سب سے بڑا ظلم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
سب سے بڑا گواہحق قبول نہ کرنے والوں کا طرز عمل

سب سے بڑا ظلم

 

شرک وبت پرستی کی ہر طرح سے بیخ کنی کا پروگرام دینے کے بعد اوپر والی آےات میں سے پہلی آیت میں صراحت کے ساتھ استفہام انکاری کی صورت میں کہتا ہے: ان مشرکین سے بڑھ کر اور کون ظالم ہے کہ جنھوں نے خدا پر جھوٹ باندھا اور اس کا شرک قرار دیااس کی آیات کی تکذیب کی ہے

 

( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اٴَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہ)
در حقیقت پہلا جملہ انکار توحید کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا جملہ انکار نبوت کی طرف اشارہ ہے اور واقعا اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا کہ انسان بے قدر جمادات کو یا ناتواں انسان کو ایک لامحدود وجود کے مساوی قرار دے جو سارے عالم پر حکومت کرتا ہے، یہ کام تین جہت سے ظلم شمار ہوتا ہے ۔
ایک ظلم اس کی ذات پاک کے ساتھ کہ اس کے لئے شریک کا قائل ہوا ۔
دوسرا اپنے اور ظلم کہ اپنی حیثیت کو یہاں تک گرا دیا کہ اسے پتھر کے ایک ٹکڑے اور لکڑی کی پرستش تک نیچے لے لیا ۔
تیسرے ایک معاشرے اور سوسائٹی پر ظلم کہ شرک کے زیر اثر تفرقہ وپراکندگی اور روح وحدت ویگانگی سے دوری میں گرفتار ہوا ۔
مسلمہ طور پر کوئی بھی ظلم خاص طور پر ایسے ظلم کہ جن کاظلم ہر پہلو سے نمایاں ہے ، سعادت ورستگاری اور نجات وفلاح کامنہ نہیں دیکھے گے (ِ

 

إِنَّہُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ) ۔
البتہ اس آیت میں صراحت کے ساتھ لفظ شرک ذکر نہیں ہوا لیکن قبل وبعد کی آیات پر توجہ کرتے ہوئے کہ جو سب کی سب شرک کے بارے میں گفتگو کررہی ہے واضح ہوتا ہے کہ لفظ ”افتری“ سے اس آیت میں مراد وہی ذات الٰہی کے لئے شرک کی تہمت ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ۱۵ مواقع پر کچھ لوگوں کا ظالم ترین اور ستمگار ترین کے عنوان سے تعارف کرایا گیا ہے اور وہ سب کے سب جملہ استفہامیہ ”ومن اظلم“ یا”فمن اظلم“ (کون زیادہ ظالم ہے) کے ساتھ شروع ہوئے ہیں اگر چہ ان آیات میں سے اکثر شرک وبت پرستی اور آیات الٰہی کے انکار کے بارے میں ہی گفتگو کرتی ہیں یعنی ان میں اصل توحید ہی پیش نظر ہے لیکن ان میں سے بعض دوسرے مسائل کے بارے می بھی ہے مثلا :
”وَمَن اَظْلَمَ مِمَّن مَنَعَ مَسٰجِدَاللّٰہ اَنْ یذکر فِیھَا اسْمہ“
ان سے زیادہ اور کون شخص ظالم ہے جو مساجد میں ذکر خدا سے روکتے ہیں؟(سورہٴ بقرہ،۱۱۴) ۔
ایک اور مقام پر ہے:
”وَمَن اَظْلَمَ مِمَّن کَتَمَ شَھَادَة عِندَہُ مِنَ اللّٰہ “
ان سے بڑھ کر اور کون ظالم ہیں جو شہادت کو چھپاتے ہیں(بقرہ ،۱۴۰) ۔
اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ گروہوں میں سے ہر گروہ ہی سب سے بڑھ کر ظالم ہوں جب کہ ”ظالم ترین“ کا لفظ تو ان میں سے صرف ایک گروہ پر ہی صادق آتا ہے ۔
اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ ان سب امور کی حقیقت میں ایک ہی جڑ ہے اور وہ ہے شرک ،کفر اور عناد۔ کیوں کہ لوگوں کو مساجد میں ذکر خدا سے منع کرنا اور انھیں ویران وبرباد کرنے کی کوشش کرنا کفر وشرک کی نشانی ہے، اسی طرح شہادت کو چھپا نا ہے کہ ظاہری طور پر اس سے مراد حقائق پر شہادت کو چھپانا ہے جو وادی کفر میں لوگوں کے بھٹکنے کا سبب بنتا ہے لہٰذا یہ بات بھی شرک وکفر اور خدائے یگانہ کے انکار کی مختلف قسموں میں ہے ۔
بعد والی آیت میں مشرکین کے انجام کے سلسلے میں بحث ہوگہ، تاکہ واضح ہوجائے کہ انھوں نے بتوں جیسی کمزور مخلوق پر بھروسہ کرکے نہ اس دنیا میں اطمینان وراحت حاصل کیا ہے اور نہ ہی دوسرے جہاں میں،ارشاد الٰہی ہے:
اس روز جب ہم ان سب کو ایک ہی جگہ مب(علیه السلام)وث کریں ،اور مشرکین سے کہیں گے کہ تمھارے وہ بناوٹی معبود جنھیں تم خدا کا شریک خیال کرتے تھے کہاں ہیں؟ اور وہ تمھاری مدد کے لئے کیوں نہیں آتے؟ اور کسی قسم کا اثر ان کی قدرت نمائی کااس وحشتناک عرصہٴ قیامت میں کیوں نظر نہیں آتا(وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا اٴَیْنَ شُرَکَاؤُکُمْ الَّذِینَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ ) ۔
کیا اصل بنیاد یہی نہ تھی کہ وہ مشکلات میںتمھاری مدد کریں گے ؟ اورکیا تم نے بھی اسی امید پر ان کی پناہ حاصل نہیں کی تھ؟ تو پھر ان کا یہاں پر کوئی معمولی سے معمولی اثر بھی کیوں دکھائی نہیں دیتا؟۔
وہ ہکا بکا رہ جائیں گے اور عجیب وغریب وحشت وحیرت میں ڈوب جائیں گے اور اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا ،سوائے اس کے کہ قسم کھاکر کہنے لگےں کہ: ”خدا کی قسم ہم کبھی مشرک نہیں تھے“ ان کا گمان یہ ہوگاجیسے وہاں بھی حقائق کا انکار کیا جاسکتا ہے(ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُھُمْ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ ) اس بارے میں کہ اوپر والی آیت میں لفظ ”فتنہ“ کس معنی میں ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض اسے فروتنی اور معذرت کے معنی میں لیتے ہیں،بعض جواب کے معنی میں لےتے ہیں اور بعض نے شرک کے معنی میں لیا ہے(۱) ۔
آیت کی تفسیر میں یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ ”فتنہ وافتنان“ سے مراد ان کا وہی دلی میلان ہو،یعنی ان کے شرک وبت پرستی سے ان کے لگاؤ کا نتیجہ کہ جس نے ان کی عقل وفہم پر پردہ ڈال رکھا ہوگا کہ قیامت کے دن جب پردے ہٹ جائیں گے تو اس وقت وہ اپنی بڑی خطا کی طرف متوجہ ہوں گے اور اپنے اعمال سے بیزاری اختیار کریں گے اور ان سے کلی طور پر انکار کردیں گے ۔
لغت میں” فتنہ “کا اصل معنی جیسا کہ ”راغب“ مفردات“ میں کہتا ہے کہ سونے کو آگ میں ڈال دیں اور اسے تیز آنچ دیں تاکہ اس کا باطن ظاہر ہوجائے اور معلوم ہوجائے کہ وہ کھرا ہے کہ کھوٹا، اس معنی کو اوپر والی آیت میں تفسیر کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے کیوںکہ وہ لوگ جب قیامت کے دن سخت پریشانی اور اس دن کی وحشتوں میں غرق ہوں گے تو پھر انھیں ہوش آئے گا اور وہ اپنی غلطی پر آگاہ ہوں گے اور اپنی نجات کے لئے اپنے گذشتہ اعمال کا انکار کریں گے ۔
بعد والی آیت میں اس مقصد سے کہ لوگ ان کے رسوا کن انجام سے عبرت حاصل کریں کہا گیا کہ: اچھی طرح غور کرو اور دیکھو کہ ان کا معاملہ کہاں تک پہنچ گیا ہے کہ انھوں نے اپنی روش اور مسلک سے کاملا بیزاری اختیار کرلی ہے اور اس کا انکار کرتے ہیں یہاں تک کہ خود اپنی ذات سے جھوٹ بولتے ہیں(انظُرْ کَیْفَ کَذَبُوا عَلَی اٴَنفُسِھِم) ۔
اور تمام سہارے جو انھوں نے اپنے لئے اختیار کئے ہوئے تھے اور انھیں خدا کا شریک سمجھتے تھے ہاتھ سے دیں بیٹھے گے اور ان کی کہیں بھہ رسائی نہیں ہوگی( وَضَلَّ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ) ۔
چند اہم نکات
۱۔ ”انظر“ سے مراد مسلمہ طور پر عقل کی آنکھوں سے دیکھنا ہے، نہ کہ ظاہری آنکھوں سے دیکھنا، کیوں کہ قیامت کا میدان اس دنیا میں ظاہری نہیں دیکھا جاسکتا ۔
۲۔ یہ جو کچھ کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر جھوٹ باندھا تو اس کا معنی کہ انھوں نے دنیا میں اپنے آپ کو فریب دیا اور راہ حق سے نکل گئے، یا یہ کہ دوسرے جہاں میں جو قسم کھا رہیں ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے تو یہ حقیقت میں وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ مسلمہ طور پر وہ مشرک تھے ۔
۳۔یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اوپر والی آیت سے معلوم ہوتا کہ مشرکین اپنے سابقہ شرک کا قیامت کا دن انکار کردیں گے جب کہ روز قیامت کی کیفیت اور حقائق کا حسی طور پر مشاہدہ اس طرح سے ہوگا کہ کسی شخص کو یہ مجال نہ ہوگی کہ حق کے خلاف کوئی بات کرے، بالکل اس طرح سے جیسے کوئی جھوٹے سے جھوٹا آدمی بھی ہمیں ایسا دیکھائی نہیں دیتا جو روز روشن میں سورج کے سامنے کھڑا ہو کر یہ کہے کہ فضا تاریک ہے، اس کے علاوہ بعض دوسری آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ روز قیامت صراحت کے ساتھ اپنے شرک کا اقرار کرلیں گے اور کسی حقیقت کو نہیں چھپائیں گے مثلا:
”ولایکتمون اللّٰہ حدیثا“(نساء ۴۲) ۔
اس سوال کے دو جواب دئے جاسکتے ہیں :
پہلا جواب: یہ ہے کہ قیامت کے کئے مراحل ہوں گے، ابتدائی مراحل میں مشرکین خیال کریں گے کہ جھوٹ بول کر بھی خدا کے دردناک عذاب اور سزا سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے لیکن وہ اپنی پرانی عادت کے مطابق جھوٹ بولیں گے لیکن بعد کے مراحل میں جب وہ یہ سمجھ لیں گے کہ اس طریقہ سے بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو پھر اپنے اعمال کا اعتراف کرلیں گے حقیقت میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے رفتہ رفتہ پردے ہٹےں گے، ابتدا میں جب کہ مشرکوں نے اپنے نامہٴ اعمال کاغور سے مطالعہ نہیں کیا ہوگا تو جھوٹ کا سہارا لیں گے لیکن بعد کے مراحل میں جب پردے پوری طرح اٹھ جائیں گے اور تمام چیزیں نظروں کے سامنے ہوں گی تو پھر انھیں اعتراف کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آئے گا ۔
ٹھیک مجرموں کی طرح جو ابتدائی تفتیش میں تمام باتوں سے، یہاں تک کہ اپنے دوستوں سے شناسائی کا بھی انکار کردیتے ہیں لیکن جب ان کی جرم کی اسناد اور منہ بولتی دستاویزات دیکھائی جاتی ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ معاملہ اتنا واضح ہے کہ انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں لہٰذا پھر وہ اعتراف بھی کر لیتے ہیں اور سب کچھ اگل دیتے ہیں ۔
یہ جواب امیرالمومنین (علیه السلام) سے ایک حدیث میں نقل ہوا ہے (2) ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اوپر والی آیت ان افراد کے بارے میں ہے جو حقیقت میں اپنے آپ کو مشرک نہیں سمجھے تھے، مثلا عیسائی ، جو تین خداؤں کے قائل ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو موحد خیال کرتے ہیں، یا یہ آیت ایسے اشخاص کے بارے میں ہے جو تو حید کے نعرے لگاتے تھے، لیکن ان کے عمل سے شرک کی بو آتی تھے کیوں کہ وہ انبیاء کرام کے احکام پائیوں کے نیچے روندتے تھے، غیر خدا پر بھروسہ رکھتے اور خدا کے اولیاء کا انکار کرتے تھے لیکن اس کے باوجود خود کو موحد سمجھتے تھے، یہ لوگ قیامت کے دن قسم کھائیں گے کہ ہم تو موحد تھے لیکن بہت جلدہی انھیںسمجھا دیا جائے گا کہ وہ باطن میں مشرکین میں داخل تھے، یہ جواب بھی کئی ایک روایات میں حضرت علی علیہ اسلام اور حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے (3)
اور دونوں جواب قابل قبول ہیں ۔
۲۵ وَمِنْھُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ إِلَیْکَ وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِھِمْ اٴَکِنَّةً اٴَنْ یَفْقَھُوہُ وَفِی آذَانِھِمْ وَقْرًا وَإِنْ یَرَوْا کُلَّ آیَةٍ لاَیُؤْمِنُوا بِھَا حَتَّی إِذَا جَائُوکَ یُجَادِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ھَذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ۔
۲۶ وَھُمْ یَنْھَوْنَ عَنْہُ وَیَنْاٴَوْنَ عَنْہُ وَإِنْ یُھْلِکُونَ إِلاَّ اٴَنفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ۔
ترجمہ
۲۵۔ ان میں سے کچھ لوگ تےری بات تو سنتے ہیں لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئےے ہیں تاکہ وہ انھیں نہ سمجھے، اورہم نے کانوں کو بوجھل کردیا ہے اور وہ (اس قدر ہٹ دھرم ہیں ) کہ اگر حق کی تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ وہ جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے جھگڑنے لگتے ہیں اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو پرانے لوگوں کے افسانے ہیں ۔
۲۶۔ وہ دوسروں کو اس سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دوری اختیار کرتے ہیں، اپنے سوا وہ کسی کو ہلاک نہیں کرتے لیکن سمجھتے نہیں ۔

 

 
۱۔ جب یہ لفظ معذرت اورجواب کے معنی میں لیا جائے گا تو اس صورت میں آیت کسی لفظ کے مقدر ہونے کی محتاج نہیں ہوگی ، لیکن اگر شرک کے معنی میں ہوتو ضروری ہے کہ لفظ ”نتیجہ“ کو مقدر مانا جائے یعنی ان کے شرک کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ قسم کھائیں گے کہ وہ مشرک نہیں تھے ۔
2۔ نور الثقلین، جلد اول، صفحہ ۷۰۸-
3۔ نور الثقلین ،جلد اول،صفحہ ۷۰۸-
 

 

سب سے بڑا گواہحق قبول نہ کرنے والوں کا طرز عمل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma