۱۔ کیا مولیٰ کا معنی اولیٰ بالتصرف ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
جرح وتنقید اور اعتراضات۲۔ آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط

اہم ترین اعتراض جو حدیث غدیر کے سلسلہ میں کیا جاتا ہے یہ ہے کہ ”مولیٰ“ کے معانی میں سے ایک معنی دوست اور یاور ومددگار بھی ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ یہاں یہ معنی مراد نہ ہو!
اس بات کا جواب کوئی مشکل یا پیجیدہ نہیں ہے کیونکہ ہر غیر جانبدار دیکھنے والا شخص جانتا ہے کہ علی  کی دوستی کے ذکر اور یاددہانی کے لئے ان مقدمات وتشکیلات اور خشک جلادینے والے بیابان کے وسط میں خطبہ پڑھنے اور لوگوں کو وہاں ٹھہرانے اور اُن سے پے درپے اقرار لینے اور اعتراف کرانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ کیونکہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے دوستی رکھنا مسائل اسلامی میں سے ایک بدیہی ترین مسئلہ تھا جو آغاز اسلام سے ہی موجود تھا، علاوہ از ایں یہ کوئی ایسا مطلب نہیں تھا کہ جس کی پیغمبر نے اُس وقت تک تبلیغ نہ کی ہو بلکہ آپ تو بارہا اس کی تبلیغ کرچکے تھے ۔
یہ کوئی چیز بھی نہیں تھی کہ جس کے اظہار سے آپ پریشان ہوں اور خدا کو اس کے لئے تسلی اور حفاظت کی ضمانت دینی پڑے ۔
یہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں تھا کہ خداوندعالم اس لب ولہجہ کے ساتھ اپنے پیغمبر سے گفتگو کرتا ”اگر اس کی تبلیغ نہ کی تو رسالت کی تبلیغ بھی نہ کی“ یہ سب چیزیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ مسئلہ ایک عام دوستی سے کہیں اونچا تھا، وہ دوستی جو اسلام کے پہلے ہی دن سے اخوّت اسلامی کی الف کا حصّہ شمار ہوتی تھی ۔
علاوہ از ایں اگر اس سے ایک عام اور سادہ دوستی کا بیان کرنا ہی منظور ہوتا تو پیغمبر پہلے یہ اقرار لوگوں سے کیوں لیتے کہ ”الست اولیٰ بکم مِن انفسکم“ یعنی کیا میں تمھاری نسبت تمھارے نفوس پر خود تم سے زیادہ حقدار اور صاحب اختیار نہیں ہوں(1)
کیا یہ جملہ ایک عام دوستی کے بیان کے ساتھ کسی خاص قسم کی مناسبت رکھتا ہے؟ نیز ایک عام دوستی تو یہ مقام نہیں رکھتی کہ لوگ یہاں تک کہ حضرت عمر جیسی شخصیت بھی حضرت علی - کو اس طرح سے مبارکباد اور تہنیت پیش کریں!
”اصبحت مولای ومولا کل موٴمن وموٴمنة“
”اے علی ! آپ میرے اور ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کے مولا ہوگئے“
اور اِسے ایک نیا منصب اور اعزاز شمار کریں(2)
کیا حضرت علی - اس دن تک ایک عام مسلمان کی حیثیت سے بھی پہچانےنہیں گئے تھے؛ کیونکہ ایک مسلمان کی دوستی تو تمام مسلمانوں پر لازم وضروری ہے ۔ کیا مسلمانوں کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے دوستی کرنا کوئی نئی بات تھی کہ جس کے لئے مبارکباد دینے کی ضرورت ہو اور وہ بھی رسول الله کی عمر کے آخری سال میں ۔
علاوہ از ایں کیا حدیث ثقلین اور وداعِ پیغمبر سے تعلق رکھنے والی تعبیرات کا حضرت علی - کی دوستی کے مسئلہ سے بھی کوئی ربط ہوسکتا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام کی مومنین کے ساتھ ایک عام دوستی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم اُسے قرآن کے ہم پلّہ اور برابر قرار دے دیں(3)
کیا ہر غیر جانبدار دیکھنے والا شخص اس تعبیر سے یہ نہیں سمجھتا کہ یہاں پر مسئلہ رہبری وامامت سے متعلق گفتگو ہورہی ہے؛ کیونکہ پیغمبر کی رحلت کے بعد قرآن مسلمانوں کا پہلا رہبر ہے لہٰذا اسی بنیاد پر اہلِ بیت علیہم السلام مسلمانوں کے دوسرے رہبر ہیں ۔

 

 


1۔یہ جملہ متعدد روایات میں وارد ہوا ہے ۔
2۔ اس واقعہ کے اس حصہ کو کہ جو حدیث تہنیت کے نام سے مشہور ہے، اہل سنت کے بہت سے عظیم علماء حدیث وتفسیر وتاریخ نے متعدد طریقوں سے بہت سے صحابہ سے نقل کیا ہے مثلاً: ابن عباس، ابوہریرہ، برآء ابن عازب اور زید ابن ارقم، مرحوم علامہ امینی نے ”الغدیر“ کی پہلی جلد میں اس حدیث کو اہل سنت کے ساٹھ علماء سے نقل کیا ہے ۔
3۔حدیث ثقلین ان متواتر احادیث میں سے ہے جسے اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں متعدد صحابہ سے نقل کیا گیا ہے مثلاً: ابوسعید خدری، زید ابن ارقم، زید بن ثابت، ابوہریرہ، حذیفہ بن اسید، جابر بن عبدالله انصاری، عبدالله بن خطب، عبد بن حمید، جبیر بن مطعم، ضمر واسلمی، ابوذر غفاری، ابورافع اور امّ سلمہ نے پیغمبر سے نقل کیا ہے ۔
جرح وتنقید اور اعتراضات۲۔ آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma