انتخابِ جانشین پیغمبر ہی آخری کار سالت تھا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
یَااٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ واقعہ غدیر کا خلاصہ

انتخابِ جانشین پیغمبر ہی آخری کار سالت تھا

اس آیت کا ایک مخصوص لب ولہجہ ہے جو اسے اس سے پہلی آیات اور اس کے بعد کی آیات سے ممتاز کرتا ہے ۔ اس آیت میں روئے سخن صرف پیغمبر کی طرف ہے اور یہ آیت صرف انہی کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے ۔ <یَااٴَیُّھَا الرَّسُولُ اے پیغمبر! سے اس آیت کی ابتدا ہورہی ہے اور یہ آیت صراحت اور تاکید کے ساتھ پیغمبر کو حکم دے رہی ہے کہ جو کچھ اُ ن پر اُن کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اُسے لوگوں تک پہنچادیں < بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک(۱)اس کے بعد (اس حکم کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے) تاکید مزید کے طور پر اس خطرے سے متنبّہ کرتا ہے کہ اگر تم نے یہ کام نہ کیا (حالانکہ وہ ہرگز اس کام کی سرانجام دہی کو ترک نہ کرتے ) تویہ ایسا ہوگا گویا تم نے (کوئی) کار رسالت سرانجام ہی نہیںدیا <وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ ۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم کے اضطراب وپریشانی کو دور کرنے کے لئے انھیں تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے: اس رسالت اور پیغام کی ادائیگی کے بارے میں تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خدا تمھیں اُن خطرات سے محفوظ رکھے گا<وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس۔
اور آیت کے آخر میں اُن لوگوں سے جو اس مخصوص پیغام کا انکار کریں اور اس کے خلاف ہٹ دھرمی کرتے ہوئے کفر اختیار کرلیں ایک تہدید اور سزا کے عنوان سے یوں کہتا ہے: خدا ہٹ دھرمی کرنے والے کافروں کو ہدایت نہیں کرتا <إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ۔
آیت کے جملوں کی بندش، اس کا مخصوص لب ولہجہ اور اس میں پے در پے تاکیدوں پر تاکیدیں اور آیت کا ”یا ایہا الرسل“ سے شروع ہونا جو تمام قرآن مجید میں صرف دو مقام پر ہے اور اس حکم کی تعمیل اور اس رسالت کی تبلیغ نہ کرنے کی صورت میں پیغمبر کو یہ تہدید کہ اگر تم نے اس حکم کے پہنچانے میں کوتاہی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے کوئی رسالت سرانجام ہی نہیں دیا جو قرآن میں صرف اسی آیت میں ہے، اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ گفتگو کسی ایسے اہم امر کے متعلق ہورہی ہے کہ جس کی تبلیغ نہ کرنا کوئی بھی کارِ رسالت سرانجام نہ دینے کے برابر ہے ۔
اس کے علاوہ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ موضوع ایسا تھا جس پر شدّت کے ساتھ مخالفت پیدا ہوچکی تھی اور اس موضوع کے مخالفین اتنے سخت تھے کہ اُن کی مخالفت کے پیش نظر پیغمبر بہت ہی پریشان تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس اعلان کو سن کر اسلام اور مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کردیں اسی لئے خداوندتعالیٰ انھیں تسلی دیتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسا ایسا اہم مقصد ومطلب تھا جس کے پہنچانے کے لئے خداوندتعالیٰ اپنے پیغمبر کو اتنی تاکید کے ساتھ حکم دے رہا ہے؟ در آں حالیکہ جب ہم اس سورہ کے نزول کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ مسلّماً پیغمبر کی عمر کے آخری دنوں میں نازل ہوئی ہے ۔
کیا یہ توحید اور شرک وبت پرستی سے مربوط مسائل تھے جو برسوں پہلے پیغمبر اور مسلمانوں کے لئے حل ہوچکے تھے؟
یا یہ مسائل احکام شرع اور قوانین اسلام سے متعلق تھے؛ جبکہ اس وقت تک اُن کے اہم ترین مسائل بیان ہوچکے تھے ۔
یا یہ مسائل اہلِ کتاب ویہود ونصاریٰ سے مربوط تھے؛ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ بنی النضیر، بنی قریضہ اور بنی قینقاع نیز خیبر وفدک اور نصارائے نجران کے واقعہ کے بعد اہلِ کتاب کا کوئی مسئلہ مسلمانوں کے لئے مشکل نہیں سمجھا جاتا تھا ۔
یا اس کا رابطہ منافقین کے ساتھ تھا ؟ در آنحالیکہ ہمیں معلوم ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب اسلام کا پورے جزیرے نمائے عرب پر تسلط اور نفوذ ہوگیا تھا تو منافقین کا معاشرے میں کوئی مقام ہی نہیں رہا تھا اور ان کی قوت بالکل ٹوٹ چکی تھی اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ ان کے باطن میں تھا ۔
حقیقتاًاب وہ کونسا اہم مسئلہ تھا جو پیغمبر کی زندگی کے آخری دنوں میں باقی رہ گیا تھا کہ مذکورہ بالا آیات جس کے بارے میں اس قسم کی تاکید کررہی ہے ۔
اس حقیقت میں بھی تردید کی گنجائش نہیں ہے کہ پیغمبر کا اضطراب اور پریشانی اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے نہیں تھی بلکہ مخالفین کی طرف سے ان احتمالی کارشکنیوں اور مخالفین کے بارے میں تھی جن کا نتیجہ مسلمانوں کے لئے خطرات اور نقصانات کی صورت میں نکلتا ۔
تو کیا پیغمبر کے جانشین کے تعین اور اسلام ومسلمین کی آئندہ سرنوشت کے سوا کوئی مسئلہ ایسا ہوسکتا ہے جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں ۔
اب ہم اُن مختلف روایات کی طرف لوٹتے ہیں جو اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کی متعدد کتابوں میں آیتِ مذکور بالا کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ان روایات سے مذکورہ احتمال کے ثابت کرنے میں کہاں تک استفادہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ہم اُن اعتراضات اور سوالات پر بحث کریں گے جو اس تفسیر کے بارے میں اہل سنت کے بہت سے مفسّرین کی طرف سے ظاہر کئے گئے ہیں ۔

آیت کی شان نزول

اگرچہ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس آیت سے مربوط حقائق کسی قسم کی پردہ پوشی کے بغیر تمام مسلمانوں کے ہاتھوں تک نہیں پہنچائے گئے اور پہلے سے کئے گئے اور مذہبی تعصّبات اس کے اظہار سے مانع ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اہلِ سنت کے علماء کی تحریر کردہ مختلف کتابوں میں خواہ وہ تفسیر کی کتابیں ہوں یاحدیث وتاریخ کی، اُن میں بہت زیادہ روایات ایسی ملتی ہیں جو صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ آیت مذکورہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ان روایات کو بہت سے اصحاب پیغمبر نے نقل کیا ہے ۔ مثلاًز ید ابن ارقم، ابوسعید خُدری، ابن عباس، جابر ابن عبد الله انصاری، ابوہریرہ، برآء ابن عازب، حذیفہ، عامر بن لیلی بن ضرہ اور ابن مسعود۔ یہ سب کے سب اصحاب پیغمبر اس بات پر متفق ہیں کہ آیت مذکور حضرت علی علیہ السلام اور واقعہ غدیر کے متعلق ہی نازل ہوئی ہے ۔
یہ احادیث مذکورہ اصحاب پیغمبر سے مختلف طرق سے،
ابوسعید خدری کی بیان کردہ حدیث گیارہ طرق سے،
ابن عباس کی بیان کردہ حدیث گیارہ طرق سے اور برآء بن عازب کی بیان کردہ حدیث تین طرق سے نقل کی گئی ہے ۔
جن علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو تصریح کے ساتھ بیان کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں جن میں سے بعض کے نام نمونہ کے طور پر ذکر کررہے ہیں:
۱۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے اپنی کتاب ”مانزل من القرآن فی علی“ میں بحوا لہ خصائص ص/۲۹ یہ روایت درج کی ہے ۔
۲۔ ابوالحسن واحدی نیشاپوری نے ”اسباب النزول“ ص/۱۵۰ میں ۔
۳۔ حافظ ابو سعید سجستانی نے کتاب ”الولایہ“ میں کتاب ”طرائف“ کے حوالے سے ۔
۴ ابن عساکر شافعی نے ”درمنثور“ ج۲/ ص۲۹۰ کے حوالے سے ۔
۵۔ فخر الدین رازی نے ”تفسیر کبیر“ ،ج۳، ص۶۳۶ میں ۔
۶۔ ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“ میں ۔
۷۔ ابن صباغ مالکی نے ”فصول المہمہ“، ص۲۷ پر ۔
۸۔ جلال الدین سیوطی نے ”درّ منثور“، ج۲، ص۲۹۸ میں ۔
۹۔ قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“، ج۳، ص۵۷ میں ۔
۱۰۔ شہاب الدین آلوسی نے ”روح المعانی“ ج۶، ص۱۷۲ پر ۔
۱۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے”بیابیع المودة“ میں ص۱۲۰پر ۔
۱۲۔ بدرالدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح البخاری“ ج۸، ص۵۸۶ پر ۔
۱۳۔ شیخ محمد عبدہ مصری نے تفسیر المنار، ج۶، ص۴۶۳ پر ۔
۱۴۔ حافظ ابن مردویہ (متوفی ۴۱۶) نے سیوطی کے حوالے سے ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء اہل سنت نے آیت مذکورہ کی یہی شان نزول بیان کی ہے اس سے یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ مذکورہ علماء ومفسّرین نے آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شان نزول کو قبول بھی کرلیا ہے بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اُنھوںنے اس مطلب سے مربوط روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔
اگرچہ اس معاشرے کے مخصوص حالات کے خوف سے یا پہلے سے کئے ہوئے غلط فیصلے کی بناپر صحیح فیصلہ کرنے میں حائل ہوتی ہے، بعض نے تو یہ کوشش کی ہے کہ جتنا بھی ہوسکے اس کی اہمیت کو گھٹاکر پیش کیا جائے ۔ مثلاً فخرالدین رازی نے جس کا تعصّب مخصوص مذہبی مسائل میں مشہور ومعروف ہے، اس شان نزول کی اہمیت کم کرنے کے لئے اسے آیت کا دسواں احتمال قرار دیا ہے اور دوسرے نو (۹) احتمال جو انتہائی کمزور اور بہت ہی بے ہودہ اور بے وقعت ہیں انھیں پہلے بیان کیا ہے ۔
فخرالدین رازی پر زیادہ تعجب نہیں کیونکہ اس کی تو ہر جگہ یہی روش ہے لیکن تعجب تو اُن روشن فکرلکھنے والوں پر ہوتا ہے جنہوں نے اس آیت کی شان نزول کے بارے میں کہ جس سے مختلف قسم کی کتابیں بھری پڑی ہیں مطقاً کوئی گفتگو ہی نہیں کی یا اِس کو اتنی کم اہمیت دی ہے کہ کسی کی اس طرف توجہ ہی نہ جائے، جیسا کہ سید قطب نے ”فی ظلال“ میں اور رشید رضا نے ”المنار“ میں اس کی شان نزول کو بالکل بیان ہی نہیں کیا ۔
ہمیں نہیں معلوم کہ آیا ان کا ماحول اس حقیقت کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا یا تعصب آمیز فکری حجاب اتنا زیادہ تھے کہ روشن فکری کی بجلی کی چمک اُن پَردوں کو ہٹاکر اس حقیقت کی گہرائی تک نہ پہنچ سکی ۔
البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس آیت کی شان نزول کو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں برملا طور پر تسلیم کیا ہے ۔ لیکن انھوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ آیت مسئلہ ولایت و خلافت پر ولایت کرتی ہے ہم ان کے اعتراضات اور جوابات انشاء اللہ آگے چل کر بیان کریں گے ۔
بہر حال جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ وہ روایات جو اس بارے میں شیعہ کتب ہی میں نہیں بلکہ اہل سنت کی معروف کتابوں میں بھی ہیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا انکار کیا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی انھیں آسانی کے ساتھ نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن مجید کی دوسری آیات کی شان نزول میں تو ایک دو احادیث پر ہی اِکتفا کر لیا جاتا ہے لیکن اِس آیت کی شان نزول کے بارے میں اتنی کثیر روایات کو بھی کیوں کافی نہیں سمجھا جاتا؟ کیا یہ آیت ایسی خصوصیت رکھتی ہے جو دوسری آیات نہیں رکھتیں؟ اور کیا اس آیت کے سلسلے میں اس سخت رویّے کے متعلق کوئی منطقی دلیل مل سکتی ہے؟
دوسری بات جس کی یاد دہانی اس مقام پر ضروری ہے یہ ہے کہ جو روایات ہم نے اوپر بیان کی ہیں وہ تو صرف وہ تھیں جو اس آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں (یعنی وہ روایات تھیں جو اس آیت کی شانِ نزول کے متعلق تھیں) ورنہ وہ روایات جو غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اکرم (ص) کے خطبہ پڑھنے اور حضرت علی علیہ السلام کا بطور وصی و ولی کے تعارف کرانے کے بارے میں منقول ہیں وہ تو اُن سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔ چنانچہ علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب ”الغدیر“کو ۱۱۰ اصحاب پیغمبر سے اور ۸۴ تابعین سے اور ۳۶۰ علماء سے اور مشہور کتب اسلامی سے اسناد و مدارک کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ یہ صورتِ حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مذکورہ حدیث قطعی ترین متواتر احادیث میں سے ہے اور اگر کوئی شخص ایسی حدیث و روایت کے قطعی و یقینی ہونے میں بھی شک و شبہ کرے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ وہ کسی بھی متواتر حدیث کو قبول نہیں کرسکتا ۔ ان تمام روایات کے متعلق بحث کرنا جو آیت کی شانِ نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور اسی طرح اُن تمام روایات کے سلسلہ میں گفتگو کرنا جو حدیث غدیر کے متعلق نقل ہوئی ہیں ایک ضخیم کتاب کا محتاج ہے ۔ ان کا تفصیلی بیان ہمیں تفسیر کے دائرے سے خارج کردے گا لہٰذا ہم اسی مقدار پر قناعت کرتے ہیں اور ان اشخاص کو جو اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ سیوطی کی ”درمنثور“، علامہۺ کی ”الغدیر“، نور اللہ شوستری کی ”احقاق الحق“، شرف الدین کی ”المراجعات“ اور محمد حسن مظفر کی ”دلائل الصدق“ جیسی کتابوں کی طرف رجوع کرے ۔


۱۔ لفظ ”بلّغ“ جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہے ”ابلغ“ کی نسبت زیادہ تاکید ظاہر کرتا ہے ۔

 

یَااٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ واقعہ غدیر کا خلاصہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma