چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
نصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجامنعمتیں بخشے والے کو پہچانیے

۱۔ بعض اوقات یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان آیات اور گذشتہ آیات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کیوں کہ گذشتہ آیات میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی گئی تھی کہ مشرکین ہجوم مشکلات کے وقت خدا کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور خدا کے سوا ہر کسی کو بھلا دیتے ہیں لیکن ان آیات میں ہے کہ ہجوم مشکلا ت کے وقت بھی وہ بیدار نہیں ہوتے ۔
ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے یہ ظاہری اختلاف ختم ہوجاتا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ شدائد کے ظہور کے وقت جلدی گزرجانے والی اور وقتی بیداریاں بیداری شمار نہیں ہوتیں کیوں کہ وہ جلد ہی اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔
گذشتہ آیات میں چونکہ توحید فطری کا بیان کرنا مقصود تھا، اس کے ثبوت کے لئے وہی بیداریاں اور وقتی توجہات اور غیر خدا کو فراموش کرنا ہی کافی تھا خواہ ایسا حادثہ کے موقع پرہی ہوا ہو لیکن ان آیات میں موضوع سخن ہدایت یابی اور بے راہ روی سے رای راست کی طرف پلٹنے سے مطلق ہے اور مسلمہ طور پر جلد گزرجانے والی اور وقتی بیداری اس میں کوئی اثر نہیں کرتی۔
بعض اوقات خیال ہوتا ہے کہ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیات پیغمبر کے ہمعصر مشرکین کے ساتھ مربوط ہے لیکن زیر بحث آیات گذشتہ اقوام سے متعلق ہیں لہٰذا ان دونوں میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے(1) ۔
لیکن یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے کہ پیغمبر کے ہمعصر ہٹ دھرم مشرک گذشتہ زمانہ کے گمراہوں سے بہتر ہوں، اس بنا پر صحیح حل وہی ہے ج اوپر بیان ہوچکا ۔
۲۔ زیر نظر آیات میں ہے کہ جب شدائد کے ظہور سے تربیتی اثر نہ ہوتو خدا وند عالم ایسے گناہگاروں پر نعمتوں کے درازے کھو دیتا ہے، تو کیا یہ کام تنبلیہ کے بعد تشویق کے لئے ہے یا عذاب کے دردناک ہونے کا ایک مقدمہ ہے؟ یعنی اصطلاح کے مطابق اس قسم کی نعمتیں نعمت استدراجی ہیں، جو سرکش بندوں کو بتدریج آہستہ آہستہ نازونعمت، خوشحالی وسروراور ایک قسم کی غفلت میں ڈبو دیتی ہے اور پھر ایک دم ان سے تمام نعمتوں کو چھین لیا جا تا ہے ۔
آیت میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جن سے دوسرے احتمال کی تقویت ملتی ہے لیکن اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ دونوں ہی احتمال مراد ہوں، یعنی پہلے بیداری کے لئے تشویق ہو اور اگر وہ موثر نہ ہو تو وہ نعمت کے چھیننے اور دردناک عذاب کرنے کے لئے ایک مقدمہ ہو ، ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے اس طرح نقل ہوا ہے:
اذا راٴیت اللّٰہ یعطی العبد من الدنیا علی معاصیہ ما یحب فانما ھو استدراج ثم تلا رسول اللّٰہ فلما نسو---
”جب تم یہ دیکھو کہ خدا گناہوں کے مقابلے میں نعمت بخشتا ہے تو تم سمجھ لو کہ یہ سزا کا مقدمہ اور تمہید ہے، پھر آپ نے اوپر والی آیت کی تلاوت کی“ (مجمع البیان ونورالثقلین ذیل آیہ)
حضرت علی علیہ السلام سے ایک حدیث میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
”یا ابن آدم اذا راٴیت ربک سبحناہ یتابع علیک نعمہ وانت تعصیہ فاحذرہ“
(نہج البلاغہ ،کلمہ ۲۵)
”اے آدم کے بیٹے! تو یہ دیکھے کہ خدا تجھے پے در پے نعمتیں بخش رہا ہے جب کہ تو گنا ہ کرتا جارہا ہے، تو تو اس کی سزا اور عذاب سے ڈر کیوں کہ یہ عذا ب کا مقدمہ ہے“
کتاب تلخیص الاقوال میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے اس طرح نقل ہوا ہے :
امیر المومنین کے غلام قنبر کو حجاج کے سامنے پیش کیا گیا تو حجاج نے اس سے پوچھا کہ تو علی ابن ابی طالب (علیه السلام) کے لئے کیا کام کیا کرتا تھا، قنبر نے کہا کہ میں آپ(علیه السلام) کے لئے وضو کے اسباب فراہم کرتا تھا، حجاج نے پوچھا کہ علی (علیه السلام) جب وضو سے فارغ ہوتے تھے تو کیا کہا کرتے تھے، قنبر نے کہا کہ وہ یہ آیت پڑھا کرتے تھے:
”فلما ھوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شی“اور آخر آیت تک تلاوت کی، حجاج نے کہا کہ میرا گمان یہ ہے کہ علی اس آیت کو ہم پر تطبیق کیا کرتے تھے، قنبر نے پوری دلیری کے ساتھ جواب دیا، کہ جی ہاں! (نورالثقلین، جلد ۱،صفحہ ۱۸) ۔
۳۔ ان آیات میں ہے کہ بہت سے رنج اور حوادث سے مراد توجہ اور بیداری کی حالت کو ایجاد کرنا ہے اور یہ آفات اور بلاؤں کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ ہے، جس کے متعلق ہم توحید (2)کی بحث میں گفتگو کرچکے ہیں ۔
لیکن توجہ کے لائق بات یہ ہے کہ اس امر کو پہلے لفظ ”لعل“ (شاید) کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اس کے ذکر کا سبب یہ ہے کہ مصائب اور بلائیں بیداری کے لئے تنہا کافی نہیں ہے بلکہ یہ توآمادگی رکھنے والے دلوں کے لئے زمین ہموار کرتی ہے، ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ ”لعل“ کلام خدا میں عام طور سے ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں اور دوسری شرائط بھی درمیان میں پائی جاتی ہےں ۔
دوسرا یہ کہ یہاں تضرع کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو اصل میں دودھ کے پستان میں آجانے اور دوہنے والے کے سامنے اس کے مطیع ہونے کے معنی میں ہے، پھر اس کے بعد یہ لفظ تواضع اور خضوع کے ساتھ ملی ہوئی اطاعت کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا یعنی ان دردناک حادثات کو ہم اس لئے ایجاد کرتے تھے تاکہ وہ غرور وسرکشی اور خودخواہی کی سواری سے نیچے اترے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔
۴۔ یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ آیت کے آخر میں خدا وند تعالیٰ ( الحمد رب العالمین) کہتا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ظلم فساد کی جڑ کا کاٹنا اور ایسی نسل کا نابود ہوجانا جو اس کام کو جاری رکھ سکے اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ شکر وسپاس کی جگہ ہے ۔
اس حدیث میں جو فضیل بن عیاض نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
من احب بقاء الظالمین فقد احب ان یعصی اللّٰہ،ان اللّٰہ تبارک وتعالیٰ حمد بنفسہ بھلاک الظلمة فقال: فقطع دابرالقوم الذین ظلموا والحمد للّٰہ رب العالمین۔
جو ستمگروں اور ظالموں کی بقا چاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا کی نافرمانی ہوتی رہے اور یہ فرمایا کہ ستمگر قوم کی نسل منقطع کردی گئی اور حمد وسپاس مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو عالمین کا پرور دگار ہے ۔

 

۴۶قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَخَذَ اللَّہُ سَمْعَکُمْ وَاٴَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلَی قُلُوبِکُمْ مَنْ إِلَہٌ غَیْرُ اللَّہِ یَاٴْتِیکُمْ بِہِ انظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ ثُمَّ ھُمْ یَصْدِفُونَ۔
۴۷ قُلْ اٴَرَاٴَیْتَکُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ بَغْتَةً اٴَوْ جَھْرَةً ھَلْ یُھْلَکُ إِلاَّ الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ ۔
۴۸ وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلاَّ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ فَمَنْ آمَنَ وَاٴَصْلَحَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُونَ ۔
۴۹ وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا یَمَسُّھُمْ الْعَذَابُ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ۔
ترجمہ
۶۴۔کہہ دو کہ کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ اگرخدا تمھارے کان اور آنکھیں تم سے لے لے اور تمھارے دلوں پر مہر لگا دے(کہ تم کوئی بات نہ سمجھ سکو)تو خدا کے سوااور کون ہے کہ جو یہ چیزیں تمھیں دیدے، دیکھو ہم آیات کی کس طرح مختلف طریقوں سے تشریح کرتے ہیں اس کے بعد وہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔
۴۷۔کہہ دو کہ کیا تم نے یہ بھی غور کیا کہ اگر خدا کا عذاب اچانک (اور پوشیدہ) یا آشکار تمھارے پاس آجائے تو کیا ظالموں کے گروہ کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا ۔
۴۸۔ اور ہم پیغمبروں کو نہیں بھیجتے سوائے اس کے کہ وہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہوتے ہیں ، پس جو لوگ ایمان لے آئےں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے لئے نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ۔
۴۹۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ، ان کی نافرمانیوں کے سبب خدا وندتعالیٰ کا عذاب انھیں پہنچے گا ۔

 

 
1۔ فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں اس فرق کی طرف اشرہ کیا ہے (جلد ۱۲،صفحہ ۲۲۴) ۔
2۔ کتاب ”آفریدگار جہاں“اور کتاب ”جستجوئے خدا“ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
 
نصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجامنعمتیں بخشے والے کو پہچانیے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma