفر کرتے تھے ( قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ ) ۔
مسلمہ طور پر(پرور دگار کے سامنے کھڑے ہونا ) یہ نہیں ہے کہ خدا کوئی مکان رکھتا ہو بلکہ یہ اس کی سزا کے سامنے کھڑے ہونے کے معنی میں ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے یا یہ عدالت الٰہی میں حاضر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ نماز کے وقت انسان یہ کہتا ہے کہ میں خدا کے سامنے کھڑا ہوں ۔
بعد والی آیت میں معاد وقیامت کا انکار کرنے والوں کے نقصان اور گھاٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : وہ لوگ جنھوں نے پرور دگار کی ملاقات کا انکار کیا ہے مسلمہ طور پر نقصان میں گرفتار ہے( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللّٰہِ) ۔
جیسا کہ پہلے اشارتا بیان کیا جاچکا ہے پروردگار کی ملاقات سے مراد یاتو ملاقات معنوی اور ایمان شہودی(شہود باطنی)یا میدان قیامت اور اس کی جزا وسزا کے مناظر سے ملاقات ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ انکار ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہے گا اور یہ صرف اس وقت تک ہوگا جب اچانک قیامت پربا ہوجائے اور وہ وحشتناک مناظر کا سامنا کریں اور اپنے اعمال کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، اس موقع پر ان کی فریاد بلند ہوگی : ہائے افسوس! ہم نے ایسے دن کے لئے کس قدرکوتاہی کی تھی ( حَتَّی إِذَا جَائَتْہُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا یَاحَسْرَتَنَا عَلَی مَا فَرَّطْنَا فِیھَا)” ساعة“ سے مراد ہے قیامت کا دن، اور ”بغتة “ کا معنی ہے بطور ناگہانی اور اچانک کہ جس کے وقت کو خدا کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا، واقع ہوجائی گی اور قیامت کے دن کے لئے اس نام”ساعة“ کے انتخاب کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس گھڑی لوگوں کا حساب بڑی تیزی کے ساتھ انجام پائے گا اور یا یہ اس کے ناگہانی طور پر وقوع پذیر ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ لوگ عالم برزخ سے عالم قیامت کی طرف منتقل ہوجائیں گے ۔
”حسرت“ کا معنی ”کسی چیز پر افسوس کرنا“ ہے لیکن عرب جب زیادہ متاثر ہوتو خود حسرت کو مخاطب کرکے کہتے ہیں”یا حسرتنا“ گویا حسرت کی شدت و سختی اس قدر ہے جیسے وہ ایک موجود چیز کی شکل ہے میں اس کے سامنے مجسم کھڑی ہے ۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہ گناہوں کا بوجھ اپنے دوش پر لئے ہیں ( وَھُمْ یَحْمِلُونَ اٴَوْزَارَھُمْ عَلَی ظُھُورِھِمْ) ۔
”اوزار “ جمع ہے ”وزر“ کی جس کا معنی ہے سنگین بوجھ ، اور یہاں اس سے مراد گناہ ہے اور یہ آیت تجسم اعمال کی ایک دلیل بن سکتی ہے کیوں کہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذمہ داری اور جوابدہی کے بارکی سنگینی مراد ہو، کیوں کہ ذمہ داریوں کو ہمیشہ بھاری بوجھ سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔
اور آیت کے آخر میں فرمایا ہے کیسا برا بوجھ وہ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوں گے ( اٴَلاَسَاءَ مَا یَزِرُونَ ) ۔
مندرجہ بالا آیت میں منکرین معاد کے خسارہ اور نقصان کی کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں اس بات کی دلیل واضح ہے کہ ان کے معاد پر ایمان رکھنا علاوہ اس کے کہ انسان کو ہمیشہ کی سعادت بخش زندگی کے لئے آمادہ کرتا ہے او ر اسے کمالات علمی وعملی کی تحصیل کی دعوت دیتا ہے، آلودگیوں اور گناہوں کے مقابلے میں انسان کو کنٹرول کرنے میں بھی گہرا اثر رکھتا ہے، ہم معاد سے مربوط مباحثہ میں انشاء اللہ انفرادی واجتماعی نظر سے اس کی اصلاحی اثر کا وضاحت سے بیان کریں گے ۔
اس کے بعد آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کی حیثیت بیان کرنے کے لئے یوں ارشاد ہوتا ہے:دنیاوی زندگی سوائے کھیل کود کے اور کچھ نہیں( وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَھْو) ۔
اس بنا پر وہ لوگ جنھوں نے صرف دنیا سے دل باندھا ہوا ہے اور اس کے علاوہ اور کسی چیز کے نہ وہ خواہش مند ہی اور نہ ہی طلبگار ہیں درحقیقت یہ ایسے ہوس باز بچے ہیں کہ جنھوں نے عمر کا ایک حصہ کھیل کود میں گذار دیا ہے اور ہر چیزسے بے خبر رہے ہیں ۔
دنیاوی زندگی کو لہو ولعب سے تشبیہ اس وجہ سے دی گئی ہے کیوں کہ عام طور پر کھیل کود کے کام اندر سے خالی اور بے بنیاد ہوتے ہیں، جو حقیقی زندگی کے تن سے دور ہیں، نہ تو وہ شکست کھتاتے ہیں ،جنھون نے فی الحقیقت شکست کھائی ہے اور نہ ہی وہ چکست یافتہ ہوتے ہیں جنھوں نے بازی کو جیت لیا ہے کیوں کہ کھیل کے ختم ہونے پر ہر چیز اپنی جگہ لوٹ جاتے ہے ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے ایک دوسرے کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور کھیل شروع کردیتے ہیں ایک کو”امیر“ اور دوسرے کو”وزیر“ ایک کو ”چور“ اور ایک کو”قافلہ“ بناتے ہیں، لیکن تھوڑی سی دیر نہیں گزرتی کہ نہ کوئی امیر رہتا ہے نہ وزیر، نہ چور رہتا اور نہ قافلہ۔
یا نمائش جو کھیل کود کے طور پر انجام پاتی ہے ان میں جنگ، عشق یا دشمنی کے مناظر مجسم ہوتے ہیں لیکن گھڑی بھر کے بعد کسی چیز کا کوئی پتہ نہیں ہوتا ۔
دنیا ایک ڈرامے کی طرح ہی ہے کہ جس کے کردار، اس دنیا کے لوگ ہیں اور کبھی یہ بچکانہ کھیل ہمارے عقلمندوں اور فہمیدہ لوگوں تک کوبھی اپنے میں مشغول رکھتا ہے لیکن بہت جلد ی کھیل اور ڈرامہ ختم ہونے کا اعلان ہوجاتا ہے ۔
”لعب “ (بروزن لزج)اصل میں مادہ لعاب (غبار) لعاب دہن اور رالوں کے معنی میں ہے جو لبوں سے گرتی ہیں اور یہ جو کھیل کو لعب کہتے ہیں اس بنا پر کہ وہ بھی منہ سے رال کے گرنے کی طرح ہے، جو بغیر کسی مقصد انجام پاتا ہے ۔
اس کے بعد آخرت کی زندگی کا اس سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: آخرت کا گھر متقی لوگوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم فکر نہیں کرتے اور عقل سے کام نہیں لیتے ہو( وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ) ۔
کیوں کہ وہ فنا نہ ہونے والی اور ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے ، جس کا جہاں بہت وسیع ہے، اور جس کی سطح بہت ہی اونچی ہے، وہ ایک ایسے عالم میں ہے جس کا تعلق حقیقت کے ساتھ ہے نہ کہ مجاز کے ساتھ، وہ ایک واقعیت ہے خیال نہیں ہے، وہ ایک اسیا جہان ہے جس کی نعمتیں درد ورنج کے ساتھ ملی ہوئی نہیں ہے اور سراسر خالی نعمتیں ہی نعمتیں ہے جن میں دکھ تکلیف نہیں ہے ۔
چونکہ ان واقعات کو صحیح طور پر سمجھنا، دنیا کے فریب دینے والے مظاہر کو پیش نظر رکھتے ہوئے، غور وفکر کرنے والے لوگوں کے سوا دوسروں کے لئے ممکن نہیں ہے لہٰذا آیت کے آخر میں روئے سخن ایسے ہی افراد کی طرف ہے ۔
ایک حدیث میں جو ہشام بن حکم کے واسطے سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے آپ نے یوں فرمایا ہے:
اے ہشام! خدا نے عقلمند لوگوں کو نصیحت کی ہے اور آخرت کے لئے تعلق رکھنے والا بنایا ہے ، اور کہا ہے کہ دنیاوی زندگی سوائے کھیل کود کے اور کچھ نہیں ہے اور دار آخرت متقی اور پرہیزگار لوگوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم اپنی عقل اور فکر کو کام میں نہیں لاتے ہو ۔
شاید یہ بات ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہو کہ ان آیات کا ہدف اور اصل مقصد مادی دنیا کے مظاہر کے ساتھ دل لگانے اور وابستگی اختیار کرنے اور اس کے آخری مقصد کو بھلا دینے کے خلاف جہاد ہے، ورنہ وہ لوگ جنھوں نے دنیا کوحصول سعادت کا وسیلہ قرار دیا ہے وہ حقیقت میں آخرت کے متلاشی ہیں نہ کہ دنیا کے ۔
۳۳قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِی یَقُولُونَ فَإِنَّھُمْ لاَیُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللّٰہِ یَجْحَدُونَ۔
۳۴ وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوا عَلَی مَا کُذِّبُوا وَاٴُوذُوا حَتَّی اٴَتَاھُمْ نَصْرُنَا وَلاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ وَلَقَدْ جَائَکَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِینَ۔
ترجمہ
۳۳۔ہم جانتے ہیں کہ تجھے ان لوگوں کی گفتگو غمگین کردیتی ہے (مگر تم غم نہ کھاؤ اور جان لو) کہ وہ تمھاری تکذیب نہیں کرتے بلکہ وہ ظالم تو آیات خدا کا انکار کرتے ہیں ۔
۳۴۔تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر انھوں نے ان تکذیبو ں کے مقابلہ میں صبر کیا ہے او استقامت سے کام لیا ہے اور (اس راہ میں ) انھوں نے رنج وتکلیف اٹھائی ، یہاں تک کہ ہماری مدد ان تک آن پہنچی (تم بھی اسی طرح رہو اور یہ اللہ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے) اور کوئی چیز اللہ کی سنتوں بدل نہیں سکتی اور تمھیں گذشتہ پیغمبروں کی خبریں تو پہنچ ہی گئی ہیں ۔


 
۱۔ نور الثقلین،جلد ۱،صفحہ ۷۱۱-
چند اہم نکاتمصلحین کے راستے میں ہمیشہ مشکلات رہی ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma