اتمام حجت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
اس دن کہ جس میں ان سب کو جمع ومحشور کرے گا تیرا پروردگار بے نیاز بھی اور رحیم ومہربان بھی ہے

گذشتہ آیات میں شیطان صفت ستمگروں کی قیامت کے دن سرنوشت بیان ہوئی ہے، اس غرض سے کہیں یہ تصور نہ کرلیا جائے کہ انھوں نے غفلت کی حالت میں یہ کام انجام دئے ہوں گے اب ان آیات میں واضح کرتا ہے کہ انھیں کافی تنبیہ کی گئی ہے اوران پر اتمام حجت کی گئی ہے ، لہٰذا قیامت کے دن وہ ان سے کہے گا: اے گروہ جن وانس! کیا تم ہی میں سے رسول تمھارے پاس نہیں آئے تھے اوت ہماری آیات بیان نہیں کی تھی اور قسم کے دن کی ملاقات سے تمھیں ڈرایا نہیں تھا ( یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ اٴَلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہَذَا)۔
”معشر“ اصل میں” عشرة “سے جودس کے عدد کے معنی میں ہے، لیا گیا ہے اور چونکہ دس کا عدد ایک اکمل عدد ہے، لہٰذا معاشرہ کا لفظ ایک کامل جماعت پر جو مختلف اصناف اور طوتفوں پر مشتمل ہو ، بولا جاتا ہے، اس بارے میں کہ آیا جنوں کی طرف بھیجے گئے رہنما خود ان ہی کی جنس ونوع سے تھے یا نوع بشر میں سے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن سورہٴ جن کی آیات سے جو کچھ اچھی طرح سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ :قرآن اور اسلام سب کے لئے ہے حتی کہ جنوں کے لئے بھی نازل ہوا ہے، اور پیغمبر اسلام سب کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی جانب سے ان کو دعوت دینے کے لئے خود ان ہی میں سے پیغام دینے والے اور نمائندے مامور ہوں اس بارے میں مزید تشریح اور ”جن“ کے علمی معنی کے بارے میں بھی انشاء للہ قرآن مجید کے پارہ ۲۹ میں سورہٴ جن کی تفسیر میں آئے گی۔
لیکن اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ لفظ” منکم“ (تم میں سے) اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہرگروہ کے رسول ایک ہی گروہ سے ہوں یا تمام گروہوں میں ے ہوں۔
اس کے بعد کہتا ہے کہ قیامت کے دن کچھ چھپایا نہیں جاسکے گا او ر اس روز سب چیزوں کی نشانیاں آشکار ہوں گی اور کوئی شخص کسی چیز کو چھپا نہیں سکے گا، سب کے سب خدا کی اس پرسش کے سامنے اظہار کرتے ہوئے، کہیں گے ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور اس بات کا عتراف کرتے ہیں کہ ایسے رسول آئے تھے اور انھوں نے تیرے پیغام ہمیں پہنچایا تھا، مگر ہم نے ان کی مخالفت کی تھی ( قَالُوا شَہِدْنَا عَلیٰ اٴَنفُسِنَا)۔
ہاں ! ان کے پاس پروردگار کی طرف سے کافی دلائل موجود تھے اور وہ راہ اور چاہ تمیز کرتے تھے ،”لیکن دنیا کی پرفریب زندگی اور اس کے وسوسہ انگیز زرق وبرق نے انھیں دھوکا دیا“( وَغَرَّتْہُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا)۔
یہ جملہ اچھی طرح سے واضح کررہا ہے کہ انسانوں کے لئے راہ سعادت میں سب سے بڑی رکاوٹ ، جہاں مادہ کے مظاہر کے سامنے بے لگام ہوکرسرتسلیم خم کرنا اور بے حد وحساب دلبستگی ہے ایسی دلبستگیاں کہ جو انسان کو زنجیر غلامی کی طر ف کھینچ لے جاتی ہے اور اسے ہر قسم کے ظلم وستم ، تعدی وانحراف اور خود کواہی وطغیان کی دعوت دیتی ہے۔
قرآن دوبارہ تاکید کرتا ہے: وہ صراحت کے ساتھ اپنے ضرر میں اور اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کفر کی راہ پر چلے تھے اور منکرین حق کی صف میں شامل ہوئے تھے( وَشَہِدُوا عَلیٰ اٴَنفُسِہِمْ اٴَنَّہُمْ کَانُوا کَافِرِینَ )۔
بعد والی آیت میں گذشتہ آیت کے اسی مضمون کو دہرایا گیا ہے لیکن ایک قانون کلی اور دائمی سنت الٰہیہ سے کی صورت میں بیان کیا گیا ہے ”یہ اس بنا پر کہ تیرا پروردگار کبھی بھی شہروں اور بستیوں کے لوگوں کو ان کے ظلم وستم کی وجہ سے غفلت کی حالت میں ہلاک نہیں کیا کرتا )مگر یہ کہ ان کی طرف انبیاء ورسل کو بھیجے اور انھیں ان کے برے اعمال کی برائی طی طرف متوجہ کرے اور جو کہنے کی باتیں ہیں وہ ان سے کہے(ذٰلِکَ اٴَنْ لَمْ یَکُنْ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَاٴَہْلُہَا غَافِلُونَ )۔
لفظ ”بظلم“ اس معنی میں بھی ہوسکتا ہے کہ خدا کسی کو اس کے مظالم کی بنا پر غفلت کی حالت میں پیغمبروں کو بھیجنے سے پہلے عذاب اور سزا نہیں دیتا اور اس معنی میں بھ ہوسکتا ہے کہ خدا افراد غافل کو ظلم وستم سے عذاب سزا نہیں دیتا، کیوں ک انھیں اس حالت میں سزا دینا ظلم وستم ہے اور خدا نود تعالی اس سے بالا وبرتر ہے وہ کسی پر ظلم وستم کرے ۔(۱)
اس کے سر انجام کا بعد کی آیت میں خلاصہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا ہے: ان گروہوں میں سے ہر ایک نیکو کاروں وبدکار، فرمانبردار وقانون شکن، حق طلب وستمگر وہاں پر اپنے اعمال کے مطابق درجات ومراتب کے حامل ہوں گے اور تیرا پروردگار کبھی بھی ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے، بلکہ وہ سب کو جانتا ہے اور وہ ہر شخص کو اس کی لیاقت کے مطابق دے گا(وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ)۔
یہ آیت دوبارہ اس حقیقت کو تاکید کے ساتھ بیان کررہی ہے کہ تمام مراتب اور درجات اور درکات خود انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اور چیز کا۔

۱۳۳ وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِنْ یَشَاٴْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ
۱۳۴ إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ
۱۳۵ قُلْ یَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنِّی عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَکُونُ لَہُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّہُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ۔
ترجمہ
۱۳۳۔ اور تیرا پروردگار بے نیاز اور مہربان ہے(لہٰذا وہ کسی کے بارے میں ظلم وستم نہیں کرتا بلکہ یہ اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتتے ہیں ) اگر وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمھارے بعد تمھاری بجائے جو کچھ چاہے (اور جسے چاہے) تمھارا جانشین بنا دے جیسا کہ تمھیں دوسری اقوام کی نسل سے وجود میں لایا ہے۔
۱۳۴۔ جو کچھ تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ آکر رہے گااورتم (خدا کو ) عاجز ونوتواں نہیں کرسکتے( کہ اس کی عدلات وسزا سے بچ کر بھاگ جاؤ)
۱۳۵۔ کہہ دو اے قوم !جو کام( تم سے ہوسکتا ہے اور) تمھاری قدرت میں ہے کر گزرو۔ میں (بھی اپنے فریضہ پر) عمل کروں گا، لیکن بہت جلد تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کونسا شخس نیک انجام رکھتا ہے (اور کامیابی کس کے لئے ہے لین) یہ بات مسلم ہے کہ ظالم فلاح ونجات حاصل نہیں کریں گے۔

 


۱۔ پہلی صورت میں ”ظلم“ کا غافل ہے کافر ہے
اس دن کہ جس میں ان سب کو جمع ومحشور کرے گا تیرا پروردگار بے نیاز بھی اور رحیم ومہربان بھی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma