شرک کے تمام آثار مٹ جانے چاہئیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
عددی اکثریت کچھ اہمیت نہیں رکھتیایمان اور نور نظر

یہ آیات حقیقت میں توحید وشرک بارے میں گذشتہ مباحث کے نتائج میں سے ایک ، لہذاپہلی آیت”فاء“ تفریح کے ساتھ آئی ہے جو عام طور پر نتیجہ کے بیان کے لئے ہوتی ہے۔
اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ گذشتہ آیاتے میں مختلف بیانات کے ساتھ حقیقت توحید کا اثبات اور شرک وبت پرستی کا بطلان واضح ہوا ہے، اس مسئلہ کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ گوشت کھانے سے جو ”بتوں“ کے نام پر ذبح ہوتے احتراز کریں اور صرف ان جانوروں کے گوشت سے استفادہ کریں کہ جو خدا کے نام پرذبح ہوتے ہیں، کیوں کہ مشرکین عرب کی ایک عبادت یہ تھی کہ وہ بتوں کے لئے قربانی کرتے تھے اور ان کے گوشت سے تبرک کے طور پر کھاتے تھے اور یہ کام ایل قس، کی بت پرستی ہی تھا ۔
لہٰذا پہلے کہا گیا ہے: ان چیزوں میں سے کھاااؤ کہ جن پر اللہ کانام لیا جاتا ہے، اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ( فَکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ إِنْ کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِین)۔
یعنی ایمان محض دعوے ، گفتار اور عقیدہ کے نام نہیں ہے، بلکہ اس کا اظہار عمل سے بھی ہونا چاہئے، جو شخص خدائے یکتا پر ایمان رکھتا ہے وہ صرف اسی قسم کے گوشت میںسے کھاتا ہے البتہ امر ”کلوا“(کھاؤ) یہاں اس قسم کے گوشت کے کھانے کے وجو ب کے لئے نہیں بلکہ حقیقت میں اس سے مراد اس کا مباح اور اس کے غیر کا حرام ہونا ہے ۔
ضمنی طور پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس گوشت کا حرام ہونا کہ جس کے ذبح کے وقت اس پر خدا کا نام نہیں لیا جاتا، اس نکتہ نظر سے نہیں ہے کہ یہ بات صحت عامہ کے پہلو سے ہے کہ یہ کہاجائے کہ نام لینے سے کیا اثر ہوتا ہے، بلکہ اس کا ربط معنوی واخلاقی پہلوؤں اور توحید پرستی کی بنیادوں کو محکم کرنے کے ساتھ ہے۔
بعد والی آیت میںیہی بات دوسری عبارت سے بیان کی گئی جو اور زیادہ استدلال کے ساتھ ہے، فرمایا ہے:تم ان جانوروں سے کیوںمیں کھاتے کہ جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے؟ حالانکہ جو کچھ تم پر حرام ہے خدا نے اس کی تشریح کردی ہے (وَمَا لَکُمْ اٴَلاَّ تَاٴْکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ)۔
ہم یہ بات دوبارہ دلنشین کراتے ہیں کہ یہ توبیخ وتاکید حلال گوشت کے کھانے کو ترک کرنے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ سرف ان گوشتوں سے کھانا چاہئے اور ان کے سوا دوسرے گوشتوں سے استفادہ نہیں کرناچاہیے اور دوسرے لفظوں میں نظر نکتہ مقابل اور مفہوم جملہ پر ہے ، اسی لئے ”قد فصل لکم ما حرم علیکم“ (خدانے نے اس کی تشریح کردی ہے جو تم پر حرام ہے) کے جملہ سے استدلال کیا گیاہے۔
اس بارے میں کہ یہ بات کس سورہ اور کس آیت میں آئی ہے کہ جس میں حلال وحرام گوشت کی وضاحت کی گئی ہے، ممکن ہے کہ یہ تصور کیا جائے کہ اس سے مراد سورہٴ مائدہ ہے یا اسے سورہ کی بعض آیات ہیں جو آئندہ آئیں گی(مثلا آیہ ۱۴۵)لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور سورہٴ مائدہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور اس سورت کی آئندہ آنے والی آیات بھی ان آیات کے نزول کے وقت ابھی تک نازل نہیں ہوئی تھی، یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان دونوں احتمالات میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد یا تو سورہٴ نحل کی آیہ ۱۱۵ہے کہ جس میں صراحت کے ساتھ حرام گوشتوں کی بعض اقسام کا بیان آیا ہے اور خصوصا وہ جانور جو غیر خدا کے لئے ذبح ہوئے ہوں اور یا اس سے مراد ان گوشتوں کے بارے میں حکم ہے جو پیغمبر کے وسیلہ سے دئے گئے ہیں، کیوں کہ وہ کوئی حکم وحی الٰہی کے بغیر نہیںدیتے تھے ۔
پھر ایک صورت مستثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: مگر اس صورت کہ تم مجبور ہوجاؤ( إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْہِ)۔
چاہے یہ اضطرار بیابان میں گرفتار ہوجانے اور شدید بھو کی وجہ سے ہو یا مشرکین کے چنگل میں گرفتار ہونے اورکے اس امر پر مجبور کرنے کی وجہ سے ہو۔
اس کے بعد مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: بہت سے لوگ دوسروں کو جہل ونادانی اور ہواوہوس کی بنا پر گمراہ کرتے ہیں ( وَإِنَّ کَثِیرًا لَیُضِلُّونَ بِاٴَہْوَائِہِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ)۔
اگرچہ ہوا پرستی اور جہل ونادانی اکثر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان دونوں کا ذکر زیادہ تاکید کے لئے اکٹھا کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے ”باہوائھم بغیر علم“۔
ضمنی طور پر تعبیر سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ عالم حقیقی ہرگز ہوا پرستی اور خیال آرئی کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اور جہاں یہ ان سے جاملا وہ جہالت ہے نا کہ علم ودانش۔
اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہوسکتا ہے مندرجہ بالا جملہ اس خیال وتصور کی طرف اشارہ ہوو مشرکین عرب میں موجود تھا تاکہ وہ مردہ جانوروں کاگوشت کھانے کے لئے اس طرح استدلال کیاکرتے تھے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ جانور جنھیں ہم خود زبح کریں انھیں تو ہم حلال سمجھ لیں جنھی ہمارے خدا مارا اسے ہم حرام شمار کریں؟۔
یہ بات ظاہر ہے یہ سفسطہ ایک بیہودہ خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، کیوں خدا نے مردہ جانور کو ذبح نہیں کیا اوراس کا سر نہین کاٹا کہ ان جانوروں کے ساتھ قیاس کریں جنھیں ہم نے ذبح کیا ہے اور اسی دلیل سے وہ قسم قسم کی بیماریوں کا مرکز ہیں اوراس کا گوشت فاسد اور خراب ہے، لہٰذا خدا وند تعالی نے اس کے کھانے کی اجازت نہیں دے ہے۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :تیرا پروردگار ان لوگوں کے بارے کہ جو تجاوز کار اور زیادرتی کرنے والے ہیں زیادہ آگاہ ہے( إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِینَ )۔
ایسے ہی لوگ فضول اور بودی دلیلوں کے زریعے نہ سرف یہ کہ راہ حق سے منحرف ہوجاتے بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کو بھیک منحرف کردیں۔
چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس فعل حرام کا چھپ کر اور پوشیدہ طور پر انجام دیں لہذااس کے ساتھ ہی اگلی آیت میں ایک قانون کلی کے طور کہا گیا ہے: آشکار اور پنہاں گناہ چھوڑدو(وَذَرُوا ظَاہِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَہُ )۔
کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میںکچھ لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ منافی عفت عمل (زنا) اگر چھپ کر کیا جائے تو کوئی عیب نہیں ہے وہ صرف اس صورت میں گناہ ہے کہ اگر اسے آشکار اور ظاہر بظاہر کیا جائے ، آج بھی کچھ لوگوں نے عملی طور پر اسی جاہلانہ منطق کو اپنایا ہوا ہے اور صرف آشکار اور ظاہر بظاہر گناہوں سے پریشان اور وحشت زدہ ہوتے ہیں لیکن چھپ کر گناہ کا ارتکاب کسی پریشانی کے بغیر کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت نہ صرف مذکورہ بالا منطق کی مذمت کرتی ہے بلکہ یہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے کہ جو اس کے علاوہ کہ جو بیان کیا جاچکا ہے دوسرے مفاہیم وتفاسیر کوبھی ، جو ”ظاہر“اور ”باطن“گناہ کے سلسلے میں بیان ہوئے ہیں، اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہے کہ ظاہری گناہوں سے مراد وہ گناہ ہے جو اعضائے بدن کے ساتھ انجام پاتے ہیں اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو دل ،نیت اور تصمیم وارادہ کے ذریعہ صورت پذیر ہوتے ہیں۔
اس کے بعد یاددہانی اور گناہگاروں کو تہدید کے طور پر اس بدبختی کے بارے میں جس کا وہ انتظار کررہے ہیں قرآن یوں کہتا ہے :وہ لوگ کہ جو گناہوں کا ارتکاب کررہے ہیں بہت جلدی اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ لےں گے (إِنَّ الَّذِینَ یَکْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوا یَقْتَرِفُونَ)۔
”کسب گناہ“ کی تعبیر (یکسبون الاثم) ایک عمدہ اور جالب نظر تعبیر ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ افراد انسانی جہان میں اس سرمایہ داروں کی طرح ہیں جو ایک بہت بڑے بازار میں قدم رکھتے ہیں اور کا سرمایہ ہوش ،عقل،عمر اور جوانی اور قسم قسم کی خدا داد قوتیں ہیں وہ لوگ کتنے بدبخت ہیں جو سعادت، افتخار، مقام، تقوی اور قر ب خدا کے حصول کے بجائے گناہ کمانے میں لگے رہیں۔
”سیجزون“ (عنقریب اپنی جزا دیکھےں گے) کی تعبیر ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اگرچہ بعض کی نظر میں قیامت دور ہے لیکن حقیقت وہ بہت قریب ہے اور یہ جہاں بہت تیزی کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور قیامت آجائے گی، یا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ زیادہ تر افراد اس دنیاوی زندگی میں ہی اپنے برے اعمال کے نتائج انفرادی اور اجتماعی رد عمل کے طور پر دیکھیں گے۔

۱۲۱ وَلاَتَاٴْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی اٴَوْلِیَائِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ اٴَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُون۔
ترجمہ
۱۲۱۔ اور اس (ذبیحہ) سے کہ جس پر خدا کا نام نہیں لیا گیا، نہ کھاؤاور یہ فعل گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کومخفی طور پر کچھ مطالب القاکرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے مجادلے اور جھگڑے کے لئے کھڑے ہوجائیں او راگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو تم بھی مشرک ہوجاؤ گے۔


تفسیر

گذشتہ آیات میں مسئلہ کے مثبت پہلو یعنی حلال گوشت کھانے کا ذکر کیا گیا تھا لیکن اس آیت میں زیادہ سے زیادہ تاکید کے لئے منفی پہلو اور اس کے مفہوم کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان گوشتوں میں سے کہ جن پر خدا نام ان کے ذبح کے وقت نہیں لیا گیا نہ کھاؤ(وَلاَتَاٴْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ)۔
اس کے بعد نئے سرے سے ایک مختصر سے جملے کے ساتھ اس عمل کو جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: یہ کام فسق وگناہ ہے اور راہ ورسم بندگی اور فرمان خدا کی اطاعت سے خروج ہے( وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ)۔
نیز اس غرض سے کے بعض سادہ لومسلمان ان کے شیطانی وسوسوں کا اثر قبول نہ کر لیں یہ اضافی کیا گیا ہے کہ شیاطین وسوسہ انگیز مطالب مخفی طور پراپنے دوستوں کو القا کرتے ہیں تاکہ ہمارے ساتھ مجادلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں ( وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی اٴَوْلِیَائِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ)۔
لیکن تم ہوش وہواس کے ساتھ رہو کیوں کہ ، اگر تم ان کے وسوسوں کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تو تم بھی مشرکین صف میں شامل ہوجاؤ گے

( وَإِنْ اٴَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُون)۔
یہ مجادلہ اور وسوسہ شاید اسی منطق کی طرف اشارہ ہو جو مشرکین ایک دوسرے کی طرف القا کیا کرتے تھے (اور بعض نے کہا ہے کہ مشرکین عرب نے اسے مجوسیوں سیکھا تھا ) کہ اگر ہم مردہ جانور کا گوشت کھاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے خدا نے مارا ہے لہٰذا وہ اس جانور سے بہتر ہے جسے ہم مارت ہیں ، یعنی مردار نہ کھانا خدا کے کام سے ایک قسم کی بے اعتنائی ہے ۔
وہ اس ( حقیقت ) سے غافل ہیں کہ جو اپنی طبیعی موت مرتا ہے وہ اس بات کے علاوہ کہ اکثر بیمار ہوتے ہیں، اس کا سر نہیں کاٹا جاتا اور گندہ اور گاڑھا خون اس کے گوشت کے اندر ہی رہ جاتا ہے اور وہ مر جاتا ہے اور فاسد اور خراب ہوجاتا اور وہ گوشت بھی آلودہ اور فاسد کردیتا ہے، اسی بنا پر خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اس جانور کا گوشت کھاؤ جو مخصوص شرائط کے ساتھ ذبح ہوا ہے اور اس کا خون باہر گرا ہے۔
ضمنی طور ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ غیر اسلامی ذبیحہ حرام ہے کیوں دیگر جہات کے علاوہ اس کے ذبح کے وقت غیر مسلم خدا کا نام لینے کے پابند نہیں ہوتے ۔

۱۲۲ اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُورًا یَمْشِی بِہِ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَثَلُہُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ
۱۲۳ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِی کُلِّ قَرْیَةٍ اٴَکَابِرَ مُجْرِمِیہَا لِیَمْکُرُوا فِیہَا وَمَا یَمْکُرُونَ إِلاَّ بِاٴَنفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُونَ۔
ترجمہ
۱۲۲۔ وہ جو کہ مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور قرار دیا کہ جس کے ذریعے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتاہے، کیا اس شخص کی مانند ہے کہ جو تاریکیوں میں ہو اور اس سے باہر نہ نکلے، اس طرح کفار کے لئے وہ(برے ) اعمال جو وہ انجام دیتے تھے زینت دئے گئے ہیں (او رخوبصورت دکھائی دیتے ہیں)۔
۱۲۳۔اور ہم نے اسی طرح سے ہر ہر شہر اور ہر ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم قرار دئے ہیں، (ایسے افراد کہ ہم نے جن کے اختیار میں ہر قسم کی قدرت دے دی تھی لیکن انھوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور غلط راستے پر چل پڑے)اور آخر کار ان کا معاملہ اس حد کو پہنچ گیا کہ وہ مکر(کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے) میں مشغول ہوگئے، لیکن (فی الحقیقت ) وہ صرف اپنے آپ کو ہی (دھوکہ اور) فریب دیتے ہیں اور سمجھتے نہیں۔

شان نزول

پہلی آیت کی شان نزول کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے :
ابوجہل جو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بہت ہی سخت دشمنوں میں سے تھا، ایک دن اس نے آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو سخت تکلیف پہنچائی پیغمبر کے بہادر چچا حضرت حمزہ جو اس دن ایمان نہیں لائے تھے اور اسی طرح آپ کے دین کے بارے میں مطالعہ اور سوج بچار کررہے تھے اور اس دن اپنے معمول کے مطابق شکار کے لئے بیابان میں گئے ہوئے تھے، جب بیابان سے واپس آئے تو ابوجہل اور اپنے بھتیجے کے مابین ہونے والے ماجرے سے باخبرہوئے، انھیں بہت غصہ آیا، وہ فورا ابوجہل کی تلاش میں نکل پڑے، وہ ملا تو اس کے سر یا ناک پر اس طرح مارا کہ خون جاری ہوگیا، ابوجہل نے اس تمام نفوذ واقتدار کے باوجود جو وہ اپنی قوم وقبیلہ بلکہ مکہ کے لوگوں کے درمیان رکھتا تھا حضرت حمزہ کی بہت زیادہ شجاعت کو دیکھتے ہوئے کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا ۔
اس کے بعد حمزہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی تلاش میں نکلے اور اسلام قبول کرلیا، اس دن سے باقاعدہ اسلام کے ایک افسر رشید کے طور پر آخر عمر تک اس آسمانی دین کا دفاع اور اس کی حفاظت کرتے رہے۔
اوپر والی آیت اسی واقع کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں حمزہ کے ایمان اور ابوجہل کے کفروفساد میں پائیداری کو مشخص کیا گیا ہے۔
بعض رویات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت عمار یاسر کے ایمان لانے اور ابوجہل کے کفر پر اصرار کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔
بہرحال یہ آیت بھی قرآن کی دوسری آیات کی طرح ہی اپنے محل نزول کے ساتھ ہی اختصاص نہیں رکھتی اور ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جو ہر سچے مومن اور ہر بے ایمان اور ہٹ دھرم پر صادق آتی ہے ۔

عددی اکثریت کچھ اہمیت نہیں رکھتیایمان اور نور نظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma