واقعہ غدیر کا خلاصہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
انتخابِ جانشین پیغمبر ہی آخری کار سالت تھاجرح وتنقید اور اعتراضات

بہت سی روایات جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں باوجودیکہ سب کی سب ایک ہی واقعہ کے گرد گھومتی ہیں پھر بھی طرح طرح کی تعبیرات کی حامل ہیں ۔ بعض روایات بہت مفصل اور طویل ہیں، بعض مختصر لیکن نپی تلی ہیں، بعض روایات اس واقعہ کا ایک گوشہ بیان کرتی ہیں تو دوسری روایات اس واقعہ کے دوسرے پہلو پروشنی ڈالتی ہوئی نظر آتی ہیںلیکن ان تمام روایات کے مجموعے اور اسلامی تواریخ، قرائن وحالات اور ماحول ومقامِ واقعہ کے مطالعہ سے یہ واقعہ سامنے آتا ہے:
پیغمبر اکرم کی زندگی کا آخری سال تھا ۔ حجة الوداع کے مراسم جس قدر باوقار وپرشکوہ ہوسکتے اُس قدر پیغمبر اکرم کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے ۔ سب کے دل روحانیت سے شرسار تھے ابھی اُن کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذّت کا ذائقہ محسوس کررہی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیضیاب ہونے اور اس سعادت کے حاصل ہونے پر جامے میں پھولے نہیں سماتے تھے (1)
نہ صرف مدینے کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصّوں کے مسلمان بھی یہ تاریخی اعزاز وافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے ۔
سرزمین حجازکا سورج درّوں اور پہاڑوں پر آگ بر سار ہا تھا لیکن اس سفر کی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارہی تھی ۔ زوال کا وقت نزدیک تھا ۔ آہستہ آہستہ جحفہ کی سرزمین اور اس کے بعد خشک اور جلانے والے ”غدیر خم“ کے بیابان نظر آنے لگے ۔
در اصل یہاں پر ایک چوراہا ہے جو حجاز کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے ۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف، دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف، تیسرا راستہ مغربی ممالک اور مصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر آخری مقصد اور اس عظیم سفر کا اہم ترین کام انجام پذیر ہونا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اہم ذمہ داریوں میں سے اُن کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔
جمعرات کا دن تھا اور ہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ہمراہیوں کو ٹھہرجانے کا حکم دیا گیا ۔ مسلمانوں نے بلند آواز سے اُن لوگوں کو جو قافلہ کے آگے آگے چل رہے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اور اتنی دیر کے لئے ٹھہر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں ۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذّن نے الله اکبر کی صدا کے ساتھ لوگوں کو نمازِظہر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصّہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں ۔ ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہے تھے ۔ اس صحرا میں نہ کوئی سائبان نظر آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یا گھاس صرف چند بے برگ وباربیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے کچھ لوگ اُنہی چند درختوں کاسہارا لئے ہوئے تھے اور انھوں نے اُن برہنہ درختوں پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنارکھا تھا لیکن گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی ہوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اُس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رہی تھی ۔ بہرحال ظہر کی نماز پڑھ لی گئی ۔
مسلمان ارادہ کررہے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو اُنھوں نے اپنے ساتھ اٹھارکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا ۔
جو لوگ رسول اللہ سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چہرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے نہیں دیکھ پارہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا ۔ پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے ۔ پہلے پروردگار عالم کی حمد و ثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا: میں عنقریب خداوندتعالیٰ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے جارہا ہوں میں بھی جوابدہ ہوں اور تم بھی جوابدہ ہو تم میرے بارے میں کیا گواہی دوگے؟ لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ”نشہد انک قد بلغت ونصحت وجہدت فجزاک الله خیراً“ یعنی ہم گواہی دیں گے آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اور خیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی وکوشش کی، خدا آپ کو جزائے خیر دے ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت، میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اور اُ س دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟
سب نے کہا: کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا: خداوندا گواہ رہنا ۔
آپ نے مزید فرمایا: لوگو! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟
انھوں نے کہا: جی ہاں ۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا ۔ سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی ۔
پیغمبر نے فرمایا: دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار کے چھوڑے جارہا ہوں تم اُن کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا: یا رسول الله! وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ہیں؟
تو پیغمبر اکرم نے فرمایا: پہلی چیز تو الله تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے ۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمھارے ہاتھ میں ہے، اس سے ہاتھ نہ چھڑانا ورنہ تم گمراہ ہوجاؤگے اور دوسری گرانقدر یادگار میرے اہلِ بیت ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے ۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے( اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی اُن سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں تم ہلاک ہوجاؤگے ۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ رسول الله اپنے اردگرد نگاہیں دوڑا رہے ہیں گویا کسی کو تلاش کررہے ہیں جو نہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً اُن کا ہاتھ پکڑ لیا اور اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منھ نہیں دیکھا ۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اور بلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”ایہا الناس من اولی الناس بالموٴمنین من انفسہم“
یعنی ۔ اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود اُن سے زیادہ اولویت رکھتا ہے؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں ۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا ورہبر ہے اور میں مومنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود اُن سے زیاد حق رکھتا ہوں (اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ہے)۔
اس کے بعد فرمایا:
”فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“ یعنی جس جس کا میں مولا ہوں علی  بھی اس اس کا مولا ورہبر ہے ۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی اور بعض روایوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اُس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کرکے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:
”اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار“
یعنی ”بارالٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر اور اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ، جو اس کی مدد کرے تو اُس کی مدد کر، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھر پھیر دے جدھر وہ رُخ کرے“۔
اس کے بعد فرمایا:” الا فلیبلغ الشاہد الغائب“ یعنی : تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو اُن لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اور اس وقت موجود نہیں ہیں ۔ پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا ۔ پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نہائے ہوئے تھے ۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہ رہا تھا ۔ ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی :
”الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی .... الخ.“
”آج کے دن میں نے تمہارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
”الله اکبرالله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة ورضی الرب برسالتی و الولایة لعلی من بعدی“
ہر طرح کی بزرگی و بڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت و رسالت اور میرے بعد کے لئے علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا ۔
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سُن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا ہوا، لوگ بڑھ چڑھ کر اُس اعزاز و منصب پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنی طرف سے مبارک مباد پیش کررہے تھے ۔ معروف شخصیتوںمیں سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انھوں نے کہا:
”بِخٍّ بِخٍّ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولا کل موٴمن وموٴمنة“
مبارک ہو! مبارک ہو! اسے فرزند ابی طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اور عورتوں کے مولا ورہبر ہوگئے ۔
اس وقت ابن عباس نے کہا: بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا ۔ عرب کے مشہور شاعر مدّاح رسول ”حسان بن ثابت“ نے پیغمبر سے اجازت لے کر اس موقع کی مناسبت سے ایک قصیدہ پڑھا جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں:
ینادیھمِ یَومَ الغدیرِ نبیھّم

بِخُمٍّ وَاسمَعْ بالرّسولِ مُنادیاً
فقال: فمن مولاکم و نبیّکم

فقالوا ولم یَبْدُوا ھناک التّعامیا
الٰھک مولنا وانت نَبِیُّنَا

لَم تلق منّا فی الولایةِ عاصیا
فقال لہ: قُم یا علیُّ فاننّی

رضیتُکَ من یعدی اماماً و ھادیا
فمن کنتُ مولاہ فہذاولیّہ

فکونوا لہُ اتباع صِدقِ موالیاً
ھناک دعا: اللھُمّ و ال ولیّہ

و کُن لِلّذی عادا علیًا معادیاً
”یعنی پیغمبر نے غدیر کے دن خم کے مقام پر اُنھیں ندا دی اور پکارا اور یہ پکارنے والا کس قدر گرامی قدر تھا“۔
”فرمایا: تمھارا مولا اور تمھارا نبی کون ہے؟ تو انھوں نے بلاتردّد صراحت کے ساتھ جواب دیا“
”کہ آپ کا خدا ہمارا مولا اور آپ ہمارے پیغمبر ہیں اور ہم آپ کی ولایت کے قبول کرنے سے روگردانی نہیں کریں گے“
”اس پر پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: کھڑے ہوجاؤ کیونکہ میں نے تمھیں اپنے بعد امام اور رہبر منتخب کیا ہے“
”اس کے بعد فرمایا: جس شخص کا میں مولا ورہبر ہوں یہ علی  اس کے مولا ورہبر ہیں پس تم سچے دل سے ان کی پیروی کرنا“
”اس وقت پیغمبر نے عرض کیا: بارالٰہا! اس کے دوست کو دوست اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ نا“(2)
یہ تھا مشہور حدیث غدیر کا خلاصہ جو اہل سنت اور شیعہ کتب میں موجود ہے ۔


1۔ پیغمبر اکرم کے ہمراہ جانے والوں کی تعداد بعض نے ۹۰ ہزار،بعض نے ۱۱۴ ہزار، بعض نے ۱۲۰ ہزار اور بعض نے ۱۲۴ ہزار لکھی ہے ۔
2۔ یہ اشعار اہل سنت کے بہت سے علماء نے نقل کئے ہیں ان میں حافظ ابونعیم اصفہانی، حافظ ابو سعید سجستانی، خوارزمی مالکی، حافظ ابو عبدالله مرزبانی گنجی شافعی، جلال الدین سیوطی، سبط ابن جوزی اور صدر الدین حموی کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔
انتخابِ جانشین پیغمبر ہی آخری کار سالت تھاجرح وتنقید اور اعتراضات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma