عظیم کامیابی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
دوسوال اور ان کا جوابفضیلت تلاوت سوره انعام
روز قیامت خداوند تعالیٰ کی حضرت عیسیٰ(علیه السلام) سے گفتگو جس کی تشریح گذشتہ آیات میں ہوچکی ہے کے ذکر کے بعد اس آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ اس گفتگو کے بعد یوں فرماتا ہے: آج کا دن وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی فائدہ دے گی (قَالَ اللهُ ھَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُھُمْ) ۔
یقینا اس جملے میں صدق وراستی سے مراد دنیا میں گفتار وکردار اور راستی وسچائی ہے جو آخرت میں مفید ہوگی ورنہ آخرت کی سچائی اور راستی جو کہ محل تکلیف ہی نہیں ہے وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دے گی اس کے علاوہ اس دن کی تو حالت وکیفیت ہی ایسی ہوگی کہ کوئی شخص سچائی کے سوا کچھ اور کہہ ہی نہ سکے گا ۔ یہاں تک کہ سب ہی گنہگار وخطاکار اپنے اپنے اعمالِ بد کا اعتراف کرلیں گے اور یوں اس دن جھوٹ بولنے کا کوئی وجود ہی نہ ہوگا ۔
اس بناپر وہ لوگ جنھوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا اور اپنی رسالت کا کام انجام دیا اور سچائی اور درستی کے سوا انھوں نے اور کوئی راستہ اختیار نہیں کیا، جیسے حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کے سچے پیرو یا باقی تمام انبیاء علیہم السلام کے سچے پیروکار کہ جو اس دنیا میں سچائی کی راہ پر گامزن ہوئے ۔ وہ اپنے اعمال سے پوری طرح بہرہ مند ہوں گے ۔
ضمناً اس جملے سے اجمالی طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدق وراستی میں تمام نیکیوں کا خلاصہ آجاتا ہے ۔ گفتار میں صداقت وراستی اور عمل میں صداقت وراستی اور قیامت کے دن صرف صداقت وراستی ہی وہ سرمایہ ہے کہ جو کام آئے گا اس کے علاوہ اور کچھ کام نہیں آئے گا ۔
اس کے بعد سچوں کو ملنے والی جزا کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے: ان کے لیے بہشت کے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اُسی میں رہیں گے (لَھُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَا الْاٴَنھَارُ خَالِدِینَ فِیھَا اٴَبَدًا) ۔
اور اس مادی نعمت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ خدا بھی ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں (رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوا عَنْہُ) ۔
یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں بہشت کے باغوں کا اس کی تمام نعمتوں کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد خدا کی اپنے بندوں سے خوشنودی اور بندوں کی خدا سے خوشنودی کی نعمت کا ذکر ہے اور اس کے بعد (ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ) کا جملہ ہے اس سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ طرفین کی یہ رضایت وخوشنودی کس قدر اہمیت کی حامل ہے (خدا کی بندوں سے خوشنودی اور بندوں کی خدا سے خوشنودی) ۔
کیونکہ عین ممکن ہے کہ انسان اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتوں میں غرق ہو لیکن جب وہ یہ احساس کرے گا کہ اس کا مولیٰ اور اس کا معبود ومحبوب اس سے ناراض ہے تو وہ تمام نعمتیں اس کی روح کے لئے تلخی اور اذیت کا سبب بن جائے گی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کو ہر چیز میسر ہو لیکن جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ اُس پر راضی وقانع نہ ہو ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ تمام نعمتیں اس کیفیت کے ساتھ سب سے اس کو خوش بخت نہیں رکھ سکتیں اور اُسے اندرونی تکلیف ہمیشہ آزار میں رکھے گی اور روحانی اطمینان جو کہ سب سے بڑی نعمت الٰہی اُس سے چھین لے گی۔
علاوہ ازیں جب خدا کسی سے خوش ہوگا تو جو کچھ وہ چاہے گا خدا اُسے دے گا اور جب یہ اُس کو وہ کچھ دے دے، جو وہ چاہتا ہے تو وہ بھی اُس سے خوش ہوگا ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ خدا نسان سے خوش ہو اور وہ بھی اپنے خدا سے راضی ہو ۔
آخری آیت میں آسمانوں، زمین اور جوکچھ اُن کے درمیان ہے پر خدا کی حاکمیت ومالکیت کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس کی قدرت کی عمومیت تمام چیزوں پر بیان ہوئی ہے (لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا فِیھِنَّ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) ۔
یہ تذکرہ حقیقت میں خدا سے بندوں کی رضا وخوشنودی کی دلیل اور علت کے عنوان سے آیا ہے کیونکہ جو ہستی تمام چیزوں پر قدرت رکھتی ہو اور جو سراسر عالم ہستی پر حکومت رکھتی ہو وہ قدرت رکھتی ہے کہ جو کچھ اس کے بندے اس سے چاہیں وہ انھیں بخش دے اور اُنھیں خوشنود وراضی کرے ۔
ضمنی طور پر یہ بھی ہوسکتا ہے یہاں مریم کی پرستش کے سلسلے میں عیسائیوں کے عمل کے غلط ہونے کی طرف اشارہ ہو کیونکہ عبادت کے لائق تو صرف وہ ذات ہے جو سراسر عالم آفرینش پر حکمران ہو نہ کہ مریم جو کہ مخلوق ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ۔

یہاں پر سورہٴ مائدہ کی تفسیر اختتام کو پہنچتی ہے
دوسوال اور ان کا جوابفضیلت تلاوت سوره انعام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma