جیسا کہ تفسیر مجمع البیان سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے بعض مخالفین اسلام نے اس آیت کو دستاویز قرار دیتے ہوئے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے پاس کائی معجزہ نہیں تھا کیوں کہ جس وقت کفار ان سے معجزہ دکھانے کا تقاضا کیا کرت تھے تو ان سے اتنا کہنے پر ہی قناعت کیا کرتے تھے کہ خدا ہی ایسی چیزوں پر قدرت رکھتا ہے لیکن تمھاری اکثریت نہیں جانتی، اتفاق کی بات یہ ہے کہ متاخرین میں سے بعض لکھنے والوں نے بھی یہی پرانا افسانہ دہرایا ہے اور اپنی تحریروں میں اسی پرانے اعتراض کو دوبارہ زندہ کیا ہے ۔
جوابا عرض ہے کہ:
پہلی بات تو یہ کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے قبل وبعد کی آیات کا ٹھیک طور پر مطالعہ نہیں کیا ہے، اور یہ غور نہیں کیا کہ یہاں پر ان ہٹ دھرم لوگوں کے متعلق گفتگو ہورہی ہے جو کسی طرح بھی حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، اب اگر پیغمبر نے ان کے تقاضا کو پورا نہیں کیا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی، ورنہ قرآن میں یہ کہاں ہے کہ حق کی جستجو اور حق کو طلب کرنے والے افراد نے پیغمبر سے معجزہ کا تقاضاکیا ہو اور آپ نے ان کی خواہش کو رد کردیا ہو، اسی سورہٴ انعام کی آیہ ۱۱۱ میں اسی قسم کی ”ہٹ دھرم “افراد کے سلسلے میں ہے:
” وَلَوْ اٴَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیھِمْ الْمَلاَئِکَةَ وَکَلَّمَھُمْ الْمَوْتَی وَحَشَرْنَا عَلَیْھِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَلَکِناٴَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُون“(۱)
دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے یہ مطالبہ سرداران قریش کی ایک جماعت کی طرف سے تھا اور انھوں نے قرآن کریم کی تحقیر اور اس سے بے پرواہی برتتے ہوئے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا اور یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم ایسے تقاضوں کے سامنے جن کا سرچشمہ ایسے اسباب ہوں سر نہیں جھکا سکتے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں انھوں نے گویا قرآن کریم کی باقی تمام آیات کو اپنی نگاہ سے دور رکھا ہے کہ کس طرح قرآن نے خود ایک جاودانہ معجزہ کے طور پر اپنا تعارف کروایا ہے اور بارہا مخالفین کو مقابلے کی دعوت دیتا رہا ہے اور ان کے ضعف وناتوانی کو آشکار کرچکا ہے ۔
معترضین نے سورہٴ اسراء کی پہلی آیت کو بھی بھلا دیا ہے جو صریحا کہتی ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ یہ بات باور نہیں کی جاسکتی کہ قرآن انبیاء ومرسلین کے معجزات خارق عادات سے پر ہو اور پیغمبر اسلام کہیں کہ میں تمام انبیاء کا خاتم ہوں ، سب سے افضل وبر تو ہوں اور میرا دین بالاترین دین ہے لیکن حق کے متلاشیوں کے لئے کمترین معجزہ بھی اپنی طرف سے نہ دکھا سکے، کیا اس صورت میں غیر جانبدار حقیقت طلب افراد کے لئے اس کی دعوت میں نقطہ ابہام پیدا نہیں ہوگا ۔
اگر ان کے پاس کوئی معجزہ نہ ہوتا تو ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ دوسرے انبیاء کے معجزات کا بالکل ہی نام تک نہ لیتے تاکہ وہ اپنے پروگرام کی توجیہ کرسکیں اور اپنے اوپر کئے جانے والے اعتراضات کے راستوں کو بند کردیں، اور یہ باے کہ وہ برملا کھلے دل کے ساتھ پے در پے دوسروں کے معجزات بیان کررہے ہیں اور موسیٰ (علیه السلام) بن عمران (علیه السلام)، عیسیٰ (علیه السلام) بن مریم (علیه السلام) ، ابراہیم (علیه السلام) ،صالح (علیه السلام) او نوح (علیه السلام) کے خارق عادت کام اور معجزات کو ایک ایک کرکے بیان کرتے چلے جارہے ہیں یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اپنے معجزات کی طرف سے کامل مطمئن تھے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام، معتبر روایات اور نہج البلاغہ میں پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مختلف قسم کے معجزات نقل ہوئے ہیں کہ جن کا مجموعہ حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے ۔
۳۸ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَطَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّھِمْ یُحْشَرُونَ ۔
ترجمہ
۳۸۔ کوئی زمین میں چلنے والا جانور اور کوئی دو پروں سے اڑنے والا پرندہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ تمھاری طرح کی امت ہے، ہم نے کسی چیز کو اس کتاب میں فروگذاشت نہیں کیا ہے پھر وہ سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے ۔