۵۔ روایت کے آخری جملہ کا مفہوم کیا ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
۴۔ حضرت علی - نے اور اہلِ بیت نے اِس حدیث سے استدلال کیوں نہیں کیا؟ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا

بعض کہتے ہیں کہ اگر یہ آیت حضرت علی  کو خلافت وولایت کا منصب عطا کرنے اور واقعہ غدیر سے مربوط ہے تو پھر یہ آخری جملہ کہ: ”ان الله لایھدی القوم الکافرین“ یعنی ”خدا کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا“ اس مسئلے سے کیا ربط رکھتا ہے ۔
اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ لفظ ”کفر“ لغت میں بھی اور اسی طرح قرآن کی زبان میں بھی انکار، مخالفت اور ترک کے معنی میں ہے ۔ کبھی انکار خدا یا انکار نبوت پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے ہے اور کبھی دوسرے احکام کے مقابلے میں انکار یا مخالفت پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، سورہٴ آل عمران آیت۹۷ میں حج کے بارے میں ہے:
<وَمَن کَفَرَ فَاِنّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ
”جو لوگ حج کے حکم کو پائمال کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے خدا تمام جہانوں سے بے نیاز ہے“
سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۰۲ میں جادوگروں کے لئے بھی اور ان کے بارے میں بھی کہ جو جادو میں آلودہ نہیں لفظ ”کفر“ بولا گیا ہے:
<وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اٴَحَدٍ حَتَّی یَقُولاَإِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَتَکْفُرْ
سورہٴ ابراہیم آیت۲۲ میں بھی ہے کہ شیطان اُن لوگوں کے مقابلے میں کہ جنھوں نے اس کی پیروی اور اطاعت کی، قیامت کے دن صریحاً اظہار نفرت کرتے ہوئے اُن سے کہے گا کہ تم نے احکام الٰہی کی اطاعت میں مجھے اس کا شریک قرار دیا تھا اور میں آج تمھارے اس کام سے کفر کرتا ہوں:
<إَنِّیْ کَفَرْتُ بِمَا اٴَشْرَکْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ(ابراہیم/۲۲)
اس بناپر کفر کا اطلاق مسئلہ ولایت ورہبری کے مخالفین پر ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
۶۔ ایک ہی زمانہ میں دو ولی ہوسکتے ہیں؟
ایک اور بہانہ جو اس متواتر حدیث اور اسی طرح زیر بحث آیت سے روگردانی کے لئے کیا گیا ہے یہ ہے کہ اگر پیغمبر نے حضرت علی  کو غدیر خم میں ولایت ورہبری وخلافت کے لئے مقرر کردیا ہوتو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ہی زمانہ میں دو رہبر اور دو پیشوا ہوجائیں گے ۔
لیکن اس آیت کے نزول اور حدیث کے ورود کے زمانے کے خاص اوضاع وشرائط اور مخصوص حالات و کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اسی طرح اُن قرائن پر توجہ کرتے ہوئے کہ جو پیغمبر اسلام کی زندگی کے آخری مہینوں میں واقع ہوا ہے جبکہ آپ آخری احکام کو لوگوں تک پہنچا رہے تھے ۔ خصوصاً جب کہ آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ میں بہت جلد تمھارے درمیان سے جارہا ہوں اور دو گرانمایہ چیزیں تمھارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں ۔
جو شخص یہ گفتگو کررہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے جانشین کے مقرر کرنے کا انتظام میں مصروف ہے اور وہ آئندہ کے لئے پروگرام دے رہا ہے، نہ کہ اپنے زمانے کے لئے ۔ لہٰذا اس سے صاف واضح اور روشن ہے کہ اس سے دو امیروں اور دو پیشواؤں کا ایک ہی زمانے میں وجود مقصود نہیں ہے ۔
وہ بات جو خاص طور پرلائق توجہ ہے یہ ہے کہ ایک طرف تو بعض علمائے اہل سنت یہ اعتراض پیش کررہے ہیں تو بعض دوسرے ایسے ہیں جنھوں نے اس کے مقابلے میں ایک اور اعتراض پیش کردیا ہے اور وہ یہ کہ پیغمبر نے حضرت علی  کی ولایت وخلافت کے منصب پر تقرری تو کی ہے لیکن اس کی تاریخ صاف اور واضح طور پر بیان نہیں فرمائی، تو اس صورت میں کیا رکاوٹ ہے کہ یہ ولایت وخلافتِ علی  کا بیان دوسرے تین خلفاء کے بعد کے لئے ہو۔
حقیقتاً کتنی حیرت کی بات ہے کہ کوئی چھت کے اُس طرف گررہا ہے اور کوئی اس طرف، لیکن متن واقعہ کو مان لینے میں تعصبات حائل ہوگئے ہیں ۔ ذرا کوئی اُن سے یہ تو پوچھے کہ اگر پیغمبر اکرم یہ چاہتے تھے کہ اپنے چوتھے خلیفہ کو معین کریں اور مسلمانوں کے آئندہ کی فکر تھی تو کیوں اپنے پہلے، دوسرے اور تیسرے خلیفہ کا ذکر جس کا تعین چوتھے پر مقدم ولازم تھا غدیرِ خم کے خطبہ میں نہ فرمایا ۔
ہم یہاں پر اپنا سابقہ بیان دہراتے ہیں اور اس بحث کو ختم کرتے ہیں کہ اگر مخصوص نظریات درمیان میں نہ ہوتے یہ تمام اعتراضات اس آیت اور اس حدیث کے سلسلے میں نہ کئے جاتے جس طرح کہ دوسرے مواقع اس قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوا ہے ۔ 

۶۸# قُلْ یَااٴَھْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلیٰ شَیْءٍ حَتَّی تُقِیمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ وَلَیَزِیدَنَّ کَثِیرًا مِنْھُمْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ طُغْیَانًا وَکُفْرًا فَلاَتَاٴْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ
۶۹# إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ھَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَی مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُونَ
ترجمہ
۶۸۔ اے اہلِ کتاب تم کچھ وقت کچھ وقعت نہیں رکھتے جب تک کہ تم تورات و انجیل اور اس کو جو تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے قائم اور برپانہ کرو لیکن جو کچھ تجھ پر تیرے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے (نہ صرف ان کی بیداری کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ)اُن میں سے بہت سوں کے طغیان اور کفر کو زیادہ کرتا ہے ۔ اس بناپر اس کافر قوم (اور ان کی مخالفت)سے غمگین نہ ہو۔
۶۹۔ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور یہودی، صائبین اور عیسائی جو بھی خدائے یگانہ اور روز قیامت پر ایمان لے آئے گا اور عمل صالح بجالائے گا تو نہ ایسے لوگوں پر کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ ہی وہ محزون و مغموم ہوں گے ۔

شان نزول

تفسیر ”مجمع البیان“ اور تفسیر قرطبی میں ابن عباس سے اس طرح منقول ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبر کی خدمت میں آئی اور پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ یہ اقرار کرتے ہیں کہ تورات خدا کی طرف سے ہے ۔ پیغمبر نے اثبات میں جواب دیا: انھوں نے کہا کہ ہم بھی تورات کو قبول کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے علاوہ اور کسی چیز پر ایمان نہیں رکھتے (در حقیقت تورات ہمارے اور آپ کے درمیان قدر مشترک ہے لیکن قرآن ایسی کتاب ہے کہ جس پر صرف آپ ہی عقیدہ رکھتے ہیں، تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم تورات کو قبول کرلیں اور اس کے علاوہ کی نفی کردیں) اس پر پہلی آیت نازل ہوئی اور انھیں جواب دیا گیا ۔

۴۔ حضرت علی - نے اور اہلِ بیت نے اِس حدیث سے استدلال کیوں نہیں کیا؟ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma