گذشتہ آیات میں توحید کے بارے میں متعدد منطقی دلیلیں بیان ہوئی ہیں کہ جو خدا کی وحدانیت اور اثبات اور شرک وبت پرستی کی نفی کے لئے کافی تھیں لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرم اور متعصب مشرکین کی ایک جماعت نے سرتسلیم خم نہ کیا اور وہ بہانے تراشنے لگے اور منجملہ ان کے، پیغمبر ﷺسے عجیب غریب خارق العادات کے لئے کہ جن میں سے بعض تو بنیادی طور پر محال تھے، مطالبہ کرنے لگے اور دروغ بیانی کے ساتھ یہ دعوا کرنے لگے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے معجزات دیکھ کر ایمان لے آئیں، قرآن پہلی آیت میں ان کی کیفیت اور وضع کو اس طرح بیان کرتا ہے : انھوں نے انتہائی اصرار کے ساتھ یہ قسم کھائی کہ اگر ان کے لئے معجزہ آجائے تو وہ ایمان لے آئیں گے(وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَہْدَ اٴَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَائَتْہُمْ آیَةٌ لَیُؤْمِنُنَّ بِہَا)۔(۱)
قرآن ان کے جواب میں دو حقیقتوں کو بیان کرتا ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ تو ان سے یہ کہہ دے کہ یہ کام میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں تمھارے ہر مطالبے اور ہر تقاضے کو پورا کردوں، بلکہ معجزات تو صرف خدا ہی کی طرف سے (ہوتے) ہیں اور اسی کے فرمان سے ظہور پذیر ہوتے ہیں
( قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِنْدَ اللهِ)۔
اس کے بعد روئے سخن ان سادہ لوح مسلمانوں کی طرف کرتے ہوئے کہ جو ان کی سخت اور شدید قسموں سے متاثر ہوگئے تھے کہتا ہے: تم نہیں جانتے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اوراگر یہ معجزات اور ان کی درخواستوں کے مطابق مطلوبہ نشانیاں دکھا بھی دی جائیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لایئں گے( وَمَا یُشْعِرُکُمْ اٴَنَّہَا إِذَا جَائَتْ لاَیُؤْمِنُونَ )۔(2)
پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ان کے ساتھ ٹکراؤ کے مختلف مناظر اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ یہ گروہ حق کی جستجو میں نہیں تھا بلکہ ان کا ہدف اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو بہانہ تراشیوں میں لگائے رکھیں اور شک وشبہ کے بیج ان کے دلوں بکھیرتے رہیں۔
بعد والی آیت میں ان کی ہٹ دھرمی کی علت کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے کہ وہ کجروی، جاہلانہ تعصبات اور حق کے مقابلہ میں سرتسلیم خم نہ کرنے پر اصرار کی وجہ سے قوت ادراک اور صحیح نظر کھو بیٹھے ہیں، اور حیران وپریشان اور گمراہ ہوکر سرگردانی کے عالم میں پھر رہے ہیں چنانچہ قرآن اس طرح کہتا ہے: ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو دگرگوں کردےں گے جیسا کہ وہ آغاز میں اور دعوت کی ابتدا میں ایمان نہیں لاتے تھے( وَنُقَلِّبُ اٴَفْئِدَتَہُمْ وَاٴَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ)۔
یہاں بھی اس کام کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے جس کی ایک نظیر قبل کی آیات میں گزرچکی ہے، یہ حقیقت میں خود ان ہی کے اعمال کا نتیجہ اور عکس العمل ہے، اس کی خدا کی طرف نسبت اس عنوان سے ہے کہ وہ علت العلل اور عالم ہستی کا سرچشمہ ہے اور ہر چیز میں جو بھی خاصیت ہے وہ اسی کے ارادہ سے ہے، دوسرے لفظوں میں خداوند تعالی نے ہٹ دھرمی، کجروی اور اندھے تعصبات میں یہ اثر پیدا کیا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ انسان کے ادراک اور فکرونظر کو بے کار کردیتے ہیں۔
آیت کے آخر میں کہتا ہے: ہم انھیں طغیان وسرکشی کی حالت میں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ سرگرداں پھرتے رہیں( وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُون)۔(3)
۱۱۱ وَلَوْ اٴَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمْ الْمَلاَئِکَةَ وَکَلَّمَہُمْ الْمَوْتَی وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَلَکِنَّاٴَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ۔
ترجمہ
۱۱۱۔ اور اگر ہم ان پر فرشتوں کو نازل کردیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اورتمام چیزوں کو ان کے سامنے جمع کردیتے تو بھی وہ ہرگز ایمان نہ لاتے، مگر یہ کہ خدا چاہے ، لیکن ان میں سے اکثر نہیں اجانتے۔
تفسیر