چند قابلِ توجہ مطالب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
یہ ایک بہت ہی بابرکت کتاب ہے ایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے

۱۔ اسلام ایک عالمی دین ہے: قرآن کریم کی مختلف آیات اچھی طرح سے گواہی دیتی ہیں کہ اسلام ایک عالمی دین ہے۔ وتعبیرات جیسے :
”لِاَنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَن بَلَغَ“
”میرا ہدف یہ ہے کہ تم سب کو اور اُن تمام لوگوں کو جن تک میری بات پہنچے قرآن کے ذریعے ڈراؤں“(انعام/۱۹)
”اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْریٰ لِلْعَالَمِینَ“
”یہ قرآن عالمین کے لیے تذکر ویاد دہانی ہے“(انعام/۹۰)
”قُلْ یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللهِ اِلَیکُمْ جَمِیعاً“
”کہہ دو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف الله کا بھیجا ہوا رسول ہوں“(اعراف/۱۵۸)
اور ایسی بہت سی دوسری آیات کہ جو قرآن میں بکثرت موجود ہیں اس حقیقت پر گواہ ہیں اور خاص طور پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سی آیات مکہ میں نازل ہوئی ہیں، یعنی اس موقع پر جب کہ اسلام ابھی اس شہر کے حد ود اربعہ سے باہر نہیں نکلا تھا۔
لیکن زیر بحث آیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے ی سوال سامنے آتا ہے کہ پیغمبر کی بعثت کا ہدف مکہ اور اس کے گردا گرد کے لوگوں کو ڈرانا اور انھیں ہدایت کرنا کیسے بیان کیا گیا ہے؟ کیا یہ اسلام کے عالمی دین ہونے کے منافی نہیں؟
اتفاق سے یہ اعتراض بعض یہودیوں اور بعض دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے نقل ہوا ہے اور انھوں نے اپنے گمان میں اسلام کے عالمی دین ہونے کے مقابلہ میں اس کو ایک محکم ہتھیار پایا ہے جو اسے ایک خاص علاقہ میں محدود کردیتا ہے (یعنی مکہ اور اطراف مکہ(1)
جواب دو نکات کی طرف توجہ کرنے سے یہ امر کامل طور پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ آیت نہ صرف یہ کہ اسلام کے عالمی ہونے کے منافی نہیں بلکہ کہا جاسکتا ہے یہ اسلام کے عالمی ہونے کی دلیل ہے۔
۱۔ قریہ، قرآن کی زبان میں ہر قسم کی آبادی کے معنی میں ہے چاہے وہ بڑا شہر ہویا کوئی گاؤں، مثلاً ہم سورئہ یوسف میں یوسف کے بھائیوں کی زبان سے ان کے باپ کے سامنے ان کا بیان پڑھتے ہیں کہ:
”وَ اسْئَلِ الْقَرُیَةَ الَّتِی کُنَّا فِیْہَا“
”ہم جس قریہ میں تھے اس قریہ سے پوچھ لیجئے“۔ (یوسف ۔ ۸۲)
اور ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ گفتگو انھوںنے مصر کے پایہ تخت سے واپس لوٹنے اور عزیر مصر کی حکومت کی طرف سے اُن کے بھائی ”بنیامین“ کو مصر میں روک لینے کے واقعہ کے بعد کی تھی۔ اسی طرح قرآن میں ہے:
”وَلَوْ اٴَنَّ اٴَھْلَ الْقُریٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ“
”اگر وہ تمام لوگ جں روئے زمین کی آبادیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم آسمان سے اور زمین سے ان پر (اپنی) برکتوں (کے دروازوں) کو کھول دیں گے“ ۔(اعراف ۹۶)
یہ بات ظاہر ہے کہ یہاں صرف بستیاں (گاؤں) مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے تمام دنیا کے رہائشی اور آباد علاقے مراد ہیں۔
دوسری طرف متعدد روایات میں ہے کہ زمین کی خشکی کے علاقے خانہ کعبہ کے نیچے سے بچھائے گئے تھے اور اسی وجہ سے ”دحوالارض“ (زمین کا بچھانا) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ابتداء میں سیلابی بارشوں کے زیرا اثر تمام کرہ زمین پانی سے ڈھکا ہوا تھا، پانی رفتہ رفتہ نیچے چلا گیا، اور زمین کے پست علاقوں میں ٹھہر گیا اور خشکیاں تدریجاً پانی کے نیچے سے سر نکالنے لگیں۔ اسلامی روایات کے مطابق زمین کا پہلا ٹکڑا جس نے پانی سے سر نکالا وہ سرزمین مکہ تھی۔
اور اگر اس زمین کی بلندی موجودہ وقت میں تمام دنیا کی زمینوں کی بلندیوں سے بندترین نہیں ہے تو یہ امر ہماری اس گفتگو کے منافی نہیں کیونکہ اُس دن سے کئی لاکھ سال گزرچکے ہیں اور اب روئے زمین کے نقاط کی کیفیت بالکل بدل چکی ہے۔ بعض پہاڑ سمندروں کی تہوں میں چلے گئے ہیں اور بعض مقامات سمندروں کی تہوں سے نکل کر پہاڑوں کی چوٹیاں بن چکے ہیں اور یہ امر علم زمین شناسی (GEOLOGY) کے مسلمات میں سے ہے۔
۲۔ لفظ ”ام“ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ہر چیز کی اصل و اساس اور ابتدا و آغاز کے معنی میں ہے۔
اب تک جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے اس پر توجہ کرتے ہوئے واضح ہوجاتاہے کہ اگر مکہ کو ام القریٰ کہتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ روئے زمین کی تمام خشکیوں کے پیدا ہونے کی اصل و اساس اور ابتدا و آغاز ہے۔ تو اس بناپر ”و من حولہا“ (جو اس کے گردا گرد ہیں) تمام روئے زمین کے لوگوں کے لیے ہوگا۔
گذشتہ آیات بھی اسلام کے عالمی ہونے کے باے میں اس تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ اسی طرح پیغمبر اکرم کے ایسے بہت سے مخلوط جو اُنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں مثلاً کسریٰ و قصیر کے نام لکھے تھے جن کی تفصیل تفسیر نمونہ جلد دوم صفحہ ۳۶۰ (اُردو ترجمہ) پر گزرچکی ہے، اس امر کا ایک اور گواہ ہیں۔
۲۔ قرآن پر ایمان اور آخرت میں ربط: مندرجہ بالا آیت میں ہے کہ: ”جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ قرآن پر بھی ایمان لے آئیںگے، یعنی وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ جہاں دوسرے جہاں کے لیے ایک مقدمہ ہے، اور کھیتی یا یونیورسٹی یا تجارت خانہ کی مانند ہے۔ بہر صورت ایک سلسلہ قوانین، لائحہ عمل، اور آئین اور دستور اس کے لیے ناگزیز ہے اور انبیاء کے آئے بغیر یہ ممکن نہیں کہ اس ہدف عالی تک پہنچ سکیں اور اس دن (آخرت) کے لیے تیاری کرسکیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ بات مد نظر رکھتے ہوئے، کہ خدانے انسان کو اس دنیا میں تکامل و ارتقا کے لیے بھیجا ہے، اور اس کی اصلی منزل دوسرا جہان ہے اگر وہ انبیاء اور آسمانی کتب اس کے لیے نہ بھنجے تو اس نے مقصد کو ضائع کردیا ہے اور اِس طرح سے خدا و معاد پر ایمان سے نبوت انبیاء اور کتب آسمانی پر ایمان کا نتیجہ نکالا جاتا ہے (غور کیجئے)۔
۳۔ نماز کی اہمیت: مندرجہ بالا آیت میں تمام دینی احکام میں سے صرف نماز کی طرف اشارہ ہوا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نماز خدا سے رشتہ جوڑنے اور اُس کے ساتھ ربط کا مظہر ہے اور اسی سبب سے تمام عبادات سے برتر و بالاتر ہے۔ بعض کے عقیدہ کے مطابق ان آیات کے نزول کے وقت اسلامی فریضہ فقط نماز ہی تھا۔ (2)
۹۳ وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِبًا اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْہِ شَیْءٌ وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّہُ وَلَوْ تَرَی إِذْ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَةُ بَاسِطُوا اٴَیْدِیہِمْ اٴَخْرِجُوا اٴَنفُسَکُمْ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ-
ترجمہ
۹۳۔ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ اس پر وحی نازل نہ ہوئی ہو اور وہ شخص کہ جو یہ کہے کہ میں بھی ایسا ہی (کلام) جیسا کہ اللہ نے نازل کیا ہے نازل کروں گا اور اگر تم ان ظالموں کو اُس وقت دیکھو جب کہ یہ موت کے شدائد میں گھرے ہوں گے اور فرشتے ہاتھ پھیلائے انھیں کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جان (اور روح) کو باہر نکالو۔ آج تم اُن دروغ گوئیوں کے بدلے جو تم نے خدا پر باندھی تھیں اور اس کی آیات کے سامنے جو تکبر تم کیا کرتے تھے اس کے بدلے ذلیل کرنے والے عذاب دیکھو گے (اور اس دن ان کی حالت پر تمھیں افسوس ہوگا)۔

 

 

 

شان نزول

 

اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں منابع حدیث اور کتب تفاسیر میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن سعد نامی ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جو کا تبِ وحی تھا، پھر اس نے خیانت کی تو پیغمبر نے اُسے دھتکاردیا (اور اپنے پاس سے نکال دیا) اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں بھی قرآنی آیات جیسی آیات لاسکتا ہوں۔ مفسرّین کی ایک جماعت نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت یا اس کا کچھ حصّہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں نازل ہوا ہے کہ جو نبوت کا چھوٹا دعویٰ کرنے واولوں میں سے تھا۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ مسیلمہ کا قصّہ پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری زمانے کا ہے اور یہ سورہ مکی سورتوں میں سے ہے، اس شان نزول کے طرفدار یہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ یہ آیت اس سورہ کی چند دوسری آیات کی طرح مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و ستم کے حکم سے اس سورہ کی آیت کے درمیان قرار دے دی گئی ہے۔
لیکن ہر صورت میں قرآن کی دوسری تمام آیات کی مانند کہ جو خاص حالات میں نازل ہوئی ہیں اور ان کا مضمون و مطلب کلی اور عمومی ہے اس آیت کا مضمون و مطلب بھی کلی و عمومی ہے، اور ایسے تمام مدعیان نبوت اور ان جیسے تمام لوگوں پر محیط ہے۔


 
1۔ تفسیر المنار، ج۷، ص۶۲۱۔ تفسیر فی ضلال ، ج۳، ص۳۰۵ میں کچھ مستشرقین کی طرف سے یہ اعتراض نقل ہوا ہے۔
2۔ تفسیر المنار جلد ۷ صفحہ ۶۲۲۔
یہ ایک بہت ہی بابرکت کتاب ہے ایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma